ٹرینرز کا دور اور ایک انسانی کمزوری
موجودہ دور کو ٹرینرز کا دور بھی کہا جاتا ہے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف خوبیوں کو پیدا کرنے اور خامیوں کو دور کرنے کی پریکٹس، ٹریننگ اور تربیت لینا ضروری ہوگیا ہے۔چنانچہ آج سے چند سال پہلے تک پاکستان کے تعلیمی اداروں میں صرف کتابیں ہی پڑھائی جاتی تھیں، لیکن اب تعلیمی اداروں نے نصاب تعلیم سے ہٹ کر طلباء کی تربیت کا بھی اہتمام شروع کردیا ہے۔ یہ نہایت ہی خوش آئند عمل ہے۔ کیونکہ کتاب کا لکھے اور عملی تجربے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔آج یونیورسٹیز ہوں یا ملٹی نیشنل کمپنیاں۔ میڈیسن کمپنیاں ہوں یا مختلف سروسز فراہم کرنے والے ادارے ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملازمین کی تربیت کریں۔
جیسے جیسے یہ رجحان بڑھتا جا رہا ہے ساتھ ساتھ ٹرینرز کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے، جو اپنی صلاحیتوں، تعلیمی قابلیتوں اور عملی تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں لیکچرز اور ایکسرسائز کے ذریعے ٹریننگ فراہم کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض مفت ہیں، بعض آدھے مفت آدھے قیمتا، بعض سستے اور بعض بہت ہی مہنگے ہیں۔
عام طور پر مفت وہ ہوتے ہیں جن کی ٹریننگ میں مذہبی یا دینی ٹریننگ کا عنصر زیادہ ہوتا ہے۔ آدھے مفت آدھے قیمتا وہ ہوتے ہیں جن کی ٹریننگ میں کچھ دینی اور کچھ دیگر ٖٖٖضروری ٹریننگ شامل ہوتی ہیں۔ اور صرف قیمتا وہ ہوتے ہیں جن کی ٹریننگ میں مذہبی یا دینی تربیت کا کوئی عنصر شامل نہیں ہوتا۔ چنانچہ یہ اپنی اپنی صلاحیت اور قابلیت کے مطابق کم یا زیادہ معاوضہ لیتے ہیں۔
چنانچہ مکمل مذہبی یا دینی تربیت فراہم کرنے والے ظاہر کے اعتبار سے مکمل مذہبی حلیہ رکھتے ہیں۔ جبکہ دوسری قسم والے آدھے تیتر آدھے بٹیر اور تیسری قسم والے مکمل دین بیزار ہوتے ہیں۔ابھی جو بات میں کرنے جارہا ہوں اس کا تعلق تیسری قسم سے نہیں اس لئے اسے سردست یہاں سے نکال لیں۔
پہلی اور دوسری قسم والوں کو چاہیے وہ اپنے اندر یہ خوبی پیدا کریں کہ ان کی کوئی گفتگو ایسی نہ ہو جس میں تضاد بیانی کا شبہ ہوجائے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ وہ مختلف لیکچرز میں بعض ایسی باتیں کرجاتے ہیں جو ان کے کسی دوسرے لیکچر سے ٹکرا رہی ہوتی ہیں۔
میرے خیال میں ایسا اس لئے بھی ہوتا ہے کہ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ دوسروں کے لئے جیسا بھی ہو اپنے آپ کو ہمیشہ جسٹیفائی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔چنانچہ یہ دیکھا گیا ہے کہ ٹرینرز ایک طرف تو پرسنیلٹی پر لیکچر دیتے ہوئے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسان کے ظاہر کا اثر اس پر خود بھی پڑتا ہے اور دوسروں پر بھی پڑتا ہے۔ کیونکہ اگر آپ ٹیچر ہیں اور آپ کا ظاہری حلیہ ٹیچروں والا نہیں تو آپ اپنے شاگردوں کو قائل نہیں کرسکیں گے، انہیں کلاس دے کر مطمئن نہیں کرسکیں گے۔ دیکھنے والے کی نظر آپ کے ظاہر پر پہلے پڑتی ہے جبکہ آپ کی آواز اس کے کانوں تک بعد میں پہنچتی ہے، اس لئے ظاہر کی درستگی انتہائی ضروری ہے۔ آپ کا لباس، آپ کا چال چلن، آپ کی گفتگو، آپ کی جوتی، آپ کے بال، آپ کا اٹھنا بیٹھنا ، کپڑوں اور جوتوں کا رنگ سب ایسے ایسے ٹھیک ہونا چاہیے۔
