نازِ سخن: معروف شاعرہ نادرہ ناز کا پہلا شعری مجموعہ
ڈاکٹر مظفر نازنین
شہر نشاط کولکاتا ہندوستان کا وہ شہر ہے جو علم و فن کا گہوارہ ہے۔ جہاں علم و فن کے شیدائی، تہذیب و اخلاق کے پیکر، شعر و شاعری کے دلدادہ کی کمی نہیں جن میں شعر فہمی کی صلاحیتیں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ شہر کولکاتا وہ شہر ہے کہ جو ذرّہ یہاں سے اٹھتا ہے۔ وہ نیّرِاعظم ہوتا ہے۔ ادب کی سر زمین یہاں بہت زرخیز ہے۔ اسلئے یہاں سے اٹھنے والا ہر ذرہ آفتاب ِ عالم تاب کی مانند آسمان ِ ادب پر درخشاں اور تابندہ نظر آتا ہے۔ شہر کولکاتا میں نادرہ ناز کی پیدائش ۱۰؍اپریل، ۱۹۷۵ء کو ہوئی۔ محترمہ نے بزرگ، استاد، دیوانِ شاعر جناب حلیم صابر صاحب سے شاگردی کا شرف حاصل کیا۔ اور خوش قسمتی تھی کہ انہیں عالمی شہرت یافتہ، عالمی مقبولیت کے حامل الحاج حلیم صابرؔ صاحب سے شرف تلمذ حاصل ہوئی۔
زیر نظر کتاب ’’نازِ سخن‘‘ کو اپنے والد بزرگوار سید محمد ابو فتح اور اپنی والدہ محترمہ حسینہ خاتون کے نام سے منسوب کیا ہے جن کی محنت، پیار، شفقتوں اور مہربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ان کا شمار معروف شاعرہ میں ہوتا ہے۔ جو صاحبِ کتاب ہیں۔ ان کی اس شاہکار تخلیق پر معروف شاعر نسیم فائق گلہائے تہنیت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں ؎
روشنی کی طرح ظاہر ہو تیرا رازِ سخن
ہے دعا میری سلامت رہے پروازِ سخن
دور تک شہر ادب میں تیری خوشبو پھیلے
نادرہ نازؔ مبارک ہو تجھے نازِ سخن
کتاب کے پہلے حصے میں ۴ مضامین ہیں۔جن میں اول مضمون بعنوان ’’اپنی بات‘‘ میں محترمہ اپنا تعارف اور خاکہ پیش کرتے ہوئے اپنے بارے میں بتاتی ہیں کہ شاعری کا شوق بچپن سے تھا۔ اکثر و بیشتر لکھا کرتی اور پھر پھاڑ کر پھینک دیتی کہ کسی کی نظر نہ لگے۔ ظاہر ہے کہ ہر معصوم ذہن میں کچھ خفیہ صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ اگر ان خفیہ صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے، نکھارا جائے تو انسان کی زندگی میں کامیابی قدم چوم لیتی ہے۔ جیسا کہ Englishمیں کہتے ہیں۔
The talent of a student should be aroused.
اسی طرح ان کی شاعری کو پروان چڑھانے میں ان کے رفیق حیات محمد شاھد پرویز صاحب کا بڑا رول ہے۔ کہتے ہیں کسی مرد کی کامیابی میں عورت کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے تو حقیقت سے انکار نہیں کہ عورت کی کامیابی میں مرد کا ہاتھ ہوتا اور بذاتِ خود محترمہ نادرہ ناز صاحبہ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ :
’’میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتی ہوں کہ آج کے دور میں بھی مجھے ایسا شریکِ سفر ملا۔ ماشاء اللہ محمد شاہد پرویز ایک اچھے رحم دل انسان اور نہایت مخلص اور مشفق شریکِ حیات ثابت ہوئے، اپنی کامیابی کا سہرا اپنے شوہر کے بعد اپنے استاد جناب حلیم صابرؔ صاحب کے سر باندھتی ہیں اور ان کا تہہ دل سے شکر گذار ہیں اور ان کی فیملی کی بھی فیملی کی بھی جنہوں نے ان کی ہمت افزائی کی اور بے پناہ اپناپن اور ڈھیر سارا پیار دیا۔
