منزل ما دور نیست

 وصیل خان

’ منزل ما دور نیست ‘ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں کچھ عرصہ سے قائم برج کورس کے طلباء کی خود نوشت تحریروں پر مشتمل ایک ایسا کتابی مجموعہ ہے جس میں مختلف علاقوں اور دینی مدارس کے فارغین طلباء کے وہ تاثرات و احساسات شامل ہیں جو انہوں نے برج کورس میں اپنی شمولیت کے بعد تحریر کئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر طلباء کا تعلق یوپی اور بہار سے ہے۔ کتاب میں ایسے کل ۳۹؍طلباءو طالبات کی تحریریں شامل ہیں جنہیں پڑھ کر نہ صرف ان کی علمی تڑپ کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اسلامی علوم کے حصول کے بعد عصری علوم کی دستیابی کیلئے کس قدر مشکلات اور طرح طرح کی روکاوٹوں کا سامنا کرتے ہوئے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھااوربڑی حد تک کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ فی الوقت مسلمانوں کو علمی میدان میں دو بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے، ایک تو یہ کہ برادران وطن کے مقابلے میں ان کی تعلیمی رفتار بہت سست ہے۔ دوسرے یہ کہ ہمارے دینی داروں کے فارغین عصری علوم سے اتنا نا آشنا ہوتے ہیں کہ اگر وہ چاہیں بھی تو ایسا نہیں کرسکتے کہ وہ برادران وطن سے اسلامی علوم کی ترویج کیلئے راست مکالمہ کرسکیں، عمومی طور پر وہ انگریزی سے بڑی حد تک نابلد ہوتے ہیں اور اسی لسانی بُعد کے سبب انہیں بے پناہ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس تناظر میں یہ اشد ضروری ہوجاتا ہے کہ ہمارے طلباء خاص طور سے دینی مدارس کے طلباء عصری علوم سے مکمل آگاہی رکھتے ہوں تاکہ وہ اسلامی علوم کے برج پر چلتے ہوئے عصری علوم کی اس سرزمین تک پہنچ سکیں جہاں مدعو کی حیثیت سے انسانوں کی ایک بڑی تعداد ان کی منتظر ہے۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی نے اس چار سالہ کورس کو برج کورس کے نام سے اسی لئے موسوم کیا ہے اور یہ ایک انتہائی مفید، بروقت اور مثبت قدم ہے جس کی ستائش نہ کرنا شدید نا انصافی کہی جائے گی۔ ورنہ بصورت دیگر اگر اسلامی علوم اور عصری علوم کا خلا ایسے ہی بڑھتا رہا تو داعی اور مدعو ایک دوسر ے کیلئے اجنبی اور انجان بن جائیں گے اور زبان حال سے یہ کہتے پھریں گے کہ، زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔

کتاب میں موجود 39؍ مضامین اصلا ً ان خوابوں کی روداد ہیں جو تمام تر تجربات، مشاہدات اور ذاتی احساسات پر مبنی ہیں۔ ہر داستان اپنی جگہ پوری طرح مکمل ہے جس میں درد بھی ہے تڑپ بھی ہے اور کسک بھی۔ لیکن ان تمام داستانوں کے پیچھے جو قدر مشترک موجود ہے وہ یہ کہ ہر ایک طالب علم کا ذہن دنیاوی سازشوں اور بد عنوانیوں سے پاک ہے اور وہ پورے خلو ص اور لگن کے ساتھ عصری علوم کا حصول اس مقصد کیلئے کرنا چاہتا ہے کہ اس کے ذریعے وہ خالص قرآنی تعلیمات اور اسوہ ٔ رسول ؐ ان برادران وطن تک پہنچاسکے جس کی انہیں فی زمانہ شدید ضرورت ہے۔ اس تعلق سے ایک مثال لیجئے۔ عباسی دور خلافت میں بغداد کے سب سے بڑے دارالعلوم نظامیہ کے تعلق سے دربار خلافت میں مسلسل منفی خبریں پہنچ رہی تھیں کہ مدرسہ کے قیام کا مقصد کمزور ہوتا جارہا ہے اور طلباء وھن کا شکار ہورہے یعنی ان میں دنیاوی جاہ وحشم کی رغبت بڑھتی جارہی ہے۔ خلیفہ کو سخت تشویش ہوئی اس نے دارالعلوم کا دورہ کیا اور مختلف اساتذہ اور طلباء سے ملاقات کی، ایک طالب علم سے اس نے سوال کیا کہ تمہارے حصول علم کا مقصد کیا ہے اس نے جواب دیا کہ میرے والد قاضی ہیں ان کا بڑا رعب و دبدبہ ہے میں وہی سب کچھ حاصل کرنا چاہتا ہوں، دوسرے طالب علم نے جواب دیا میں علم کے توسط سے لوگوں میں اپنی عظمت کا سکہ بٹھانا چاہتا ہوں ان باتوں سے خلیفہ فکرمند ہوا، اس نے پختہ ارادہ کرلیا کہ اب واقعی اس ادارے کو بند کردینا ہی بہتر ہے، تبھی اس کی نگاہ ایک ایسے طالب علم پر پڑی جوایک گوشے میں مطالعے میں مصروف تھا، خلیفہ نے اس سے بھی وہی سوال کیا اس نےکہا حصول تعلیم سے میرا مقصد یہ ہے کہ مجھے اس بات کا علم ہو جائے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺنے ہم پر کیا چیزیں حرام کی ہیں اور کن چیزوں کی ہمیں اجازت دی ہے تاکہ میں اسی کی روشنی میں اپنی زندگی کا سفر پورا کرسکوں۔ بس اسی بات نے خلیفہ کو مطمئن کردیا اور اس نے مدرسے کو بند کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا۔ کہتے ہیں کہ وہ وہی طالب علم بعد میں امام غزالی کی حیثیت سے اقصائے عالم میں مشہورہوا۔

