میری غریب آنکھوں میں اسکول چبھ گیا

کامران غنی صباؔ

ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر یا سمینار، ورک شاپ کی آرام دہ کرسیوں کی آغوش میں قوم کی تعلیمی و معاشی پسماندگی پر دو آنسو بہا لینا یا کچھ کاغذی منصوبے بنا لینا جتنا آسان ہے اس سے کہیں زیادہ مشکل ان مسائل کے بیچ میں رہتے ہوئے انہیں حل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ تقریباًچھ سال مڈل اسکول میں ملازمت کرتے ہوئے مجھے ’خواب‘ اور ’حقیقت‘  کا فرق محسوس ہوا۔ اب ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر تعلیمی مسائل پر کی جانی والی باتیں گالیوں سے زیادہ بری لگتی ہیں۔ سمینار، سمپوزیم اور ورک شاپس کے بینر ایسا لگتا ہے جیسے منھ چڑا رہے ہوں۔ مقررین کی تقریریں کانوں پر عذاب بن کر نازل ہوتی ہیں۔ دانشوروں کی تحریریں سنہرے حروف میں لکھی ہوئی گالیاں نظر آتی ہیں۔

معاف کیجیے، میں کسی کی مخالفت نہیں کر رہا ہوں، اپنی بے بسی کا نوحہ پڑھ رہا ہوں۔ اگر آپ بھی میری نوحہ خوانی میں شریک ہونا چاہتے ہیں تو کبھی گھر سے نکلیے۔ بہت زیادہ دور جانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اپنے آس پاس کے کسی سرکاری اسکول میں چلے جائیے۔ بچوں سے گھل مل کر ان کے درد کو باہر نکالنے کی کوشش کیجیے۔ آپ کو درجنوں ایسے تیم بچے مل جائیں گے جن کا کوئی سہارا نہیں۔ خود دار ماں کسی کے سامنے دست طلب دراز نہیں کرسکتی۔ بچہ اسکول کے بعد فارغ وقت میں دکان چلاتا ہے، مزدوری کرتا ہے یا کسی اور طرح سے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرتا ہے۔ ہم بہت آرام سے کہہ سکتے ہیں کہ نابالغ بچوں کا کام کاج کرنا قانوناً جرم ہے لیکن اس جرم کے سد باب کے لیے ہم اپنے ڈرائنگ روم سے باہر نہیں نکل سکتے۔

ہم بہت آرام سے مولویوں کو گالیاں دیتے ہیں، کھری کھوٹی سناتے ہیں، تنگ نظر، قدامت پرست، دقیانوس اور نہ جانے کیسے کیسے’ خوب صورت الفاظ‘ سے نوازتے ہیں۔ کبھی فرصت نکال کر کسی مدرسے میں دو چار روز رہ کر اندازہ کیجیے کہ کیسے کیسے گھروں کے کیسے کیسے بچے انہی تنگ نظر اور قدامت پرست مولویوں سے علم و شعور حاصل کر رہے ہیں جنہیں ہم اپنے پاس بٹھانا کسرِ شان سمجھتے ہیں۔ سردیوں کی ان ٹھٹھرتی رات میں کہ جب ہم اور آپ رضائی اور غیر ملکی کمبلوں میں مخملی نیند کے مزے لے رہے ہوتے ہیں، ان بچوں کو بسا اوقات معمولی چادریں بھی نصیب نہیں ہوتیں۔ ہم مولویوں اور مدارس کے ان بچوں کو برا بھلا تو کہہ سکتے ہیں لیکن کبھی ان سے مل کر ان کا حال چال نہیں پوچھ سکتے۔ مدارس کے بچوں کے پاس بچھانے کے لیے بستر اور اوڑھنے کے لیے چادر ہو نہ ہو ہمیں اس سے کیا مطلب، ہمیں تو بس یہ دیکھنا ہے کہ مدارس میں انگریزی، کمپیوٹر اورسائنس کی تعلیم دی جارہی ہے یا نہیں؟