لیکن یہی ٹرینرز جب روحانیت، مذہبی یا دینی گوشوں پر بات کرنا شروع کرتے ہیں تو بیک جنبش ظاہر کی نفی کردیتے ہیں۔ اور فرماتے ہیں پاکیزگی تو بس دل کی ہونی چاہیے، انسان کی نیت صاف ہونی چاہیے، ظاہر میں کچھ نہیں رکھا، اصل تو بس باطن ہی ہے۔ ظاہر کے جبے ، قبے، اور دستار کی کوئی ویلیو نہیں ہے، اللہ دلوں کے حال جانتا ہے، بس بندے کا دل صاف ہو، وغیرہ وغیرہ۔
اب ایک ہی ٹرینر سے دو الگ الگ لیکچرز اور بعض اوقات ایک ہی لیکچر کے آغاز کی گفتگو اور اختتام کی گفتگو میں یہ تضاد بیان سن کر آدمی کے ہوش ٹھکانے آجاتے ہیں۔ یہ تضاد بیانی دراصل اپنے آپ کو جسٹیفائی کرنے کے لئے ہوتی ہے، انسان کے اندر جوکمزوری ہوتی ہے وہ پھر اسے اسی طرح جسٹیفائی کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کا سامعین پر نہایت ہی برا اثر پرٹا ہے۔
2۔ ایک دوسری تضاد بیانی یہ بھی دیکھی گئی ہے کہ کبھی کبھی کوئی ٹرینر جو کام دن رات خود کررہا ہوتا ہے اسی طرح کے اور کام پرکسی دوسرے پر سخت تنقید کررہا ہوتا ہے۔ مثلا ایک ٹرینر کو دیکھا وہ فرمارہے تھے میرے پاس تبلیغی جماعت والے اکثرآتے رہتے ہیں میں انہیں کہتا ہوں بھائی پہلے اپنے آپ کو اپنے گھر والوں کو ٹھیک کرلو، اپنے محلے والوں کو ٹھیک کرلو پھر دوسرے شہر میں جاو، جب تک اپنا گھر ٹھیک نہیں ہوتا اپنا محلہ ٹھیک نہیں ہوتا دوسرے شہر میں جانا صحیح نہیں ہے۔ اب دیکھا جائے تو یہ حرکت وہ ٹرینر خود بھی کررہا ہوتا ہے، یعنی خود شہرشہر، قریہ قریہ، گھومتا ہے اور اسی اسی ہزار کا ایک لیکچر دیتا ہے، لیکن عمل کی دعوت دینے کے لئے کوئی اس کے پاس آئے تو ان سے سوال کرتا ہے کہ کیا تمہارے گھر والے ٹھیک ہوگئے کہ تم دوسرے شہر آئے ہو؟۔ یہ سوال تو اس سے بھی ہوسکتا ہے کہ جوجو لیکچرآپ دوسروں کو دینے پورے ملک میں گھومتے ہیں کیا وہ ساری باتیں آپ کے گھر، آپ کے محلے کے ہرہرفرد میں پیدا ہوچکی ہیں کہ آپ کو دوسرے شہر نکلنے کی فرصت ملی۔
قرآن نے اور ہمارے دین نے ایسے شخص کو ملامت ضرور کیا ہے جو خود عمل نہ کرے اور دوسروں کو نصیحت کرے لیکن اس بات سے منع نہیں کیا کہ جو بات ابھی آپ کے عمل میں نہیں اسے دوسروں کو نہ بتاو۔ میرے خیال میں اس طرح کی بات کرنے میں ان بچاروں کا قصور بھی نہیں کیونکہ وہ یہ بات شاید لاعلمی میں کہہ رہے ہیں، کیونکہ تبلیغی جماعت دراصل سیکھنے پر ہی زور دیتی ہے، وہ جب کسی کو نکلنے کا کہتے ہیں تو ان کے الفاظ یہ ہوتے ہیں: اللہ کے راستے میں نکل کراس کام کوسیکھیں۔ اب جو سیکھنے نکلتے ہیں انہیں ساتھ ساتھ عملی طور پر پریکٹس کروائی جاتی ہے، کہ چلو فلاں کو دعوت دے کر سیکھو،چار مہینے تک پریکٹس کرو اور پھر اپنے علاقے میں کام کرو۔
لہٰذا ہر لیکچر دینے والے کو کسی بھی ایسی بات سے بچنا چاہیے جو اس کی اپنی ہی بات کو کاٹ رہی ہو۔کیونکہ کسی کو بھی اوپر چڑھنے میں دیر لگتی ہے لیکن نیچے گرنے میں سیکنڈ لگتے ہیں، سامعین سارا اعتماد اٹھ جاتا ہے، بیان میں وہ تاثیر نہیں رہتی جو کسی کے اندر چینج لاسکے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