ڈاکٹر سلیم خان
وزیر اعظم نریندر مودی نے ۷؍ جون کو اعلان کیا کہ ملک کے تمام باشندوں کو مفت میں ویکسین لگے گی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب مودی اور یوگی کے درمیان جاری سرد جنگ بامِ عروج پر تھی۔ یوگی کے سر پر وزیر اعظم کے چہیتے آئی اے ایس افسر اے کے شرما کی تلوار لٹک رہی تھی۔ میڈیا کے اندر کوئی ان کو نائب وزیر اعلیٰ تو کوئی وزیر اعلیٰ بنائے جانے کی پیشنگوئی کررہا تھا۔ اس کے دو دن بعد یوگی کو دہلی بلا کر خوب رسوا کیا گیا۔ یوگی نے بھی نہ صرف حکومت اتر پردیش کے ٹوئٹر ہینڈ ل بلکہ تشہیری پوسٹرس کے اوپر سے بھی مودی اور شاہ کی تصویر ہٹوادی ۔ آگے چل کر ان لوگوں کو احساس ہوا کہ اسی طرح کی خانہ جنگی کے سبب پچھلی مرتبہ سماجوادی پارٹی کو شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ اس وقت اکھلیش یادو اور شیوپال یادو میں پہلے تو خوب جوتم پیزار ہوئی اور جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو ملائم سنگھ یادو نے مداخلت کرکے صلح صفائی کرادی لیکن نقصان تو ہوچکا تھا۔ یہی صورتحال اب ہے اور سنا ہے مودی ویوگی کے درمیان سنگھ نے جنگ بندی کرائی ہےنیز مودی کے من پسند اے کے شرما کو صوبے کی اکائی کا نائب صدر بنادیا گیا۔
اے کے شرما کی تاجپوشی پر کوئی مودی بھکت یہ کہہ سکتا ہے نائب وزیر اعلیٰ نہ سہی تو پارٹی کا نائب صدر ہی سہی کیا فرق پڑتا ہے؟ اس فرق کوتین مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے، پہلی مثال مودی اور جے پی نڈا کی ہے۔ ایک وزیر اعظم اور دوسرا پارٹی صدر ہے۔ دوسرا امیت شاہ اور پارٹی کے کئی نامعلوم نائب صدورکی ہے جن کو کوئی نہیں جانتا۔ ان میں سے ایک مکل رائے پارٹی چھوڑ کرچلا گیا تب بھی کوئی فرق نہیں پڑا، تیسری اور آخری مثال یوگی ادیتیہ ناتھ اور سوتنتر دیو سنگھ کی ہے جو اتر پردیش کی یوپی اکائی کے صدر ہیں۔ یوگی کی اچھی بری خبریں دنیا بھر کے اخباروں میں شائع ہوتی ہیں سوتنتر دیو سنگھ کو کوئی اتر پردیش میں بھی نہیں پوچھتا ایسے میں ان کے نائب اے کے شرما کو کون پوچھے گا۔ اے کے شرما کی کی سیاسی قتل کا جشن یوگی نے پورے صوبے میں ہزاروں بینر لگا کر منایا۔ ان پر لکھا تھا مفت ٹیکہ فراہم کرنے کے لیے یوگی کا مودی کو شکریہ۔ لوگ پریشان ہوگئے تیرہ دن بعداچانک یوگی کو شکریہ ادا کرنے کی کیا سوجھی؟ لیکن اے کے شرما کی رسوائی کا اعلمرکھنے والے سمجھ گئے کہ شکریہ کس چیز کا ہے۔ یہ ویکسین کی سیاست۔
یوگی جی جس اتر پرديش کے لوگوں کو مفت ویکسین مہیا کرنے کے لیے مودی جی کا شکریہ اس میں ویکسین کی بابت لوگ کیا سوچتے ہیں اس کا اندازہ پرتاپ گڑھ کی واردات سے کیا جاسکتا ہے۔ اس ضلع میں شُکلاپور گاؤں کے لوگوں نے ايک مندر تعمير کر کے وہاں ‘کورونا ماتا‘ کی مورتی رکھ دی۔ اور اندھی عقیدت سے سرشار بھگت اس امید کے ساتھ پانی، پھول اور چڑھاوے چڑھانے لگے کہ ‘ماتا‘ انہیں وائرس سے بچا لے گی۔ اس کے بعد پولس نے مندر کو منہدم کردیا لیکن کورونا ماتا کے مندروں کی خبر کیرالا اور تمل ناڈو سے بھی آئی ہے۔ بہار کے بیگو سرائے میں واقع دہیا گاوں کے بارے میں انتظامیہ کو معلوم ہوا کہ وہاں کسی نے ٹیکہ نہیں لگایا۔ اس بابت محکمۂ صحت جب بیداری پیدا کرنے کے لیے پہنچا خواتین لاٹھی ڈنڈے کے زور سے سرکاری اہلکاروں کو بھگا دیا۔ ان کا کہنا تھا ویکسین سے کچھ نہیں ہوتا آپ لوگوں کو اس کے پیسے ملتے ہیں لیکن ہماری جان چلی جائے گی۔ لاکھ سمجھانے بجھانے پر صرف ایک عورت راضی ہوئی ۔ بی ڈی او کا کہنا ہے کہ ہر ضلع میں ایسے گاوں ہیں جہاں سوشیل میڈیا نے افواہیں پھیلا رکھی ہیں۔ سچ تو یہ ہے سوشیل میڈیا کے اثرات گاوں سے زیادہ شہروں میں ہیں۔