سرکاری اسکول ہوں یا عام مدارس دونوں جگہ تقریباً ایک جیسے سماجی ومعاشی پس منظر کے بچے نظر آتے ہیں۔ پھر ان اداروں کا انتظام بھی اتنا ناقص ہوتا ہے کہ ہم اکیلے کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتے۔ سرکاری اسکولوں میں ایک تو اساتذہ کی کمی، اس پر ان کی تساہلی پھر حد سے زیادہ کاغذی کاموں کا بوجھ بچوں کی تعلیم پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اکثر اسکولوں میں اساتذہ کی تعداد طلبہ کے تناسب سے نہیں ہے۔ ایک ہی استاد بہ یک وقت کئی کئی جماعتوں کو پڑھاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ نصاب کے مطابق تدریس نہیں ہو پاتی۔ پھر اس حقیقت سے بھی انکار کی گنجائش نہیں کہ سرکاری اسکولوں کے اکثر اساتذہ اپنے پیشے اور فرائض کے تئیں ایماندار نہیں ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی شرم و عار نہیں ہے کہ میں اپنے اسکول کے ذہین بچوں کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ اگر تمہارے کوئی رشتہ دارشہر میں رہتے ہیں تو چلے جائو اور وہیں جا کر تعلیم حاصل کرو۔ آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ ناقص تعلیمی نظام کی وجہ سے نہ جانے کیسے کیسے لعل و گہر اپنی قدر و قیمت نہیں جان پاتے۔ سرکاری اسکولوں میں بڑے بڑے افسران آتے ہیں۔ ناقص تعلیمی نظام پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ تعلیمی معیار کو بہتر کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ کاش کبھی ایسا ہوتا کہ حکومت اپنے افسران کو حکم دیتی کہ سرکاری اسکولوں میں کیمپ لگا کر کچھ روز قیام کریں اور یہی افسران کچھ روز اپنے طریقے کے مطابق بچوں کو پڑھا کر دکھائیں کہ تدریس ایسے ہوتی ہے۔ شاید تب انہیں اندازہ ہوتا کہ زمینی سطح پر آ کر کام کرنا کس قدر دشوار ہے۔

اخبارات و رسائل اور سوشل میڈیا کی دنیا سے باہر نکل کر کبھی زمین پر پیر رکھ کر دیکھیے۔ مسائل کا ایک کوہِ گراں ہیں۔ ہزاروں اور لاکھوں بچے پیار اور توجہ کے مستحق ہیں۔ ہم کب تک حکومت اور قیادت کا رونا روتے رہیں گے۔ ہم اپنی روز مرہ کی ضروریات پر نہ جانے کتنا خرچ کرتے ہیں اور سوچتے تک نہیں۔ ضروریات ہر دن بڑھتی ہی جا رہی ہیں اور ہم اپنی آمدنی کے مطابق ’ضروریات‘‘ کو ’’ایڈجسٹ‘‘ بھی کرتے جا رہے ہیں۔ جب تک موبائل نہیں تھا، بغیر موبائل کے رہتے تھے۔ اب ہر گھر میں جتنے افراد ہیں ان سے زیادہ موبائل فونز ہیں۔ لیپ ٹاپ اور کمپیوٹرز ہیں۔ اے سی، منرل واٹر، مختلف قسم کی ڈشز، تفریح اور پارٹیوں کے نام پر غیر ضروری اخراجات۔ ۔ ہم بہت فراخ دلی سے جب اتنا سارا خرچ کر سکتے ہیں تو کیا کسی ایک بچے کی تعلیمی کفالت کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے؟ قوم کے بے شمار بچے آپ کی توجہ کے مستحق ہیں۔ کبھی ان کے سروں پر دستِ شفقت رکھ کر دیکھیے، کیا پتہ کہ آپ کا لمس کتنی نسلوں کی زندگی بدل دے۔

تبصرے بند ہیں۔