کنہیا کمار کیوں ایک ضروری سیاسی متبادل ہے؟

پروفیسر محمد سجاد

(شعبۂ تاریخ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ)

ترجمہ: نایاب حسن قاسمی

        حال ہی میں مَیں نے جرنلزم و ماس کمیونکیشن کے ایک ہونہار طالب علم کی ایک واٹس ایپ گروپ میں تحریردیکھی کہ ’’بیگوسرائے لوک سبھا سیٹ پر مسلم امیدوار کی کامیابی کو یقینی بنانادراصل مسلمانوں کے وجود اور تشخص کا مسئلہ ہے‘‘۔ یہ دیکھتے ہی میں چوکنا ہوگیا، پھرمیرے دل میں یہ سوال پیدا ہواکہ کیایہ(طالب علم) ایک استثناہے یا تعلیم یافتہ مسلمانوں کے قابلِ لحاظ طبقے میں اس طرح کے خیالات پائے جاتے ہیں ؟اس کے بعد میں نے اپنے اس سوال کا جواب تلاش کرنا شروع کیا، تو سوشل میڈیا پر چلنے والے بحث ونقاش نے مجھے واضح طورپر مایوس کیا، مجھے اس بات کی تشویش ہونے لگی کہ ہندستانی جمہوریت کس رخ پر گامزن ہے اور ہمارے معاشرہ و سیاست میں کس طرح انتشار انگیزIdentity Politics مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد ایسا سوچتی ہے، بہت سے نوجوان ایسا لوک سبھا میں متناسب مسلم نمایندگی کو پیش نظر رکھ کربھی سوچتے ہیں۔

        اس کے بعد میں نے ان سے دریافت کیا کہ اگر آپ آرجے ڈی کی سربراہی والے عظیم اتحاد کو ترجیح دیتے ہیں، تو پھر اس امیدوار کے مسلمان ہونے پر اتنا اصرار کیوں ہے؟ان نوجوانوں میں سے کچھ کنہیاکمار کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لینے کی علانیہ دھمکی بھی دے رہے ہیں، اس کی ایک وجہ گجرات کے دلت لیڈر اور ممبر اسمبلی جگنیش میوانی کا کنہیا کمار کی کمپیننگ کے بعد سیوان میں مشہور باہوبلی لیڈراور گینگسٹر شہاب الدین کی بیوی حناشہاب کے خلاف سی پی آئی (ایم ایل) کے امیدوار کے لیے انتخابی تشہیر بھی ہے۔ حالاں کہ یہ تو اور بھی عجیب و غریب بات ہے، ایک گینگسٹر کی شناخت بہ طور گینگسٹر ہی کیوں نہیں ہونی چاہیے؟مسلمان ایسے لوگوں کوکیوں اپنائیں اور ان کی وجہ سے پوری مسلم کمیونٹی کی شبیہ کیوں مسخ ہو؟مگر ان نوجوانوں نے اس قسم کے تمام سوالوں کو نظر انداز کردیا۔

        کچھ دوسرے مسلمان بھی اسی قسم کے ہیں، جو بائیں بازوکی سیاسی جماعتوں کواس معنی میں مسلمانوں کے لیے زیادہ خطرناک سمجھتے ہیں کہ انھوں نے مختلف دستوری اداروں اور اختیارات کے پروسیس میں مسلمانوں کی مناسب حصے داری کم کردی۔ یہ لوگ اس سلسلے میں سچر کمیٹی کی رپورٹ کے حوالے سے مغربی بنگال کے مسلمانوں کی صورتِ حال اور بااختیار اداروں میں مسلمانوں کی نہایت معمولی شراکت کی بات کرنے میں حق بجانب بھی ہیں، ممتا بنرجی کی حکومت سے پہلے وہاں کے مسلمانوں کو بائیں بازو کی حکومتوں کے ذریعے اس قسم کی مشکلات کا سامنا رہاہے۔