’’ناز سخن پر ایک نظر ‘‘ کے عنوان سے استاد شاعر جناب قیصر شمیم صاحب یوں رقم طراز ہیں ’’ناز سخن‘‘ کی شاعرہ کے تصور کا ایک خاص پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں ’’احساس ملکیت‘‘ (Sense of Possession) کا حصہ خاصا نمایاں ہے۔ نادرہ نازؔ اپنے محبوب کو بلا شرکت غیرے اپنانے کے قائل ہیں۔انہیں اس کے برخلاف کچھ بھی منظور نہیں۔ نائب مدیر روزنامہ ’’آبشار‘‘ کولکاتا لکھتے ہیں ’’خوشی ہے کہ ناز کے ہاں میں مختلف النوع مضامین پر مبنی اشعار پاتا ہوں۔ شعر کی تکمیل کیلئے لوازمات سفر تو لازم ہیں۔ لیکن شعری حسن کیلئے اسلوب و تیور دونوں ہی کام کرتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بظاہر کوئی سادہ سا شعر ہے۔ لیکن ایک خاص کیفیت لئے ہوئے ہے۔‘‘ صفحہ ۱۲ پر کہتے ہیں۔ میں اپنی بات یہ کہتے ہوئے سمیٹ رہا ہوں کہ ناز کے اشعار ان کی کامیابی کی بشارت دے رہے ہیں۔
حمد باری تعالیٰ کا ارشادکرتے ہوئے کہتی ہیں۔ خدا کا جلوہ ہر جگہ نظر آتا ہے۔ جسے موصوفہ اپنے خوبصورت اشعار کے ذریعہ پیش کرتی ہیں ؎
تو بسا سانسوں میں ہے۔ قائم ہے تجھ سے زندگی
میرے دل کی دھڑکنوں میں کون ہے تیرے سوا
درد کا درماں خدایا تجھ سے بڑھ کر کون ہے
اس جہاں میں کون ہے تیرے سوا حاجت روا
نعت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے تناظر سے یہ خوبصورت اشعار ملاحظہ کریں ؎
اونچا ہے اس کا مرتبہ دونوں جہاں میں
پڑھتا ہے جو قصیدہ محمد کی شان میں
تفسیر میں بیاں کروں اس عالی ذات کی
اللہ بخش دے وہ حلاوت زبان میں
محشر کے روز میری سفارش کریں گے وہ
مدحت نبی ﷺ کی کرتی ہوں میں اس گمان میں
صفحہ ۲۷ سے باقاعدہ غزل کا آغاز ہوتا ہے۔ صفحہ ۳۶ پر ایک شعر ملاحظہ کریں جس سے سمجھ میں آتا ہے کہ موصوفہ کے دل میں کس قدر خوفِ خدا ہے ؎
اللہ کی رحمت سے محروم رہیں گے وہ
جو اپنے گناہوں کا اقرار نہیں کرتے
صفحہ ۱۰۴؍ پر ایک شعر رقم کرتی ہیں محترمہ نادرہ ناز صاحبہ۔ جس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ جب کسی کا کوئی دوست، کوئی عزیز، کوئی ہمنوا اس سے دور رہتا ہے تو کیا کیفیت ہوتی ہے۔ تب شاعرہ اس شعر کو رقم کرتی ہیں ؎
دیکھ لیتی ہوں ایک نظر جو تمہیں
دل کوحاصل سرور ہوتا ہے
یاد آتا ہے وہ سدا سب کو
جو نگاہوں سے دور ہوتا ہے
موصوفہ نادرہ ناز کا یہ پہلا شعری مجموعہ ہے۔ اور انہوں نے پوری کوشش کی ہے کہ ان کے مافی الضمیر کا کوئی حصہ، ان کے مفہوم کا کوئی پہلو زبان اور بیان کی پیچیدگی کی نذر ہوکر اپنی مقصدیت سے محروم نہ ہوجائے۔ ’’ماں‘‘ دنیا کی عظیم شخصیت ہے۔عورت ‘ ہی کی شخصیت ہے جو نوزائیدہ کو جنم دے کر ’’ماں‘‘ بنتی ہے۔ اور اس کے قدموں تلے جنت ہے۔ اس کے تعلق سے موصوفہ کا یہ شعر صفحہ ۱۲۶ پر ملاحظہ کریں ؎
ماں جو دل سے دعا دیتی ہیں
رد دعا وہ کبھی نہیں ہوتی
راہ کی خار دار جھاڑیوں، گھنے جنگلوں کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑتی ہے۔ تبھی کوئی انسان منزلِ مقصود تک پہونچ سکتا ہے ؎
جب میں گذری کبھی پر خطر راہ سے
میری ہمت مرا ساتھ دیتی رہی
رات دن کام میں ہم رہے منہمک
زندگی وقت کے ساتھ چلتی رہی
ایک سماجی زندگی Social Life کیلئے جہاں سوسائٹی یا معاشرہ میں ہمارا کچھ رول بھی ہے کہ یا نہیں۔ یا صرف اپنی خود نمائی کیلئے ہی جینا ضروری ہے۔ اپنے نام و نمود اور اپنی شہرت کیلئے جینا ہی جینا نہیں ہے بلکہ دولت، عزت، شہرت سے زیادہ بڑی اگر کوئی چیز ہے تو وہ ہے انسان کا اپنا ضمیر۔ ان احساسات کی ترجمانی اور اس جذبے کی عکاسی محترمہ نادرہ ناز اپنے اس شعر سے کرتی ہیں ؎
