ڈاکٹر جہاں گیر حسن مصباحی
اس میں دورائے نہیں کہ ہندوستان ایک ایسا گلدستہ ہے جو مختلف رنگ کے پھولوں کی خوشبو میں بسا ہوا ہےاور یہی وہ مختلف الانواع خوشبو ہے جوہندوستان کو عالمی سطح پر منفرد و ممتاز بنائے رکھتی ہے۔ ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب و ثقافت کا خاصہ ہے کہ ہزاردقتوں اور کثافتوں کے باوجودیہاں کے باشندوں کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھتی ہے اور اسی کے باعث اُن کےدلوں میں ایک دوسرے کے لیے نیک خواہشات اور خیرسگالی کےجذبات ہمیشہ موجزن رہتے ہیں۔ حالاں کہ بہت سے تنگ نظر اِنسان کو خیرسگالی کے یہ جذبات کھٹکتے بھی ہیں اور وہ اپنی تمام تر کوششیں بھی کرتے رہتے ہیں کہ یہاں کی فضا میں ہمیشہ ہمیش کے لیےحتی المقدور منافرت گھول دیں لیکن آفریں ہندوستانی باشندوں پر کہ وہ:
’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں اس کے یہ گلستاں ہمارا‘‘
جیسی انسانیت پر مبنی ماحول کو ہر طرح کی آفتوں اور نفرتوں سے بچائے رکھتے ہیں۔ یہاں تک تو سب کچھ بہتر تھا لیکن اب ایسا نہیں رہا۔ کیوں کہ حالیہ چندبرسوں کے حالات پر نگاہ دوڑائیےتو واضح طورپر معلوم ہوجائےگاکہ ہندوستان میں فاشزم کا دور شروع ہوچکا ہے اور کافی حد تک اُس نے اپنی جڑیں مضبوط بھی کرلی ہیں، باقی جو تھوری بہت کسر رہ گئی ہے وہ بھی یقینی طورپرپوری ہوجائےگی۔ موجودہ ۲۰۱۹ کے پارلیمانی انتخاب نےیہ بالکل صاف کردیا ہےکہ اب ہندوستان میں ایک جماعتی قانون(One party rule)کے لیے راستے ہموار ہوچکے ہیں، یعنی ایسی برسراقتدار جماعت جس سےآپ سوال نہیں کرسکتے۔ پارلیمنٹ میں ایک جماعت بیٹھےگی بس، اور کوئی انتخاب نہیں ہوگا جیساکہ مسولینی نے اپنے عہد میں کیا تھا۔
مسولینی پہلے پہل کولیشین حکومت کے تحت وزیراعظم بنا تھاجہاں اُس کی جماعت اکثریت میں تھی۔ وہ ایک مضبوط قومی نظریے کے ساتھ اُبھرا تھا۔ یہ پہلی عالمی جنگ کا عہد تھا اوراس وقت گھر گھر اسلحہ جات رکھے جاتے تھے۔ مسولینی نےقومی نظریے پراِس قدر زور دیا تھاکہ سب کے سب اُس کے ساتھ ہوگئےتھے۔ پھر جب اُس کو یقین ہوچلاکہ اب پوری کی پوری عوام اُس کے ساتھ ہیں تو اُس نے پارلیمنٹ کی برخاست کردی اور یہ اعلان بھی کردیا کہ اب انتخاب نہیں ہوگا۔ آج سے میرا قانون چلےگااوراب میں یہاں کا ڈکٹیٹر ہوں۔ عوام بہت خوش ہوئی اور سب نے بسروچشم تسلیم کرلیا۔ اپوزیشن کے ایک لیڈر کا اُس سے پہلے قتل بھی کرادیا تھا،اوردنیا یہ جانتی تھی کہ قتل کس نے کرایا ہےلیکن اُس وقت کسی نے کچھ نہیں کہا۔ پھربعد میں خوداُس نے اعلان کیا کہ یہ قتل میں نے کرایا تھا۔ حالاں کہ فاشزم کے اندر بھی تشدد کوئی بہت اچھی چیز نہیں مانی جاتی لیکن اگرکوئی معقول وجہ ہوتو تشدد روا ہےاِس پر فاسسٹوں کا یقین ہے۔ کیوں کہ اُن کے نزدیک کسی اچھےمقصد کو پانے کے لیےیہ لازمی چیز ہے، اور وہ اچھا مقصد ہے ایک جماعتی قانون (One party rule)۔ فاشزم پہلے سرمایہ داروں کی حمایت کرتا ہےاورمزدور طبقہ کو کچلتا ہے تاکہ کمیونزم نہ آنےپائے۔ جب مزدور کچل جاتے ہیں تو پھروہ سرمایہ داروں کو قابومیں کرتا ہے تاکہ معاشیات معمول کے مطابق چلے۔ اس کے علاوہ فاشزم دو خاص ذرائع کو اپنے قابو میں رکھتا ہے جن کے ذریعے وہ عوام پر اپنی گرفت مضبوط رکھتاہے: ایک نظامِ تعلیم پراور ایک میڈیاپر۔ اِن دونوں کو مسولینی نے قابو میں کررکھا تھا۔ اِن پیمانوں پر ہندوستانی صورتحال کو بخوبی جانچا اور پرکھا جاسکتا ہےکہ میڈیا کا استعمال کس خوب صورتی کے ساتھ موجودہ عہد میں کیا گیا ہے اور نظامِ تعلیم کے ساتھ جوچھیڑچھاڑہورہی ہے وہ ہر تعلیم یافتہ فرد بخوبی جان رہا ہے اور آگے بھی مزید کافی کچھ ہونے والا ہے۔
2019 کے پارلیمانی انتخاب میں ملی اکثریت یہ واضح اشارہ کررہی ہے کہ ایک جماعتی قانون (One party rule)قریب تر ہے۔ مسولینی نے قومی حمیت کا نعرہ دیا تھااور عوام اُن کے ساتھ ہوگئی اور موجودہ پارلیمانی انتخاب میں بھی یہی کچھ ہوا کہ فاشزم کی نئ شکل ’’ہندوتو‘‘ کا نعرہ دیاگیااوراِس کے نام پرعوام کی اکثریت یکطرفہ ہوگئی، یہاں تک کہ سیکولر جماعتوں کے موروثی رائے دہندگان نےبھی اُن کا ساتھ چھوڑدیا۔ یہاں یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ ’’ ہندوتو‘‘ بڑا جذباتی نعرہ ہےاور بہت جلد مقبول ہوجانے والا بھی ہے۔ موجودہ عناصر کے پاس تین بڑے اہم ہتھیار ہیں : ایک رام مندر،ایک لو جہاد اور ایک گئوہتھیا۔ اِن تینوں کے نام پر عوام کو بہ آسانی موبلائز کیا جاسکتا ہے،اس کی دلیل موجودہ پارلیمانی انتخاب نےفراہم کردی ہے، اور اُوپر سے میڈیا ’’سونے پر سہاگہ ‘‘ کا کام کررہی ہےکہ میڈیا پر مباحثے ہورہے ہیں، اِن مباحثوں میں نام نہاد مسلم دانشوران شریک ہورہے اور فاسسٹوں کو اُن کا مقصد حاصل ہورہا ہے، نیز عوام کی اکثریت موبلائز ہورہی ہے۔ مسلم دانشوران شریک مباحثہ ہوں تو بھی اور شریک نہ ہوں توبھی اُن کی شہرت میں ہمہ دم اضافہ ہی ہوگا، کچھ فرق پڑنے والانہیں ہے،یعنی اب نوبت تو یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ چت بھی اُن کی اور پٹ بھی اُن کی۔
حاصل کلام یہ کہ وزیراعظم کی تقریر ہونے کےباوجودجومسلسل مختلف حادثے رونما ہورہے ہیں، بظاہریہ حادثات نہ صرف ہندوستان کے قانون کی دھجیاں اُڑاتے ہیں بلکہ جناب وزیراعظم کی تقریر کے ساتھ اُن کی بھی اہمیت و حیثیت کی قلعی بھی کھولتے ہیں کہ اُن کےجن بھکتوں نے اُنھیں ایک بار پھرسے وزیراعظم کی کرسی تک پہنچایا ہےوہی بھکت برادران اُن کی تقریر کی ہوا نکال کر رکھ دی ہے۔ لیکن درحقیقت یہ تمام حادثات جانچنے اور پرکھنے کےوہ پیمانے ہیں جن سے یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ ڈکٹیٹرشپ کے لیے راہیں کس قدر ہموار ہوئی ہیں اور یہ کہ پارلیمنٹ کب برخاست کیاجائے، اور ایک جماعتی قانون (One party rule)کا بگل کس موقع سے بجایاجائے!!