اس برج کورس کا مقصداگر یہی ہے کہ اس کے ذریعے اسلامی علوم کی خالص اور بے آمیز ترسیل کی جائے  تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ تعداد میں دائرہ ٔ اسلام میں داخل ہوسکیں تو یہ انتہائی خوش آئند بات ہے اور یقینا ً اس کے دوررس فائدے بھی حاصل ہوں گے، اس کے برعکس اگر مقصد حیات دنیا کا حصول ہے تو یہ کام پوری دنیا میں ہورہا ہے۔ مومن کی شناخت یہ ہے کہ وہ اپنے اثرات دوسروں پر ڈالے نہ کہ دوسروں کے اثرات خود قبول کرلے۔ اچھائی عموما ً خشک اور بے فائدہ نظر آتی ہے جبکہ برائی انتہائی پرکشش ہوتی ہے اور یہی کشش لوگوں کی رغبت و توجہ کا سبب بن جاتی ہے۔ ایک عالم دین اپنی عالمہ  شریک حیات کو ممبئی لائے دھیرےدھیرے خاتون کے ڈھنگ بدلنے لگے پتہ چلا کہ اس کی وجہ ان کی پڑوس کی فیملی ہے جو بیوٹی پارلر چلاتی تھی۔ اس مارڈرن اور فیشن زدہ فیملی نے اس عالمہ خاتون کو اپنے رنگ میں اس طرح رنگا کہ پہلے تو اس نے برقعہ اتار پھینکا پھر رفتہ رفتہ نماز و عبادات سے دوری بنائی اور ایک دن شوہر سے علیحدگی اختیار کرلی۔

برج کورس کا جو مقصد ہے اس سے ذرا بھی انحراف تمام تر منصوبہ بندیوں کو خاک کرسکتا ہے اس لئے بے حد محتاط اور چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔ مضامین کے مطالعے سے اس بات کا بخوبی پتہ چلتا ہے کہ طلباء میں جدید فکری رجحانات کے سبب ان کے اندر قلبی و ذہنی وسعت میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے ان کی سوچ اور فکروں پر جو دبیز تہیں جمی تھیں انہیں کھرچ ڈالا اور کیسے مختلف مکاتب فکر اور مسالک کے ماننے والے ایک بینر تلے جمع ہوگئے ان کے اندر دین، اسلام، انسانیت اور ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ جاگزیں ہوا اور وہ کس طرح مسلک اور فرقہ بندیوں کی قیود سے آزاد ہوکر دین اسلام کی جڑوں کو سیراب کرنے کیلئے یکجا ہوگئے۔ اس کے باوجود دوران  مطالعہ یہ خدشہ بھی بار بار سر اٹھاتا ہے ( خدا کرےوہ خدشہ ہی ہو ) طلباء پر ایک رنگ خاص نمایاں نظر آتا ہے، ان کے اندر اسلاف اور دور حاضرکے علماء ان کے طرز تعلیم اور خاص طور پر مسلکی اختلافات کو لے کر ایک جذبہ ٔ تنفر نظر آتا ہے۔ حالانکہ آج اسلامی اساس اور تعلیمات کی جو بھی شکل اور جتنے مآخذ موجود ہیں وہ سب کے سب انہی اسلاف کی معرفت ہم تک پہنچے ہیں، اصولاًاسلاف کا رد اور بطلان ان تمام تعلیمات دین کا بطلان ہے جو ان کے ذریعے ہمیں ملی ہیں۔

بہار سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ روشنی امیرکے اس اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ برج کورس کے بیشتر طلباء کا اسلاف اور خصوصاً ائمہ ٔ اربعہ کے تعلق سے کم و بیش ایک جیسا زاویہ نگاہ ہے جو آگے چل کر ایک بڑے فساد کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔

’’ برج کورس کے قیام کا ایک مقصد جو میری سمجھ میں آیا ہے وہ قو م کے نوجوانوں کی بیدار مغزی بھی ہے اور مستقبل کیلئے ایک گروہ کی تشکیل نو جو صرف مسلمان ہو، جس کے لئے فرقہ سے وابستگی کوئی معنی نہ رکھتی ہو کیونکہ حصہ داری افراد کے ذریعے نہیں جماعت کے ذریعے ملتی ہے اور یہاں مختلف مدارس کے طلباء یکجا ہوکر قوم کا مستقبل سنوارنے کیلئے کوشاں ہیں۔ مدارس سے فراغت کے بعد وہ ان فرائض کو انجام دیتے ہیں، لیکن کسی خاص گروہ سے وابستہ ہوکر ہی اس فریضے کو انجام دیتے ہیں۔ لیکن یہاں اصلاح کے بعد سب بنیان مرصو ص کے زمرے میں شامل ہوتے جارہے ہیں، جن کے ذریعے ہم اپنا کھویا ہوا اقتدار حاصل کرسکتے ہیں، جس پر صدیوں سے ہمارے اسلاف کا قبضہ رہا ہے۔ ‘‘

 یہ اقتباس اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ان طلباء کی ایک خاص نہج پر تربیت کی جارہی ہے جو انہیں وسعت نظری کے اعلانیئے کے باوجود تنگ نظری کا اسیر بناسکتی ہے۔ اسلاف سے رشتے کا انقطاع ایک طرح کی ہلاکت کے مترادف ہوسکتا ہے۔ اس برج کورس کی تیاریاں، مقاصد سب متبرک سہی لیکن اس طرح کی سوچ شدید نقصان کا باعث بھی بن سکتی ہے جس سے پہلو تہی یا چشم پوشی کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیئے۔

تبصرے بند ہیں۔