اپنا گلدان یوں پھولوں سے سجایا نہ کرو
اپنی چاہت کیلئے ان کو ستایا نہ کرو
اپنی زینت کیلئے باغ مٹانے والے
خاک ہوجاؤ گے تم آگ لگایا نہ کرو
صفحہ ۱۲۲ ؍پر یہ شعر ملاحظہ کریں ؎
جھکاتی ہوں سر تیرے در پہ فقط
کہیں اور جھکنا گوارا نہیں
ہم اب راز دل کا بتائیں کسے
یہاں تو کوئی بھی ہمارا نہیں
یہ شعر اقبالؔ کے شعر سے مشابہ ہے۔ جیسا کہ شاعر مشرق ڈاکٹر سر علامہ اقبال ؔنے کہا تھا ؎
اقبالؔ کوئی محرم اپنا نہیں جہاںمیں
معلمو کیا کسی کو دردِ نہاں ہمارا
کتاب کے آخری حصے میں صفحہ ۱۵۲؍ سے نظم کی شروعات ہوتی ہے۔ اور حالات حاضرہ کے تعلق سے ۷ نظمیں لکھی ہیں۔ جن کے عنوانات درجِ ذیل ہیں۔
(۱) میرے محبوب تجھ کو کیا معلوم (۲) نئی نسل (۳) آج کی اولاد (۴) باڑھ (۵) پھول (۶) جہیز (۷) فساد۔ محترمہ نادرہ ناز صاحبہ نے ہر پہلو پر روشی ڈالی ہے۔ اور قلم بحقائق کو بڑے ہی خوبصورت انداز سے حسین اشعار میں سجایا ہے۔ شعر ملاحظہ کریں ؎
کل یہ باپ کی شفقت
ماں کی لوریاں بھول جائیں گے
انہیں بوجھ سمجھ کر
اولڈ ایج ہوم
بھیج دیں
یہ آج کی کمریشن ہے
اور
اس کا یہ فیشن ہے
صفحہ ۱۵۴ پر کہتی ہیں ؎
آج بے بس بوڑھے ماں باپ
جن کے نہیں کوئی ساتھ
کسی کونے میں پڑے ہیں
غیر ضروری شئے کی طرح
ان کی کسی کو فکر
وہ بوجھ ہیں اولاد پر
سیلاب کی تباہی سے متاثر ’’باڑھ‘‘ کے عنوان سے اشعار ملاحظہ کریں
پھر بڑھایا اس نے اپنے پاؤں کو
زور اس سیلاب کا یوں تیز تھا
اس کے دھارے میں وہ بچہ بہہ گیا
دل کو دہلانے کا تھا منظر عجیب
نہ بچانے کو کوئی آیا قریب
جہیز کے تعلق سے ایک خوبصورت نظم کے چند اشعار جس سے صاف شیشے کی مانند عیاں ہے کہ موصوفہ جہیز کی قبیح فعل کو لے کر کس قدر متاثر ہیں۔ اور اپنے اس نظم سے سماج کو کیا پیغام دینا چاہتی ہیں۔
حقارت بھری نظروں کی وہ
شکار ہوتی ہے
غریب باپ کی بیٹی
طعنے کے بوجھ سے دب کر
زندگی بھر
آنسو بہاتی ہے
شادی آج۔
ایک تجارت بن گئی ہے
اب بھی دیش واسیوں کو، ہمدردانِ قوم اور دنشوران ملت کی پیش رفت ضروری ہے تاکہ جہیز کی قبیح رسموں پر قدغن لگایا جاسکے۔ مکمل طور پر اس کا سدِباب ہو بقول شاعر ؎
جنہیں ناز تھا ہند پر وہ کہاں ہیں
ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں
آخر میں میں محترمہ نادرہ نازؔ صاحبہ کو ان کی شاہ کار تخلیق پہلا شعری مجموعہ ’’نازِ سخن‘‘ پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے پر خلوص مبارکباد دیتی ہوں اور خدائے پاک رب العزت کے دربار میں سربسجود ہوکر دعا کرتی ہوں کہ خدا نادرہ نازؔ صاحبہ کو صحت کے ساتھ طویل عمر عطا کرے۔ ان کے شریکِ حیات محترم شاھد پرویز صاحب اور بیٹے عکاشہ جہانگیر کے ساتھ کامیابی اور کامرانی کی بلندیوں پر پہونچائے اور پھر آئندہ مستقبل میں اور بھی شعری مجموعہ منظر عام پر آئیں۔ کسی خاتون کا شعری مجموعہ ہر لحاظ سے بہت اہم ہے جنہوں نے اپنے ذاتی تجربات، مشاہدات کی بنا پر اسے رقم کیا ہوا ہے۔ خدا کرے زورِ قلم، زورِ فہم اور زورِ سخن اور زیادہ ہو اور ان شاء اللہ اس کتاب کی ادبی حلقے میں خوب پذیرائی ہوگی اور آنے والی نسلوںکیلئے مشعلِ راہ ثابت ہوگی۔ ان شاء اللہ۔
تبصرے بند ہیں۔