پس پردہ گجرات

معصوم مرادآبادی

سن 2002 کی گجرات نسل کشی سیکولر جمہوری ہندوستان کی پیشانی پرسب سے بدنما داغ کے طورپر جانی جاتی ہے۔ 27فروری 2002کو گودھرا اسٹیشن پر سابرمتی ایکسپریس کی بوگی نمبر 6میں آگ کیسے اور کیوں لگی تھی، یہ معمہ آج تک حل نہیں ہوپایا ہے لیکن اس کا قصوروار مسلمانوں کو قرار دے کر جو قتل عام کیاگیا، وہ درندگی، بربریت اور وحشت کی بدترین مثال ہے۔ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ گجرات میں قتل وغارت گری کرنے والوں کو صوبائی حکومت کی بھرپور سرپرستی حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ نظم ونسق قائم کرنے والی سرکاری مشینری نے نہ صرف اپنی ذمہ داریوں سے انحراف کیا بلکہ وہ خود بھی ایک سرگرم عنصر کے طورپر اس میں شریک رہی۔ لیکن نفرت، تعصب اور درندگی کے اس بدترین دور میں بھی سرکاری مشینری کے اندر کچھ ایسے لوگ موجودتھے، جنہوں نے نہ صرف اپنی ذمہ داریوں کو پوری ایمانداری کے ساتھ ادا کیا بلکہ وہ مظلوموں کی دادرسی میں بھی پیش پیش رہے۔ ان افسران نے ایک ظالمانہ نظام کا حصہ بننے کی بجائے خود کو انسانیت کی لاج بچانے کے لئے وقف کردیا۔ ان ہی افسران میں گجرات کیڈر کے اعلیٰ پولیس آفیسر آربی سری کمار کا نام خاص طورپر قابل ذکر ہے جو 9اپریل 2002سے 18ستمبر 2002تک گجرات انٹیلی جنس کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر تعینات تھے۔ اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران انہوں نے حالات کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا اور ظالمانہ نظام کے خلاف قدم قدم پر مزاحمت کی۔ انہوں نے نہ صرف حکومت کا ساتھ دینے سے انکار کردیا بلکہ گجرات نسل کشی کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے روبرو حلفیہ بیان دے کر ایک تاریخ رقم کی۔ اپنی اس جرأت اور انسانیت نوازی کی پاداش میں ان کی راہ میں کانٹے بچھائے گئے اور وہ سرکاری عتاب کا شکار ہوئے۔ حالانکہ بعد کو عدالتی مداخلت کے نتیجے میں انہیں انصاف بھی ملا۔

گجرات فسادات کے تلخ اور ہولناک تجربات پر مبنی آربی سری کمار کی ایک کتاب بعنوان ’پس پردہ گجرات‘ حال ہی میں اردو اور ہندی زبانوں میں منظرعام پر آئی ہے۔ جو دراصل ان کی انگریزی کتاب کا ترجمہ ہے۔ اس انتہائی اہم دستاویزی کتاب کو شائع کرنے کا جرأت مندانہ کام ’فاروس میڈیا نئی دہلی‘ نے انجام دیا ہے جو اس سے قبل بھی کئی ایسی کتابیں منظرعام پر لاچکا ہے، جنہیں چھاپنے سے لوگ پس وپیش کرتے ہیں ۔ 250صفحات کی اس کتاب میں مصنف نے موقع پر موجود ایک اعلیٰ پولیس افسر کی حیثیت سے گجرات فسادات اور بعد میں ان کی پردہ پوشی اور مجرموں کو تحفظ فراہم کرنے کی سرکاری کوششوں کو پوری جرأت کے ساتھ بے نقاب کیا ہے۔ مسٹر سری کمار کی اس کتاب کی اہمیت یوں بھی بڑھ جاتی ہے کہ انٹیلی جنس کے اعلیٰ عہدیدار کے طورپر ان کی خفیہ رپورٹیں اور تحقیقاتی کمیشن کے سامنے ان کے بیانات عیار اور مکار سیاست دانوں ، پولیس مشینری اور نوکر شاہی کے گھناؤنے رول کا پردہ چاک کرتے ہیں ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ انہوں نے ایک ظالمانہ نظام کے خلاف پوری جرأت کے ساتھ علم بغاوت بلند کیا اور نظام میں موجود رہ کر اپنا مثبت اور قابل تعریف کردارنبھایا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے ان فسادات کی جانچ کے لئے تشکیل دی گئی ایس آئی ٹی کے کام کو انہوں نے قریب سے دیکھ کر یہ رائے قائم کی کہ’’ ایس آئی ٹی نے فسادات کے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کی بجائے ان کا دفاع کیا۔ ‘‘

