مودی کا بینہ کی تنظیم نو اور بلی کے بکرے
ڈاکٹر سلیم خان
مرکزی سرکار میںفی الحال ڈبل انجن لگا ہوا ہے۔ مودی اور شاہ کے علاوہ باقی سارے وزراء کی حیثیت ریل کے ڈبوں کی ہے ۔ اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ انتظامی ناکامیوں کا سہرہ ان ڈبوں پر باندھ کر انہیں کارشیڈ میں مرمت کے لیے بھیج دیا جائے تاکہ مودی جی مہارت پر تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسائے جاسکیں ۔ بلی کے بکروں کی تلاش شروع ہوئی تو مودی سرکار مقدس گائیں مثلاً وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کو اس سے الگ کیا گیا ۔ آج بھی ان کا نام امیت شاہ سے اوپر لکھا جاتا ہے لیکن ان کو گھر سے باہر نکال کرسرحد پر تعینات کردیا گیا ہے جہاں چینی انہیں مصروف عمل رکھتے ہیں ۔ وہ بیچارے وہیں گھومتے ٹہلتے رہتے ہیں ۔ امور خانہ داری کا ٹھیکہ امیت شاہ کو دیا گیا ہے لیکن وہ پارٹی کے کنویں میں ٹراّتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ ان کے ذمہ ملک کے معاملات چلانا ہے جبکہ بی جے پی کے صدر جے پی نڈا ہیں ۔ نتن گڈکری نے خود کو سڑک ناپنے اور پل بنا کر روپیہ کمانے میں مصروف کررکھا ہے۔ نہ کوئی ان کے کام میں مداخلت کرتا ہے اور نہ وہ کسی کے کام مخل ہوتےہیں ۔ جب کبھی ان کے بھاگ کھلیں گے تو یہ دھن دولت ان کے کام آئے گی۔
مودی کابینہ میں پانچواں نمبر نرملا سیتا رامن کا آتا ہے۔ ان کا کام وزیر اعظم کے دفتر میں تیار کردہ بجٹ کو پیش کرنا اور پی ایم او کے ذریعہ وضع کردہ پیکیج کا اعلان کرنا ہے۔ ان سے جب تفصیل پوچھی جاتی ہے تو سوالات کو سرکاری افسران کی جانب موڑ دیتی ہیں ۔ ان کا یہ رویہ معقول ہے کیونکہ جس منصوبے کی افادیت محض اعلان تک محدود ہو اور جس کو کبھی عملی جامہ پہنانا ہی نہ ہو اس کا ناپ لینے کی زحمت کیوں کی جائے؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محترمہ نرملا سیتا رامن جس قدر احمق نظر آتی ہیں اتنی بیوقوف نہیں ہیں۔ چھٹے نمبر پر وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر ہیں ۔ کسان تحریک اگر نہیں ابھرتی تو کسی یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہندوستان میں کوئی وزیر زراعت بھی ہیں۔ ان کا کام لکیر کے فقیر کی مانند وزیر اعظم کے غلط خط کو پیٹتے رہنا ہے ۔ ایک مرتبہ مودی نے انہیں کنارے کرکے خود بات چیت کرنے کا اشارہ دیا تھا لیکن پھر ڈر کر پیچھے ہٹ گئے۔ جنوری کے بعد نریندر سنگھ تو مر بھی نریندر مودی کی طرح اس قدر عظیم تحریک کے تئیں شتر مرغ کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ کسان تحریک نہ ان سے نگلتے بنتی ہے اور نہ اگلتے بنتی ہے۔
مودی کابینہ میں ساتواں نمبر ایس جئے شنکر کا آتا ہے۔ وہ سیاستداں نہیں بلکہ ایک ہونہار سفاتکار تھے لیکن سرکار میں شامل ہونے میں ان کا بھی دماغ ماوف ہوگیا ہے ۔ پہلے تو انہوں نے سارے پڑوسیوں کو ناراض کیا۔ نیپال جیسے سابق ہندو راشٹر کو چین کی گود میں ڈھکیل دیا۔ آنکھ موند کر پیروی کرنے والےبنگلادیش کو آنکھیں دکھانے پر مجبور کیا۔ سری لنکا سے پنگا لے لیا۔ میانمار میں بدنامی مول لی ۔ چین کے ساتھ رسوائی پر رسوائی سہتے رہے ۔ مسلم ممالک سے لے کر یوروپ اور امریکہ سے بھی سفارتی تعلقات کو کشیدگی کا شکار کردیا۔ ویسے بیچارے جئے شنکر کو امیت شاہ کی بدزبانی اور مودی جی بددماغی کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ ایک محاذ سے وہ فارغ ہوتے ہیں تو نیا محاذ کھول دیا جاتاہے۔ قارئین کو یہ جان تعجب ہوگا کہ اس کابینہ میں آٹھویں نمبر پرارجن منڈا ہیں ۔ ان کی تصویر کے نیچے اگر نام نہ لکھا ہوتو کوئی انہیں پہچان بھی نہیں سکتا ۔ یہ چونکہ قبائلی ہیں قبائلی امور کے وزیر ہیں ۔ اسی طرح جیسےمختار عباس نقوی اقلیتی امور کے وزیر اس لیے ہیں کہ مسلمان ہیں ۔ اس کے علاوہ دونوں میں کوئی صلاحیت نہیں ہے۔ منڈا کے ہوتے قبائلی لوگوں کے لیے اپنی زندگی وقف کردینے والے اسٹان سوامی کی حراست میں موت ہوئی ۔ اسٹان سوامی کی موت نے منڈا کی ریاست جھارکھنڈ کے لاکھوں قبائلی عوام کو غمزدہ کردیا لیکن شاید موصوف کو اس کا پتہ بھی نہیں چلا ۔ ایسا مرکزی وزیر فلاح بہبود کا کیا کام کرے گا؟
مودی جی کےدس رتنوں میں نواں نمبر اسمرتی ایرانی کا آتا ہے۔ کانگریس کے زمانے میں وہ بہو تھیں ۔ خوب شور شرابا کرتی تھیں بلکہ پٹرول ڈیزل کے بھاو پر انہوں نے اپنی چوڑیاں وزیر اعظم منموہن سنگھ کی خدمت میں پیش کرکےگویا خود پر بیوگی اوڑھ لی تھی خیر ایک اداکارہ کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ مودی جی نے انہیں پہلے توانسانی وسائل وزیر بنایا تو جعلی ڈگری کے سبب ہٹانا۔ نشر و اشاعت کے طور ناکام رہیں تو کپڑے کی وزارت سونپی گئی۔ انہوں نے ساس بن کر نت نئے فیشنشروع کردیئے مگر راہل گاندھی کو ہرانے کے سبب خواتین کی فلاح بہبود کا وزیر بنایا گیا۔ فی الحال ان کااترپردیش خواتین پر مظالم کے معاملے میں سرِ فہرست ہے۔ ہاتھرس جیسے سانحہ پر بھی وہ منہ میں دہی جمائے رہیں۔ ابھی لکھیم پور میں سماجوادی پارٹی کی امیدوار ریتو سنگھ کے ساتھ بی جے پی کی بدسلوکی وائرل ہورہی ہے۔ سرِ عام ان کی ساڑی کھینچی جا رہی ہے لیکن سمرتی دھرت راشٹر کی مانند آنکھو ں پر پٹی باندھے بیٹھی ہیں۔ اس ٹیم کے دسویں کھلاڑی پیوش گوئل کو ارون جیٹلی بنانے کی تمام کوشش ناکام ہوچکی ہے۔ وہ مودی جی تعریف و توصیف کے سوا کوئی قابلِ ذکر کارنامہ انجام نہیں دے سکے۔ ملک بھر میں ایک راشن کا رڈ کا نظام نافذ کرنے میں ناکام وزیرفی الحال مودی کی منظور نظر بنا ہواہے۔
ان دس ناکام ترین لوگوں کو نہیں چھیڑا گیا اس لیے کہ پھر تو پانی سر سے اونچا ہوکر مودی اور شاہ تک آجاتا یہ گویا محفوظ درمیانی خندق یا انگریزی میں بفر(buffer) کہہ لیں کا کام کررہے ہیں۔ اس کے بعد والے گیارہ کابینی اراکین میں آٹھ نئے کھلاڑی شامل کیے گئے۔ سب سے زیادہ بلی کے بکرے یہیں بنائے گئے۔ اس مرتبہ جن کو باہر کا راستہ دکھایا گیا ان کی تعداد 23 فیصد بنتی ہے۔ ویسے کہا جاتا ہے کہ ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کردیتی ہے اس ٹوکری میں ایک درجن سڑے گلےآموں کا اعتراف خود مودی جی نے کرلیا ورنہ پرکاش جاویڈیکر جیسے کھٹے ناگپوری سنترے کو دروازہ نہیں دکھایا جاتا۔ ڈاکٹر ہر ش وردھن کو نکال کر گویا کورونا کے سارے پاپ گنگا میں بہا دیئے گئے حالانکہ اس پورے عرصے میں وزیر صحت کو آزادانہ کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ وزیر اعظم کبھی تالی اور تھالی بجواکر تو کبھی دیا بتی جلواکر کورونا کو بھگانے کی کوشش کرتے رہے یہاں تک کہ جوش میں آکر کورونا کے خاتمے کا اعلان بھی فردیا ۔ ملک میں بنی ویکسین اپنی شان بڑھانے کے لیے برآمد کردی ۔ پرائم منسٹر فنڈ پر سانپ کی مانند کنڈلی مارے بیٹھے رہے اور موقع پاتے وزیر صحت کو ڈس کر چھٹی کر دی ۔ ہرش وردھن کی واحد غلطی رام دیو کے ساتھ سانٹھ گانٹھ تھی۔ سنتوش گنگوار کو کورونا سے متعلق مودی اور یوگی کے فریب کا پردہ فاش کرنے کی سزا ملی اور نکال باہر کیے گئے تاکہ کوئی اور ایسی جرأت نہیں کرسکے۔
اپنی ذمہ داریوں کے سبکدوش ہونے والوں میں سب سے عبرتناک انجام روی شنکر پرشاد کا ہے۔ وزیر انصاف کے طور اسی شخص نے بابری مسجد کے خلاف ناعاقبت اندیش فیصلہ کروانے میں اہم ترین کردار ادا کیا ۔ دہلی فساد کے بعد کپل مشرا پر ایف آئی آردرج کرنے کا حکم دینے والے جسٹس مرلی دھر کا راتوں رات تبادلہ کروادیا۔ نہوں نے عدلیہ کی جو مٹی پلید کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی ۔ سرکار نے اسے ٹوئٹر کے خلاف چھو ُ کہا تو اس پر بھونکنے لگا لیکن ایک نہ چلی ۔ ٹوئیٹر خود اس کے اکاونٹ کو معطل کرکے پرساد کو سرِ بازار ننگا کردیا۔ ذرائع ابلاغ میں مودی سرکار کی ہر حماقت کا جواز پیش کرکے اسے ماسٹر اسٹوک قرار دینے والے روی شنکرسے مودی جی نے وزارت کا پرشاد چھین لیا۔ ہری دوار کے رمیش پوکھریا ل نشنک وزیر تعلیم تھے۔ بچوں کو امتحان کی تیاری کا طریقہ وزیر اعظم نے سکھایا۔اس بیچارے کو امتحانات کے ملتوی ہونے کی خوشخبری سنانے کا موقع بھی مودی جی نے نہیں دیا یعنی تعلیمی نظام کو چوپٹ تو خود کیا اور اس کی سزا پوکھریال کو دے کر الوداع کہہ دیا۔ بنگال کے بابل سپریہ سمیت بنگالن رکن اسمبلی دیبوشری چودھری کو بھی نکال باہر کیا گیا ۔یہ عجب انصاف ہے کہ مودی اور شاہ کی جوڑی تو ممتا سے ہاری مگر سزابابل اور چودھری کو سنائی گئی۔
برخواست کیے جانے والے باقی وزراء اس قابل بھی نہیں ہیں کہ ان کا ذکر کیا جائے۔ ان لوگوں کو اگر ہٹایا نہیں جاتا تو کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہ مرکزی وزیر ہیں۔ ویسے کولہو کے بیل کی کوئی انفرادی شناخت نہیں ہوتی۔ سارے لوگ تیل والے کو جانتے ہیں اس کے نندی بیل بے نام و نشان رہتے ہیں اس لیے کسی کو بھی کبھی بھی مذبح خانے بھیج دیا جاتا ہے۔ ہندوستان کی عوام پریشان تھی کہ جب سارا کام18 ؍18 گھنٹے جاگ کرمودی جی خود کرتے ہیں تو ان وزراء کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اب پتہ چلا ناکامی چھپانے کے لیے پالے جانے والے یہ جئے بجرنگ بلی کے بکرے ہیں جنھیں وقت ضرورت بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ ان لوگوں کی جگہ لائے جانے والوں کی حیثیت بھی وہی ہے۔ اپنی پارٹی سے غداری کرنے کے نتیجے میں ان میں سے بیشتر کو انعام کے طور پر وزارت کا تحفہ تھمایا گیا۔ اب وہ لوگ پی ایم او کے احکامات کی بجا آوری کرتے رہیں گے اور وزیر اعظم کا شکریہ ادا کرکے احسانمندی کا ثبوت دیں گے۔ ان کو خوب کھلا پلاکر پالا پوسا جائے گا تاکہ وقت ِضرورت ان کا بھی وہی استعمال کیا جاسکے جو پیش رو وزراء کا ہوا ہے۔
(۰۰۰۰۰۰جاری)
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