نقوش خوش خطی
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
خوش خطی کا فن مردہ ہوتا جا رہا ہے، اچھے اچھے قلم کاروں کی تحریریں پڑھنے میں پسینہ آجاتا ہے، کیوں کہ وہ صاف نہیںلکھی ہوتی ہیں اور خط شکستہ سے قریب تر ہوا کر تی ہیں، حالاں کہ خوش خطی کی وجہ سے تحریر پڑھنے کی طرف طبیعت مائل ہوتی ہے، امتحانات میں اچھے نمبر ملتے ہیں، گویا فائدہ ہی فائدہ ہے، انہیں فوائد کے پیش نظر ہمارے بچپن میں تختی لکھوائی جاتی تھی، کانٹرے کا قلم ہوتا تھا، اور چاول کی روشنائی تختی صاف کرنے کے لیے ایک خود روپودے بھنگریا کا استعمال ہوتا تھا، خوش خطی کے لیے مستقل محنت کرائی جاتی تھی اور یہ سلسلہ پرائمری درجات تک عموما جا ری رہتا تھا، تختی کے بعد نیب والے قلم کا استعمال ہونے لگا، نیب کی قط کاٹ دی جاتی تھی تو اس سے بھی کانڑے کے قلم کی طرح حروف خوشخط لکھے جاتے تھے، پھر لیڈ پین کا دور آیا، تو خوش خطی کی طرف توجہ کم ہو گئی، اور اب استعمال کرو اور پھینکو قبیل کے قلم اور کمپیوٹر نے اس مرحلہ کو اختتام تک پہونچا دیا، کنونٹ میں رائٹنگ پاور بڑھانے پر خوب محنت ہوتی ہے، لیکن کسی زبان کے الفاظ کے خوش خط لکھنے کی طرف توجہ کم ہی ہوتی ہے، اس لیے ٹیڑھی میڑھی لکیروں کا پڑھنا آسان نہیں ہوتا، اور اگر وہ ڈاکٹر ہے تو اس کا نسخہ پڑھ لینا بغل والے دوا کے دکاندار کے علاوہ کسی کے لیے پڑھنا ممکن نہیں ہوتا، کیوں کہ ڈاکٹر کو دوا کا کمیشن اسی دوکاندار سے ملتا ہے۔یہی حال ہمارے حکیموں کا رہا ہے، ایسا لکھیں گے کہ دوسرا پڑھ ہی نہ سکے،ا لٹا سیدھا پڑھ لیا تو گھر میں ماتم پَسر جاتی ہے، ایک حکیم صاحب نے نسخہ میں دانہ الائچی لکھا، نسخہ پڑھنے والے نے ’’وانہ لا یحی‘‘ پڑھ دیا، یعنی وہ نہیں زندہ رہے گا، بس کیا تھا، رونا پیٹنا جو شروع ہوا۔ الامان والحفیظ
اس دور میں بھی حضرت امیر شریعت سابع مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی ؒ خوش خطی پر بہت توجہ دیتے تھے، میں نے بعض درخواستوں کو لوٹا تے ہوئے دیکھا کہ خوش خط لکھ کر لائیے، فرماتے اپنی تحریر اچھی بنائیے، تحریریں ہمارے چہرے کی طرح ہوتی ہیں، جس کو دیکھ کر کسی انسان کے ذہنی افتاد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، میرے استاذ حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری ؒ فرمایا کرتے تھے کہ تحریر کا ٹیڑھا پن مزاج کے ٹیڑھے پن کو بتاتا ہے، یہ بات سو فی صد صحیح نہیں ہو تو بھی کچھ نہ کچھ حقیقت کا ادراک ان تجربہ کار حضرات کے ملفوظات سے تو ہوتا ہی ہے، حضرت امیر شریعت رحمۃ اللہ علیہ جامعہ رحمانی میں خاص طور پر اس پر نگاہ رکھتے تھے، بعض لڑکوں کو تحریر کی مشق خود بھی کرایا کرتے تھے، بعض اہم لوگوں کے خط کو درست کرانے کے لیے بعض خوش خط تحریر والے اساتذہ کو مامور کر رکھا تھا، اس محنت کے نتیجے میں جامعہ رحمانی کے طلبہ کی تحریریں آج بھی خوش خطی میں دوسرے اداروں کے بنسبت ممتاز ہوتی ہیں، خوش خطی کے لیے ایک شعبہ فن کتابت کا ہوا کرتا تھا، لیکن کمپیوٹر کے غیر معمولی استعمال کی وجہ سے یہ فن بھی دم توڑ گیا ہے، ورنہ ایک زمانہ میں خلیق ٹونکی، ابو بکر قاسمی، انیس احمد، طارق بن ثاقب وغیرہ نے اس فن کو عروج بخشا تھا، اور ابو بکر قاسمی نے تو تاشقند کے خطاطی نمائش میں ہندوستان کی نمائندگی بھی کی تھی۔