ورنہ کیا وجہ ہے کہ ایک طرف وزیراعظم کی تقریراخبارات کی سرخیاں بن رہی ہیں، الیکٹرانک بازام میں دھوم مچارہی ہیں، مباحثے پر مباحثے ہورہے ہیں اور مسلم دانشوران موشگافیاں کررہے ہیں مگر دوسری طرف تقریر کے دوسرے ہی دن سےمدھیہ پردیش میں متشدداکثریتی گروہ،اقلیت سے متعلق ایک شخص کے ساتھ انتہائی حیوانیت کا مظاہرہ کرتا ہے، یہاں تک کہ اُس کی بیوی کو بھی نہیں بخشتااور ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگوائے جاتے ہیں۔ پھرصوبۂ ہریانہ کےگروگرام علاقے میں مسجد سے نماز پڑھ کے واپس ہورہےایک شخص سے بدسلوکی کی جاتی ہے،اُس کی ڈوپی اُتاری جاتی ہے اوراُس کو زدوکوب کرنے کی کوششیں بھی ہوتی ہیں۔ اُس کے بعدبہار کے ضلع بیگوسرائے میں ایک اقلیتی فرد سے اُس کا نام پوچھا جاتا ہے اورمعلوم ہونے پر کہ اس کا تعلق اقلیتی طبقہ سے ہےاُس کو گولی ماردی جاتی ہے۔ اِن تمام مجرمانہ حادثات اور مجرمین کی نشاندہی ہوجانے کے بعد بھی کوئی معقول کارروائی نہیں ہوتی۔ آخر یہ سب کیا ہے؟
ایسے ماحول میں یہ سوال فطری طورپرپیدا ہوتا ہے کہ جناب وزیراعظم نے اپنی تقریر میں جس اقلیت کے تحفظ و سلامتی کی بات کی ہےکیا اُس میں مسلمان شامل ہیں ؟کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ وزیراعظم جس کو اقلیت مان رہے ہیں وہ ’’ہندوتو‘‘ کے حمایتی اقلیتی طبقات ہوں جوعلاقائی جماعتوں سےترک تعلق کرکےاُن کی طرف آئے ہیں اورموجودہ پارلیمانی انتخاب میں اُن کے لیےایک ناقابل تسخیر اکثریت کاسبب بنےہیں ؟ اس قدر حساس معاملے پروزیراعظم کی خاموشی چہ معنی دارد؟ جب کہ اس کے برخلاف وزیراعظم بڑی صفائی اور مہارت کے ساتھ ہر وہ عمل انجام دے رہے ہیں جس سے’’ ہندوتو‘‘کے حامیان کویقینی طورپر حوصلہ ملتا ہےجیسے: کیدارناتھ اور بدری ناتھ کا سفر،نیز اپنے انتخابی علاقے میں پہنچنا اور پوجاپاٹ کرنا وغیرہ۔ اس سےقطع نظر کہ یہ اُن کے ذاتی معاملات ہیں اور اُن کابنیادی حق ہے، لیکن کیا بحیثیت وزیراعظم اُن کےاِن اعمال سے ملک کویہ پیغام نہیں جاتا ہے کہ وہ کٹر مذہبی انسان ہیں اور مذہب کی حفاظت ایک کٹر مذہبی انسان سے بہتر کون کرسکتا ہے؟اس پر مستزاد یہ کہ ملک کی باگ- ڈور بھی اُس کے ہاتھ ہو۔
شہد دکھائے زہر پلائے قاتل ڈائن شوہرکش
اس مُردار پہ کیا للچانا دنیا دیکھی بھالی ہے
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