مولانا سید آصف ملی ندوی
وطن عزیز بھارت ان دنوں جن حالات سے دوچار ہے وہ انتہائی تشویشناک حالات ہیں ، راج سنگھاسن پر بیٹھے لٹیرے محض الفاظ کے بازیگر ہیں ، کبھی ’’انڈیا شائننگ‘‘ تو کبھی ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ اور کبھی ’’ اچھے دن آنے والے ہیں ‘‘ جیسے پرکشش لیکن ہوائی دعوؤں اور نعروں کے ذریعے پارلیمانی انتخابات میں انتہائی زبردست کامیابی کے ساتھ اور شاندار طریقے سے دلی کے تخت پر براجمان تو ہوگئے ، لیکن اقتدار میں پہنچتے ہی اپنے سینوں میں چھپے مکروہ عزائم کو ظاہر کرنا شروع کردیا ۔ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ اور ’’ اچھے دن آنے والے ہیں ‘‘ جیسے خوشنما نعروں کو محض کرسیٔ اقتدار تک پہنچنے کیلئے زینے کے طور پر استعمال کیا گیا اور استعمال کیا جارہا ہے۔
ان تخت نشینوں کے پیش نظرتو صرف اور صرف ان منصوبوں کی تکمیل ہے جن کی خاطر ان کی نظریہ ساز فاشسٹ تنظیموں نے انہیں انتہائی منظم اور طئے شدہ منصوبوں کے تحت اس سنگھاسن پر پہنچایا ہے۔ اور اس منصوبے کی تکمیل کی خاطر سنگھاسن پر بیٹھی یہ کٹھ پتلیاں اپنے ان نظریہ ساز آقاؤوں کے اشاروں پر کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں ۔ جس کے کچھ نمونے ہم بابری مسجد کی شہادت ،گجرات و مظفرنگرفسادات اور گئورکھشاکے نام پربرپا کی گئی حیوانیت و بربریت کی صورت میں ماضی میں بھی دیکھ چکے ہیں اور ہر نئے دن دیکھتے چلے جارہے ہیں ، ایک زخم مندمل ہو نہیں پاتا ہے کہ اس سے بڑھ کر تازہ زخم دے دیا جاتا ہے۔ ترقی، وکاس، اچھے دن، کالے دھن کی واپسی، غریبوں کے بنک کھاتوں میں سرکاری مالی امداد کی رسائی کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔
جب سے وطن عزیز کی سب سے بڑی اور اہم ریاست اترپردیش کے حالیہ انتخابات میں ریاست کی باگ ڈور ملک بھر میں اپنی زہر افشانی و شعلہ بیانی کے لئے مشہور یوگی ادیتیہ ناتھ جی کے ہاتھ کیا آئی کہ ان فاشسٹ اور شدت پسندوں کی گویا دیوالی آگئ، ہر کس و ناکس کچھ اس انداز میں اپنے مذموم عزائم کا اظہار کرتا ہے اور ہفوات بکتا ہے جس سے جمہوریت ، سیکولرازم، مساوات، رواداری اور دستور و آئین کی دھجیاں اڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ گئو رکھشا کے نام پر جو چاہتا ہے قانون ہاتھ میں لے لیتا ہے اور سرکاری مشنریز ان شرپسندوں کا دفاع کرنے میں لگ جاتی ہیں ۔
ابھی گذشتہ ایک ہفتہ قبل راجستھان کے شہر الور میں مسلم کمیونٹی کے چند افراد میونسیپل کارپوریشن اوردیگرسرکاری محکمہ جات سے جاری کردہ اجازت ناموں اور جائز اوراق و رسیدوں کے ساتھ(جو مویشیوں کو لے جانے کی قانونی اجازت دیتی تھیں ) جانوروں کو لے جارہے تھے، جن پر گئو رکھشکوں کے شدت پسند ٹولے نے حملہ کردیا، اور انہیں دوڑا دوڑا کر بے تحاشا مارا، جس کی وجہ سے ۵۵ سالہ پہلو خان زخموں کی تاب نہ لاکر موت کی آغوش میں چلے گئے، اور مزید چار افراد تادمِ تحریر اسپتالوں میں زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہے، اس قدر سنگین واقعہ رونما ہونے پربھی راجستھان کے وزیر داخلہ صاحب کا کہنا ہے کہ ’’گئو رکھشکوں نے اچھا کام کیا‘‘ ۔ ملک عزیز کی بدلتی ہوئی اس سماجی و سیاسی صورتحال سے ملت اسلامیہ ہندیہ ایک طرح کے خوف اور مایوسی کی نفسیات کا شکار ہوئے جارہی ہے ، اس کے دل و دماغ ممکنہ خطرات سے ڈوبنے اور ماؤف ہونے لگے ہیں ۔ اور صورت حال کچھ ایسی ہوگئی ہے کہ