قابل ذکر بات یہ ہے کہ فسادات اور بعد کے حالات کے عینی گواہ نے یوں تو یہ کتاب اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے قلم بند کی ہے لیکن اس دوران انہوں نے مذہبی کتابوں کے گہرے مطالعے کے بعد یہ نتائج بھی اخذ کئے ہیں کہ ہمارے سیاست داں ، بیوروکریسی اور پولیس افسران نہ صرف اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے مجرمانہ چشم پوشی کے قصوروار ہیں بلکہ انہوں نے اپنی مذہبی تعلیمات سے صریحاً انحراف کرکے اپنے لئے جہنم کے دروازے کھول لئے ہیں ۔ چونکہ مذہب ہی وہ بنیاد ہے جو انسان کو ظلم وبربریت اور انسانوں کے خلاف ناروا سلوک کو روکنے کی تلقین کرتا ہے اور مصیبت کے وقت میں اپنے حقیقی مالک سے رجوع ہونے کی تبلیغ کرتا ہے۔ لیکن گجرات کی نسل کشی میں شریک لوگ چونکہ بنیادی انسانی صفا ت سے بے بہرہ تھے، لہٰذا انہوں نے وہ سب کام کئے جن سے شیطان خوش ہوتا ہے۔ اس کتاب میں وید، اپنیشد، مہابھارت اور معاون سنسکرت کتابوں میں بیان کردہ راج دھرم کے اصولوں کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی نے وزیراعلیٰ نریندرمودی کو راج دھرم نبھانے کی تلقین کی تھی۔ آربی سری کمار نے اس کتاب کا انتساب جن تین شخصیات کے نام کیا ہے، ان میں آخری نام سابق ممبرپارلیمنٹ احسان جعفری کا ہے جنہیں فسادیوں نے بڑی بے رحمی کے ساتھ 28فروری 2002کو احمدآباد کی گلبرگہ سوسائٹی میں قتل کردیا تھا۔

آربی سری کمار نے اپنی اس کتاب میں فرقہ پرست عناصر کے گھناؤنے کردار کو طشت ازبام کرنے کے علاوہ ان سیکولر سیاست دانوں کے چہروں پہ پڑی ہوئی نقاب کو بھی نوچا ہے جنہوں نے مرکز میں برسراقتدار رہتے ہوئے گجرات کے مظلوموں کو انصاف دلانے کے لئے کوئی عملی پیش رفت نہیں کی اور سیکولرزم وجمہوریت کا دم بھرنے کے باوجود اپنے عمل سے فرقہ پرست اور فسطائی عناصر کو تقویت پہنچاتے رہے۔ اگر یہ سیکولر حکمراں اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے تو آج ملک کا منظرنامہ بالکل مختلف ہوتا۔

مجموعی طورپر 13ابواب پر مشتمل اس کتاب میں فساد کے پس منظر، مصیبت اور مایوسی کا دور، حکومت کی انتقامی کارروائی، اجتماعی جرم میں شریک نوکرشاہی، کانگریس اور سماجوادی کے بے روح سیکولرزم اور سیاست کی جرم کاری جیسےعنوانات قائم کئے گئے ہیں ۔ اس کتاب میں اس وقت کے وزیرداخلہ ایل کے اڈوانی اور وزیراعلیٰ گجرات کے نام مصنف کے چشم کشا خطوط بھی شامل کئے گئے ہیں ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ مسٹر سری کمار نے 6اکتوبر 2004کو تحقیقاتی کمیشن کے سامنے جو حلف نامہ داخل کیا تھا اس میں صاف طورپر لکھا ہے کہ ’’جن مقامات پر قتل وغارت گری کی بڑی اور سنگین وارداتیں ہوئیں وہاں مسلمانوں کے بہیمانہ قتل، ان کی املاک کو وسیع پیمانے پر تباہ کرنے، سولہویں صدی اور اس کے بعد کے تاریخی اسلامی آثار، عبادت گاہوں اور دیگر مقدس مقامات کو تاراج کرنے میں پانچ طرح کے مجرم گروہ سرگرم تھے۔ ریاست کے 21اضلاع میں 521آثار ودیگر مقامات کو تباہ کیاگیا۔ ‘‘ (صفحہ27)

اس کتاب کا مطالعہ گجرات میں مسلم نسل کشی، انتظامیہ اور پولیس کے بڑے طبقے کے منافرانہ اور غیر انسانی کردار کی نقاب کشائی ہی نہیں کرتا بلکہ ایک فرض شناس پولیس افسر کے الفاظ میں ایک سچی اور دل دہلادینے والی داستان سے روبرو کرتا ہے۔ اس کتاب کے اردو اور ہندی ایڈیشن فاروس میڈیا اینڈ پبلیشنگ پرائیویٹ لمیٹیڈ، ڈی 84ابوالفضل انکلیو، پارٹ1،جامعہ نگر، نئی دہلی-25 سے حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔ ای میل: [email protected]

تبصرے بند ہیں۔