وقت بدل گیا مگر استاد کی اہمیت نہیں
بابر نفیس
(ڈوڈہ، جموں)
استاد دنیا کی بہترین حیشیت ہے۔دنیا میں کسی بھی انسان کو بہتر راہ دیکھانے میں ایک استاد کا ہی اہم کردارہوتاہے۔کسی بھی انسان کی کامیابی کے پیچھے اس کے استاد کی تربیت کارفرما ہوتی ہے۔ دراصل اساتذہ انسان کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کی زندگی استاد کے بغیر ایسی ہی ہے جیسے ماں کے بغیر گھر۔ ایک نوخیز بچے سے لے کر عمر کی آخری سانس تک انسان کا ہر عمل اس کی حاصل کردہ تعلیم و تربیت کا عکس ہوتی ہے جسے وہ اپنے اساتذہ سے حاصل کرتا ہے۔استاد دنیا کی بہترین حیشیت کے حامل ہوتے ہیں۔ استاد، وہ پھول ہے جس کی خوش بو سے بچے کی زندگی مہک اٹھتی ہے، وہ چراغ ہے جس کی روشنی میں بچہ زندگی کی تاریکیوں میں حوصلے کی راہ پاتا ہے، وہ سیڑھی ہے جس کے ذریعے بچہ کامیابی کی بلندی پر چڑھتا ہے، گویاانسان کی زندگی میں استاد کی اہمیت سے انکار کرنا ناممکن ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنھیں زندگی میں بہترین اساتذہ میسرہوتے ہیں۔
والدین بچے کو زندگی دیتے ہیں مگر اساتذہ بچے کو زندگی جینے کا سلیقہ سکھاتے ہیں، ایک نوخیز بچے سے لے کر کامیاب انسان تک کا سفر استاد کی کارکردگیوں کی مرہونِ منت ہوتا ہے۔ اچھے اساتذہ معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں۔ جن سے بہترین قومیں وجود میں آتی ہیں۔ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو انسانی تاریخ اساتذہ کے احترام و تکریم کی سنہری داستانوں سے بھری ہوئی ہے۔ کیا بادشاہ، کیا شہنشاہ کیا ولی، کیا صحابہ کرام سبھی نے اپنے اساتذہ کی تعظیم و تکریم کی بہترین مثالیں رقم کیں۔ استاد کی احمیت پر جب ہم نے سماجی کارکن محمد امین سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ استاد ہی کی محنت سے انسان آسمانوں کی سیر کرتا ہے اور ستاروں کی دنیا پر کمندیں ڈالتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ استاد کے بغیر انسان اس نابینا شخص کی مانند ہے جو بغیر سہارے سفر پر نکلا ہو۔ بلا شبہ کہ استاد کی تعظیم ہم پر فرض ہے اور کیوں نہ ہو، استاد ہی کی محنت کی وجہ سے انسان بلندیوں تک پہنچتا ہے، اور حکمرانی کی گدی پر جلوہ نشین ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں جب ہم نے مزید ایک سبکدوش شدہ استاد ماسٹر نذیر قاضی سے بات کی اور ان سے ہم نے جاننے کی کوشش کی کہ آخر استاد کی اہمیت کا اثر دور حاضر میں اور دور ماضی میں کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ وہ دور کافی سنہرا دور تھا جب موبائل کا ایجاد نہیں ہوا تھا۔ دور ماضی میں استادوں کی اہمیت ماں باپ سے بڑھ کر تھی۔وقتی حالات نے اس تمام دور کو بدل دیا۔انہوں نے کہا کہ استاد کی اہمیت کو کم کرنے میں انتظامیہ کا ہی رول کافی حد تک دیکھنے کو ملا۔انتظامیہ نے جس قدر کے حکم نامے جاری کیں وہ حکمنامے کہیں نہ کہیں استادوں کی عزت کو کم کرنے میں رونما ہوا۔انتظامیہ کا حال ہی میں ایک حکم نامہ جاری کیا کہ استاد بچوں کو پڑھاتے وقت کرسی پر نہیں بیٹھ سکتا۔دورے ماضی میں اس قدر کے واقعات سامنے نہیں آیا کرتے تھے۔
