پاکستانی سر زمین پر ڈرون حملے نا قابل قبول
پاکستان سالوں سے دہشت گردوں اور دہشت گردی کے خلاف بر سرپیکار ہے۔ اس کے شمال میں واقع افغانستان گزشتہ چالیس سال سے عالمی طاقتوں کا میدان جنگ بنا ہوا ہے یہاں مختلف ممالک اور نسلوں کے لوگ لاکر بسائے گئے اور انہیں اپنے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا گیا۔ افغانستان سے لاکھوں لوگ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور یہی کے ہوکے رہے کم از کم اب تک تو ایسے کوئی آثار نظر نہیں آرہے کہ یہ مہاجر اپنے ملک واپس چلے جائیں اور ان کے روپ میں دہشت گرد پاکستان نہ آئیں اور امن قائم ہونے کی کوئی ٹھوس سبیل قائم ہو۔ پاکستان کسی ایک طرف سے دہشت گردی اور دہشت گردوں کی زد میں نہیں ہے بلکہ یہ حملہ کئی اطراف سے ہے انہی میں سے ایک سپر پاور امریکہ کے ڈرون ہیں جو جب چاہتے ہیں جہاں چاہتے ہیں حملہ آور ہو جاتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں نشانہ بنالیتے ہیں۔ یوں تو وہ یہ ٹیکنالوجی بے دریغ ہر جگہ جہاں وہ دوسروں پر جنگ مسلط کرنے گیا استعمال کرتا رہا ہے تاہم پاکستان میں اس نے پہلا ڈرون حملہ 2004 میں کیا اور پھر جیسے اس نے اسے اپنا حق سمجھ لیا کہ جب چاہے جہاں چاہے ڈرون چلادے۔ ان حملوں میں کم گناہ گاروں کے ساتھ زیادہ بے گناہ مارے گئے ان ہلاک شدگان میں مرد، عورت، بچے ،بوڑھے کسی کی کوئی تخصیص نہیں اب تک ہزاروں پاکستانی ان حملوں میں شہید ہو چکے ہیں۔ جتنی بار حملہ ہوا ہے اتنی ہی بار احتجاج بھی کیا گیا ہے لیکن اگلی بار پھر حملہ ہو جاتاہے اور یہ دیکھے بغیر ہوتا ہے کہ مرنے والا کون تھا بچہ، بڑا معصوم یا گناہگار مرد یا عورت اسے اس بات کی بھی کوئی فکر یا پرواہ نہیں کہ اس نے ہماری خودمختاری پر حملہ کیا ہے۔ ہمارے قبائلی علاقوں میں تو وہ مسلسل ایسا کررہا ہے لیکن اس بار اس نے بلوچستان کے ضلع نوشکی میں ایک ٹیکسی پر حملہ کیا جس میں دو افراد ہلاک ہوئے اور دعویٰ کیا گیا کہ ان میں افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور بھی شامل تھے۔ ملا اختر منصور 2015 میں ملا عمر کی وفات کے بعد طالبان کے سربراہ بنے تھے۔ ملا اختر منصور یا کسی اور افغانی کا پاکستان آنا یا آتے رہنا کسی اچنبھے کی بات نہیں یہ لوگ اکثر اوقات علاج ہی کی غرض سے پاکستان آتے رہتے ہیں۔ اب بھی وہ ایک ٹیکسی میں سفر کررہے تھے اور ٹیکسی ڈرائیور کا ان سے کوئی تعلق نہیں تھا سوائے اس کے کہ اس کی ٹیکسی استعمال ہوئی ملا اختر منصور بھی کسی ایسے ہی مقصد کے لیے پاکستان آئے ہوں گے۔ اس حملے پر پاکستان نے امریکہ سے شدید احتجاج کیا اور وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف دونوں نے اسے پاکستان کی خود مختاری پر حملہ قرار دیا۔ آرمی چیف نے بالکل بجا کہا کہ امریکہ نے یہ حملہ کرکے آپریشن ضرب عضب کو نقصان پہنچایا۔ پاکستان جس قوت سے دہشت گردی کے خلاف نبردآزما ہے دنیا کا دوسرا کوئی ملک نہیں اور نہ ہی اس جنگ میں کوئی تخصیص کی جارہی ہے۔ دہشت گرد کو صرف دہشت گرد سمجھا جارہا ہے اور جس شدت سے ان کے خلاف کاروائیاں ہورہی ہیں انہیں اب تک ختم ہو جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ ہونے کی وجہ دہشت گردوں کی وہ تازہ کمک اور کھیپ ہے جو یہاں بھیجی جارہی ہے۔ آرمی چیف نے اگر اس خیال کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے المیہ قراردیا کہ پاکستان افغانستان میں دہشتگردی کرارہا ہے تو بالکل درست کہا۔ ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ وہی افغان جو چار دہائیوں سے پاکستان میں مہاجرین کی صورت میں موجود ہیں اور ہماری معیشت پر بوجھ بنے ہوئے ہیں وہ جب افغانستان جاتے ہیں تو بھارت کے چنگل میں بڑی آسانی سے پھنس جاتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ افغانی پاکستان میں بیٹھ کر بھی بڑی آزادی سے پاکستان کے خلاف بات کرتے ہیں اور کئی اپنے ملک کی خرابی کے لیے پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے امریکہ دہشت گردی کی جڑ کو کاٹے اور ان افغانیوں کو اپنے ملک واپس جانے میں مدد دے تاکہ نہ یہ پاکستان میں رہیں اور نہ ان کی آڑ میں دہشت گرد ادھر آئیں۔ اگر امریکہ واقعی چاہتا ہے کہ دہشت گردی ختم ہوتو وہ ڈرون حملے کرکے پاکستان کی خود مختاری کو چیلنج نہ کرے کیونکہ پاکستان اپنے دشمنوں سے نمٹ سکتا ہے اور عملی طور پر ایسا کرکے دکھارہا ہے بلکہ وہ پاکستان کا یہ مطالبہ پورا کرے کہ یہی ڈرون وہ ملا فضل اللہ کو مارنے کے لیے ستعمال کرے اور اپنے انڈر کمانڈ افغان فوج کی مدد کرے تاکہ وہ اپنے ملک میں دہشتگردی ختم کرے اور یہ بات بھی سمجھ لے کہ اگر افغانستان میں بہت ساری قوتیں اپنے اپنے مفادات کی جنگ ختم کردے۔ وہاں سے بھارت، امریکہ، ایران، عرب سب اپنے اپنے ممالک واپس چلے جائیں اور واقعی افغان نمائندہ حکومت قائم ہو جائے تو افغانستان میں امن قائم ہونے کے امکانات بہتر ہو سکتے ہیں اور دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو بھی وہاں سے ختم کیا جائے ان پر بیرونی امداد بند کردی جائے تو یہ سب خود بخود ختم ہو جائیں گے۔ امریکہ یہ یاد رکھے کہ پاکستان میں ڈرون حملے دہشت گردوں کو نہیں بلکہ اس کے خلاف جنگ کو نقصان پہنچائیں گے اور اگر پاکستان نے اس جنگ میں اس کی مدد بند کردی تو وہ یہ جنگ چند ماہ بھی نہیں لڑ سکے گا۔ اس لیے پاکستان کے مطالبات اور احتجاج کو سنجیدگی سے لے کر اپنی حکمت عملی بنائے دنیا یقیناًاس کے مثبت اثرات دیکھے گی۔ افغان حکومت بھی بات بے بات پٹری سے اتر جاتی ہے۔ اسے بھی معلوم ہو جائے گا کہ اس کے ملک میں خرابی کون کررہا ہے اسے بجائے دوسروں کی سننے کے افغان طالبان سے مذاکرات پر زیادہ سنجیدگی دکھانی چا ہیے تاکہ اس کے ملک میں امن قائم ہو اور ساتھ ہی دنیا میں بھی امن قائم کیا جاسکے تو پھر اسے امریکی مدد کی ضرورت ہوگی نہ امریکی ڈرونز کی اور نہ ہی وہ چالیس سال کے اپنے میزبانوں کی تھالی میں چھید کرنے کی گناہ گارہوگی۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