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا اک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
وطن عزیز کی موجودہ سماجی و سیاسی صورتحال کی یہ تصویر دراصل سکّے کا ایک ہی رخ ہے ، سکّے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ وطن عزیز بھارت میں آج بھی مسلمانوں کے لئے ایک بہتر اور تابناک سیاسی مستقبل کی تعمیر کے تمام تر مواقع میسر ہیں ، لیکن اس کے لئے مسلمانوں کو جذباتی سیاست اور اس روش سے بازآنا ہوگا جس کو شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
اس کے لئے مسلمانوں کو از سرِنو اپنا جائزہ لینے اور اپنے اندر سیاسی شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے، علماء کرام اور دانشورانِ ملت اسلامیہ کو سیاست و انتظامیہ میں شریک ہوکر حالات کو بدلنے کی کوشش کرنی ہوگی ۔
گذشتہ چند دنوں پیشتر اس احقر راقم السطور کا ایک سماجی مسئلے کی یکسوئی کی خاطر شہر کے چند مخلص و سرگرم سماجی کارکنوں کے ساتھ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اوف پولس (DYSP) کے دفتر جانا ہوا ، دوران گفتگو موصوف کی ایک بات بہت دل کو لگی اور خیال آیا کہ واقعتاً اگر اس بات پر عمل کیا جائے تو مسلم سماج میں بہت کچھ تبدیلی پیدا کی جاسکتی ہے ۔ اور وہ بات یہ ہے کہ ’’ مسلمانوں کو اگر ملک کے مرکزی دھارے میں شامل ہونا ہے، اور اس ملک میں ایک کامیاب کمیونٹی کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرنا ہے تو اس کے لئے انہیں سسٹم (انتظامیہ) میں شامل ہونا ہوگا‘‘ عملی سیاست میں متحرک سرگرمی اور انتظامیہ میں شمولیت واقعتاً بھی جمہوری نظام کا ایک حصہ ہے ، لیکن ہائے رے بدنصیبی کہ ملک کا مسلمان دونوں ہی میدانوں میں نا کے برابر ہے۔
ملک عزیز کے مسلمانوں کو اس کمی کو پورا کرنا ہوگا اور ظاہر سی بات ہے انتظامیہ میں شمولیت کی یہ کمی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ملک عزیز کے ہر شہر اور ہر دیہات میں ان گنت مسلم تنظیمیں ، جماعتیں ، فاؤنڈیشنس، فورمس خدمتِ انسانیت اور سماجی و معاشرتی فلاح وبہبود کے نام سے سرگرم عمل ہیں ، اور الحمدللہ وہ مختلف نوعیت کی فلاحی خدمات انجام بھی دے رہے ہیں (دست بدعا ہوں کہ اللہ ان کی کاوشوں کو مقبول و مشکور فرمائے اور انہیں مزید توفیق عمل مرحمت فرمائے ) ۔ کیا ہی بہتر ہوگا کہ اگر ہر شہر میں مسلمانوں کی کوئی ایسی تنظیم قائم ہو جو سماجی و فلاحی خدمات کے مختلف میدان عمل کے درمیان صرف تعلیم کے میدان کی طرف اپنی سرگرمیوں کو مرکوز کردیں ، اور مسلم طلباء و طالبات کے تعلیمی مسائل کو حل کرنے، اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے انہیں اور ان کے سرپرست حضرات کو تیار کرنے ، مختلف اسکالرشپ اور مالی تعاون فراہم کرنے ، سرکاری و غیر سرکاری اسکیموں اور منصوبوں سے انہیں مستفید کرانے کے لئے اپنے آ پ کو خالصۃً لوجہ اللہ وقف کردیں ۔ اگر ایسا ہوا تو اللہ کی ذات سے قوی امید ہے کہ جلد نہ سہی ، دیر ہی سے سہی لیکن مثبت نتائج انشاء اللہ ضرور حاصل ہوں گے ۔
ہمیں خبر ہے کہ گذرے گا ایک سیل فنا
سو ہم تمہیں بھی خبردار کرنا چاہتے ہیں
اور اس سے پہلے کہ ثابت ہو جرم خاموشی
ہم اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