قاری شہاب الدین صاحب ناظم مدرسۃ مدینۃ العلوم مغربی محلہ بلوارہ، نینگا، برونی، بیگوسرائے اس فن کو زندہ کرنے کے لیے کوشاں ہیں، انہوں نے نقوش خوش خطی کے نام سے دو جزء میں کتاب مرتب کی ہے، مشق کے لیے جگہ خالی چھوڑنے کے اعتبار سے یہ خوش خطی کی کاپی معلوم ہوتی ہے، یہ ایک میں تین (تھری ان ون) کے فارمولے پر مرتب کی گئی ہے، اس میں اردو خوش خطی کے ساتھ ہندی اور انگریزی کی مشق بھی کی جا سکتی ہے، پہلے جزء کے آخر میں روز مرہ استعمال کی دعائیں، اسلامی معلومات، مدرسہ مدینۃ العلوم کے دو ترانے اور علامہ اقبال کی بچوں کی دعائ’’ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ اور ترانہ ہندی ’’سارے جہاں سے اچھا‘‘کو شامل کیا گیا ہے، تاکہ طلبہ وطالبات اسے آسانی سے یاد کر لیں، چونسٹھ صفحات پر مشتمل اس کاپی کی قیمت پنچانوے روپے کنوینٹ والوں کے لیے ممکن ہے مناسب ہو، لیکن مدارس کے طلبہ کے لیے انتہائی غیر مناسب ہے، پچاس فی صد کمیشن ملنے کے بعدبھی یہ گراں ہی محسوس ہوگی۔
نقوش خوش خطی حصہ دوم میں قیمت درج نہیں ہے، ہر صفحہ کے سر ورق پر کوئی نہ کوئی دعا مذکور ہے،علی الترتیب دو حرفی، سہ حرفی، الفاظ کی مشق کرائی گئی ہے، دین کی بنیادی باتوں کو بھی درج کیا گیا ہے، اسلامی اور انگریزی مہینوں کے ناموں سے بھی واقفیت بہم پہونچائی گئی ہے، عمومی معلومات بھی فراہم کرانے کی کوشش کی گئی ہے، کتاب ہر طرح سے مفید مطلب ہے۔ البتہ جن صفحات پر الفاظ کے معنی درج کیے گیے ہیں، ان میں سے بعضے محل نظر ہیں، جیسے سٹ کے معنی میں سازش، بل کے معنی رقم، پُن کے معنی خیرات، لت کے معنی بُری عادت، جائے کے معنی بچہ، لَے کے معنی آواز، غار کے معنی کھائی، اُجلا کے معنی روشنی، شہرت کے معنی نام، آوارہ کے معنی آزاد، آزاد کے معنی آوارہ وغیرہ، ا س قسم کے اور بھی الفاظ ہیں، جن کے صحیح معنی پر غور کرنے کی ضرورت ہے، کتاب کے دونوں حصہ پر مفتی عین الحق امینی مہتمم مدرسہ عائشہ خاتوپور بیگوسرائے نے تاثرات لکھے ہیں، جس میں اس کتاب کے دونوں حصوں کو اردو سے قریب کرنے کی مثالی کوشش اور بہترین خدمت قرار دیا ہے، قاری شہاب الدین صاحب کے نام اوپر درج پتے سے کتاب طلب کی جا سکتی ہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو اردو کی مطبوعہ کتاب کے صفحات پر تھِن پیپر رکھ کر مشق کیجئے، مسلسل اس عمل کے نتیجے میں آپ کی تحریر خوش خط ہو سکتی ہے، استاذ تلاشنے کی بھی ضرورت نہیں،اس کو کہتے ہیں، ہلدی لگے نہ پھٹکری، رنگ آئے چوکھا۔
تبصرے بند ہیں۔