پھولوں کی زبان: ریحان کوثرکے مضامین کا مجموعہ
تعارف و تبصرہ:وصیل خان
نام کتاب: پھولوں کی زبان: ریحان کوثرکے مضامین کا مجموعہ
مرتب: ریاض احمد امروہی
ناشر: الفاظ پبلی کیشنز، کامٹی
قیمت: 190/-روپئے، صفحات : 166
ملنے کا پتہ: ڈاکٹر شیخ بنکر کالونی، کامٹی ۴۴۱۰۰۱ضلع ناگپور (مہاراشٹر)
موبائل: 09373216938، اشرف نیوز ایجنسی اینڈ بک ڈپو، گجری بازارکامٹی ضلع ناگپور (مہاراشٹر)
کسی بھی انسان کے جوہر اس کےنام سے نہیں کام سےکھلتے ہیں اور وہ کام ہی اسے امتیاز وانفراد کے مقام پر پہنچاتا ہے۔ ریاض امروہی اور ریحان کوثر سے میری واقفیت محض ’ الفاط ہند‘ تک محدو دہے اور وہ بھی ٹیلی فون یا کم ازکم ان تحریروں کے ذریعے جو الفاظ ہند کے ادارتی صفحات میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ یہ دونوں حضرات الفاظ ہندکے مدیرہیں اور ادبی، معاشرتی اور تعلیمی سطح پرکافی متحرک و فعال ہیں اور کامٹی میں ودربھ مائناریٹی پرپزاورل ڈیولپمنٹ ایجوکیشنل سوسائٹی نامی تنظیم کے بنیاد گزاربھی جس کے ذریعےملت کے مختلف فلاحی و اصلاحی امو ر انجام پاتے ہیں۔ انہوں نے الفاظ ہندجیسا معیاری مشمولات پر مشتمل اردو جریدہ شائع کرکے یہ ثابت کردیاہے کہ معیار اور اصولوں سے سمجھوتہ نہ کرکے کسی بھی شعبہ حیات میں کامیابی کا پرچم لہرایا جاسکتا ہے۔ الفاظ ہند کا شمار آج اردو کے ان رسائل و جرائد میں ہوتا ہے جن میں شائع ہونے والے مشمولات بلا خوف تردید حوالے کے طور پر استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ حالانکہ اس رسالہ کی عمر کچھ زیادہ نہیںہے وہ جو کہتے ہیں کہ بزرگی بہ عقل است نہ کہ بہ سال رسالہ اسی مقام پر ہےاس کی اشاعت کا آغاز جنوری ۲۰۱۴میں کیا گیا تھا تب سے وہ مسلسل میرے زیر مطالعہ رہا ہےاوراس میں ہونے والی تحریری و فکری ترقیات کا گہرائی سے مشاہدہ کیا ہے یہی وجہ ہے کہ میںنے اپنے کالم میں اسے ہمیشہ ترجیح دی ہے اور عوام الناس کے سامنے اس کے معائب و محاسن گنواتا رہاتاکہ وہ خودپر مزید رنگ و روغن چڑھاتا رہے اور قارئین کے اندرون ملی، ادبی تحریکی شعور بیدا ر کرتا رہے جس کا فی زمانہ زبردست فقدان ہے۔ زیر نظر کتاب’ پھولوں کی زبان ‘ریحان کوثر کے ان مضامین و مقالات کا مجموعہ ہے جو وقتاً فوقتاًمتعدد رسائل و جرائد میں منظر عام ہوچکےہیں یا پھر ’الفاظ ہند‘ کے ادارتی صفحات میں شائع ہوئے ہیں۔ ان مضامین میں جو قدر مشترک پائی جاتی ہے وہ یہ کہ موصوف کے سینے میں دھڑکنے والادل عام قسم کا نہیں بلکہ خاص ہے جو ملت کے دردو غم کا مداوا کرنا چاہتا ہے اس کے مصائب و آلام کوفرحت و انبساط میں مبدل کرنا چاہتا ہے۔ موجودہ سیاسی و فکری حالات پر ان کی گہری نظر ہے، ان حالات میں ملت کا کیا طرز عمل ہونا چاہیئے کہ وہ عصری تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے شعائر اسلامی کا بھی امین و محافظ بنارہے، ان کا خاص موضوع رہا ہے اس کی ایک جھلک اس اقتباس میں دیکھی جاسکتی ہے۔
’’ہمارے دانشور طبقے کو کبھی بھول کر بھی یہ خیال نہیں آتا کہ نونہالان قوم کو عصری تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی دینی چاہیئے، اس کے برعکس وہ اس نہج پر ضرور سوچتے ہیں کہ طلبامدارس کیلئے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی ضروری ہے۔ اس موضوع پر اتنا کچھ لکھا گیا ہے کہ اب اخباروں میں صرف اس کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اس وقت ملک کے سامنے سب سے اہم کام یہ ہے کہ مسلمان نرسری اسکولوں سے لے کر کالج کی سطح تک تمام ادارے نجی طور پر خود قائم کریں اور ان میں دینیات کو لازمی مضمون قراردیں۔ ‘‘
لیکن بڑا المناک پہلو یہ ہے کہ موجود حکومت کی اقلیت دشمن دوسرے لفظوں میں مسلم دشمن پالیسیوں کو فرقہ پرست عناصر کی تائید و نصرت تو فسطائی فکر کا حصہ ہے لیکن کچھ نام نہاد مسلم دانشور بہ ظاہر اور کچھ بہ باطن اگر ان فسطائی طاقتوں کی تائید وپیروی کرنا چاہتی ہیں تو اسے ابن الوقتی اور خود غرضی کے سوا کیا نا م دیا جاسکتا ہے۔ اس تناظر میں اپنے مضامین کے ذریعے ریحان کوثر نے امت کے نونہالان کو پھولوں کی زبان میں جن نکتوں کو ذہن نشین کرنے کی کوشش کی ہے وہ قابل مبارکبا د ہے۔ عام طور پر زیادہ تر مضامین بچوں کے فکری کینوس کو ذہن میں رکھ کر تحریر کئے گئے ہیں لیکن اس سے چھوٹا بڑا ہر کوئی مستفید ہوسکتا ہے۔
مضامین مختصر لیکن جامع اور غیر ضروری طوالت سے پاک ہیں جو قاری کو جھنجھلاہٹ اور اکتاہٹ سے محفوظ رکھتے ہیں۔ زبان و بیان دلکش سادہ اور سہل تر، اسلوب غیر پیچیدہ اور شفاف لیکن کمپوزنگ کی غلطیاں کافی ہیجان انگیزاور غیر ذمہ داری کی مظہر عمدہ و نفیس کاغذ پر اعلیٰ معیاری طباعت کے سبب کتاب انتہائی دیدہ نظر آرہی ہے جس سے مرتب کتاب ریاض امروہی کی انتظامی خوش سلیقگی کا پتہ چلتا ہے جس کی ستائش نہیں کرنا نا انصافی ہوگی۔ کتاب کی افادیت کے پیش نظر قارئین سے اس کے مطالعے کی سفارش ہماری ذمہ داری قرار پاتی ہے سو وہ ہم کررہے ہیں۔
تبصرے بند ہیں۔