معاشرے میں جہاں ایک ماں کی آغوش کو بچے کی پہلی درس گاہ قرار دینے کے ساتھ ایک مثالی ماں کو ایک ہزار اساتذہ پر فوقیت دی گئی ہے وہیں ایک استاد کو اپنی ذات میں ساری کائنات کو بچے کے لئے ایک درس گاہ بنانے کی طاقت رکھنے کی وجہ سے روحانی والد کا درجہ دیا گیا ہے۔باپ بچے کو جہاں اپنی انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتا ہے وہیں استاد بچے کو زندگی میں ہمیشہ آگے بڑھنے کی تلقین کرتا ہے۔انہوں نے ایک مسال سے سمجھانے کی کوشیش کی کہ سکندر اعظم سے کسی نے پوچھا کہ وہ کیوں اپنے استاد کی اس درجہ تعظیم کرتا ہے۔سکندر اعظم نے کہا کہ اس کے والدین اسے آسمانوں سے زمین پر لے آئے ہیں جب کہ استاد اس کو زمین سے آسمانوں کی بلندیوں تک پہنچاتا ہے۔ ”استاد سے ایک گھنٹہ گفتگو دس برس کے مطالعے سے مفید ہے۔‘لیکن وقتی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ تمام باتیں آج صرف کاغذوں کی تعبیر بنی ہوئی ہیں۔
سماجی کارکن آصف اقبال بٹ نے اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ زندگی کے تمام پیشے تدریس کی کوکھ سے ہی جنم لیتے ہیں۔زندگی کا کوئی بھی شعبہ خواہ عدلیہ، فوج، سیاست، بیوروکریسی، صحت، ثقافت، تعلیم ہو یا صحافت یہ تمام ایک استاد کی صلاحیتوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگر مذکورہ شعبہ جات میں عدل، توازن اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے تو یہ صالح اساتذہ کی تعلیمات کا پرتو ہے اور اگر اساتذہ کی تعلیمات میں کہیں کوئی نقص اور کوئی عنصر خلاف شرافت و انسانیت آجائے تب وہ معاشرہ رشوت خوری،بدامنی اور نیراج کی منہ بولتی تصویر بن جاتا ہے۔ استاد کو ایک صالح معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کردار کی انجام دہی کی وجہ سے ہی معمار قوم کا خطاب عطا کیا گیا ہے۔ استادہ معاشرے کی عمدہ اقدار کا امین و نگہبان ہونے کے ساتھ ساتھ ان اقدار کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کا ذریعہ بھی ہوتا ہے۔
اساتذہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں اگر ذرہ برابر بھی چوک جائیں تب معاشرہ کی بنیادیں اکھڑ جاتی ہیں اور معاشرہ حیوانیت نفس پرستی اور مفاد پرستی کی تصویر بن کر جہنم کا نمونہ پیش کرتا ہے۔تعلیم انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کر تی ہے اور انسان کو معاشرے کا ایک فعال اور اہم جزو بننے میں مدد فراہم کرتی ہے۔استاد کو افراد سازی کے فرائض کی ادائیگی کے سبب معاشرے میں اسے اس کا جائزہ مقام فراہم کیا جانا ضروری ہے۔انہوں نے بتایا کی سرکار کو استاد کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی تنخواہ ان کی عزت افزائی کا ایک اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔
بہرحال وقت بدلنے کے ساتھ استاد کا کردار یقینا بدل گیا ہے، لیکن نہیں بدلاتو استاد کی اہمیت۔آج بھی ہر قوم اور اس قوم کا ہر فرداپنے استاد کو اسی احترام سے یاد کرتا ہے۔کیونکہ انسان کو انسانیت سے پہچان کرانے والااستاد ہی ہوتا ہے۔ (چرخہ فیچرس)
تبصرے بند ہیں۔