ملک کے اندر ویکسین کے تعلق سے پھیلی غلط فہمیوں کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس صورتحال میں ذرائع ابلاغ کے علاوہ سرکاری سرپرستی میں پھلنے پھولنے والے لالہ رام دیو جیسے لوگوں کا بھی بڑا حصہ ہے جن کو یقین ہے کہ کسی کا باپ بھی انہیں گرفتار نہیں کرسکتانیز حکومت کی عدم سنجیدگی کا بھی عمل دخل ہے۔ 16 جنوری کو ملک میں ٹیکہ کاری کا آغاز ہوا۔ اس وقت کووڈ شیلڈ کے دو خوراک کا درمیانی وقفہ 28-42 دن تھا، لیکن 22؍ مارچ کو اس 4-6 ہفتے کو بڑھا کر6-8 ہفتے کردیا گیا۔ عوام کی جیسے جیسے ویکسین میں دلچسپی بڑھی اور فراہمی متاثر ہونے لگی تو 13؍ مئی کو اسے پھر سے بڑھا کر 12-16 ہفتے کردیا گیا۔ اب غیر ملکی مسافروں کے لیے ۱۲ سے ۱۶ ہفتوں کو گھٹا کر ۴ سے ۶ ہفتے کردیا گیا اور یہ سہولت صرف 31؍اگست تک باہر جانے والوں کے لیے ہے۔ یہ تبدیلیاں سائنٹفک کم اور ضرورتاً زیادہ دکھائی دیتی ہیں۔
جدید تحقیق کے مطابق ۶ ہفتے یا کم وقفہ رکھنے سے اس کی اثر پذیری صرف 50-60% رہ جاتی ہے جبکہ 12-16 ہفتوں کے درمیان یہ بڑھ کر81.3% ہوجاتی ہے۔اس بنیاد پر برطانیہ اور اسپین میں بھی یہ وقفہ بڑھایا گیا ہے۔ امریکی ماہرِ وباء ڈاکٹر انٹونی فاوچی نے اس بابت خبردار کیا ہے کہ دو خوراک کے درمیان وقفہ بڑھانے سے انفیکشن کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ وہ ہندوستانی نژاد ڈیلٹا ویرینٹ کو 40-50% زیادہ زود اثر بتا کر زیادہ سے زیادہ ٹیکہ کاری پر زور دیتے ہیں۔ کوویڈ شیلڈ تو خیر آکسفورڈ کی آسٹرازینکا کی ایجاد ہے اور اس کی حقانیت کی دنیا معترف ہے لیکن ہندوستان بایو ٹیک کی سودیشی کوویکسین کو تو ابھی تک ڈبلیو ایچ او نے تسلیم ہی نہیں کیا ہے۔ اس لیے فی الحال بیرون ملک اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے یعنی جن لوگوں نے یہ ٹیکہ لگایا ہے ان کو کئی ممالک میں سفر کے بعد قرنطینہ کی صعوبت سے گزرنا پڑسکتا ہے۔ امریکہ نےایمرجنسی سرٹیفیکیشن کی درخواست ٹھکرا دیہے۔ اس پر معمول کے مطابق کام چل رہا ہےلیکن ویکسین کے معاملے میں باربار کی تبدیلی حکومت کی غیر سنجیدگی کی جانب اشارہ کرکے شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے۔
کورونا کی بابت فی الحال عوام عجیب مخمصے میں گرفتار ہیں۔ ایک طرف تو میڈیا میں لوگوں کو ڈرایا جا رہاہے۔ دوسری جانب ٹیکے کی فراہمی متاثر چل رہی اور تیسری طرف سرکار اس پر سیاست کررہی ہے۔ کورونا کی دوسری لہر کے آغاز میں 20؍ اپریل کو مغربی بنگال کے انتخابی مہم سے تھوڑا سا وقت نکال کر وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کیا تھا۔ عوام کو وبا کے تعلق سے احتیاط کرنے کی خوب نصیحت کی تھی اور خود ان کو پامال کرنے کی خاطر مغربی بنگال لوٹ گئے تھے۔ اس کے بعد ملک میں وہ تباہی مچی کہ جس کا تصور بھی کسی نے نہیں کیا تھا۔ نہ دوائی، نہ آکسیجن،نہ اسپتال اور نہ شمشان۔ ان میں سے ہر ایک کے لیے ملک کے عوام در در کی ٹھوکریں کھاتے پھرے لیکن اچھل اچھل کر تقریر کرنے والے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ گدھے کے سر سے سینگ کی مانند غائب ہوگئے بلکہ ان کی دم یوگی بھی نہ جانے کہاں دبک کر بیٹھ گئی ۔ اس اندوہناک کیفیت پر یہ شعر صادق آتا تھا؎
کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری
اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وزیر اعظم ۷؍ جون کو مفت کورونا ویکسین فراہم کرنے کا اعلان کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ فی الحال مودی جی کی مقبولیت بے حد کم ہوگئی ہے۔ ساری دنیا میں ان کی کارکردگی پر زبردست تنقید ہوچکی ہے ایسے میں وزیر اعظم نے بڑی مکاری سے پہلی لہر میں کامیابی کا سہرہ اپنے سر باندھا اور دوسری لہر کی تباہ کاری کے لیے صوبائی حکومتوں کو ذمہ دار ٹھہرا دیا حالانکہ دوسری لہر کے لیے ذمہ دار کمبھ میلے کا انعقاد ان کی مرضی سے ہوا۔ انتخابی مہم کے دوران بھیڑ انہوں نے جٹائی اور اترپردیش میں پنچایتی الیکشن کا فیصلہ بھی اقتدار کی بھوکی بی جے پی سرکار کا تھا۔ اس لیے اگر صوبائی حکومتوں کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جائے تو اس دوران سب سے زیادہ متاثر ہونے والی شمالی ریاست اترپردیش اور مغرب میں گجرات کے اندر بی جے پی کی حکومت پیش پیش ہے۔ مشرق کے بہار میں این ڈی اے کے اندر بی جے پی سب سے بڑی پارٹی ہے۔مودی جی بھول گئے کہ یہ تیر تو الٹا کمل کی جانب پلٹ کر آتا ہے۔ اس دنیا میں اب جو کچھ اچھا ہوا ہماری بدولت اورساری برائی دوسروں کے سبب والا فارمولا اب نہیں چلے گا۔ عوام اتنی بیوقوف نہیں ہے۔
عالمی سطح پر اپنی ساکھ بنانے کی خاطر مودی جی اپنے منہ میاں مٹھو تو بن گئے لیکن پچھلے دو سالوں کے اندر بین لاقوامی سطح پر ملک کی جو حالت ہوئی ہےاس کو کہاں چھپائیں گے؟ دنیا بھر میں مستحکم ترقی کے اہداف (Sustainable Development Goals Ranking) کی درجہ بندی ابھی حال میں شائع ہوئی ہے۔ اس فہرست میں ہندوستان مزید دو درجات نیچے اتر کر ۱۱۷ ویں مقام پر پہنچ گیاہے۔ پڑوسی ممالک سے اس کا موازنہ کریں تو بھوٹان 75 ویں مقام پر ہے۔ برونئی 88 ویں، مالدیپ 79 ویں، سری لنکا 87 ویں اور نیپال 96پر ہے۔ امیت شاہ جس بنگلہ دیش کو بھوکا اور ننگا کہتے ہیں وہ 109 ویں اور ہندوستان 120 ویں پر ہے۔ ایسے میں 129 ویں پر موجود پاکستان سے موازنہ کرکے اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔ اس عالمی درجہ بندی کو متاثر کرنا مودی سرکار کے بس کی بات نہیں ہے۔ وہاں سی بی آئی اور پولس کا چھاپہ مارکر ٹوئٹر یا واٹس ایپ کی طرح دھونس دھمکی ممکن نہیں ہے اس لیے یہ مودی جی کی تقاریر اور دعووں کو آئینہ دکھا کر شرمندہ کرتی ہے۔ ویکسین پر وزیر اعظم کا اعلان سنتے ہوے یہ خیال گزرتا ہے کہ کاش قوم کو لاحق کذب گوئی اور فسطائی سیاست کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی کوئی ویکسین ایجاد ہوجاتی اور اسے سارے لوگوں کو مفت میں لگاکر منافرت کے وائرس سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی تو اچھا تھا مگر غالب نے کہا تھا ’ہزاروں خواہشیں ایسی۰۰۰۰۰‘
(۰۰۰۰۰۰جاری)
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