        ایک سوال یہ بھی اٹھایاجارہاہے کہ مہاگٹھ بندھن کو آخر ایک مسلم امیدوار کی قیمت پرایک بھومیہار (کنہیاکمار)کو کیوں ترجیح دینی چاہیے تھی؟مگر یہ سوال اٹھانے والے دوحقائق کو نظر انداز کررہے ہیں۔ 1952سے اب تک زیادہ تر وہاں سے بھومیہار امیدوار ہی منتخب ہوتے رہے ہیں، صرف ایک بار 2009ء میں ایک مسلم امیدوار کو کامیابی ملی تھی اور وہ بھی این ڈی اے سے تھا۔ قابلِ توجہ بات یہ بھی ہے کہ ایسے مسلمان مدھوبنی، بتیا، سیتامڑھی، دربھنگہ اور شیوہر جیسے لوک سبھا حلقوں کو بھول جاتے ہیں، جہاں مسلم ووٹس کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے اور وہاں سے کئی بار مسلم ایم پی منتخب ہوئے ہیں، مگر اس کے باوجود اِس بار مہاگٹھ بندھن نے ان سیٹوں پر غیر مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیاہے۔ ان فرقہ پرست مسلمانوں کو ان مقامات پر مسلمانوں کا وجود خطرے میں نظر نہیں آتا۔ یہ لوگ اس امکان سے غافل ہیں کہ مسلمانوں کے اس رویے کی وجہ سے ہندوبھی صرف ہندووں کو منتخب کرنا چاہیں، تب کیاہوگا؟اسی طرح جب آپ پارلیمنٹ میں متناسب مسلم نمایندگی کی بات کرتے ہیں، توکیا اپنے ہم مذہب اَجلاف و اَرذال برادریوں کی سیاسی نمایندگی کا خیال آتا ہے؟

        دلچسپ بات یہ ہے کہ جب آرجے ڈی نے بیگوسرائے سے مسلم امیدوار کو نامزد کرنے کا فیصلہ کرلیا اور سی پی آئی کو عظیم اتحاد کا حصہ نہیں بنایا گیا، تواسی قسم کے ایک نوپید مسلم صحافی نے اپنی فیس بک پوسٹ میں لکھا کہ کنہیا کمار کو ضرور الیکشن لڑنا چاہیے؛تاکہ بی جے پی کے بدنامِ زمانہ، فتنہ پرور اور بدزبان لیڈر گری راج سنگھ کا(بھومیہار) ووٹ کٹے اور اس طرح آرجے ڈی کے مسلم امیدوار کی جیت پکی ہوجائے، مگر جب سے انھیں اور ان کے جیسے دوسرے لوگوں کو یہ احساس ہواہے کہ کنہیاکمار کو بھی مسلم ووٹ ملنے والاہے، تو وہ سوشل میڈیا پر اپنی ناراضگی و قنوطیت کا کھلے عام اظہار کرنے لگے ہیں، وہ اب ان تمام ’کم درجے کے ‘مسلمانوں کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں، جو کنہیاکمار کا سپورٹ کررہے ہیں۔

        سوشل میڈیامیں چلنے والی ان بحثوں نے ہمارے معاشرہ و سیاست میں پائے جانے والے طبقاتیت پر مبنی غیر منصفانہ نظام، روزبروز بڑھتی مذہبی منافرت، اکثریت پسندانہ جارحیت، اقلیتوں پر مظالم، باہم مسابقہ آرافرقہ پرستی اور دستوری اداروں میں مسلمانوں کی محدود تر نمایندگی وغیرہ جیسی خامیوں کو اجاگر کردیاہے۔ ہمارے ملک کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے یہاں موجود ان مذکورہ مسائل سے نپٹنے کے لیے مختلف شناختوں پرمبنی Chauvinistic سیاست کا سہار لیتے ہیں۔ حتی کہ بعض مخصوص قسم کی شناخت کی حامل معمولی نمایندگی کو اختیارات و سیاسی قوت کی بنیاد قرار دے دیاجاتا ہے، جس کے بارے میں یہ کہنے کی ضرورت بھی نہیں کہ نہایت معمولی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندستان آج تباہ کن اکثریت پسندانہ رجحانات سے دوچارہے۔

        یہ نہایت عجیب و غریب دور ہے، اس دور کے نوجوانوں کو ساٹھ اور ستر کی دہائی کی طرح آزادی پسند سیاست کے لیے کوئی ایسی لیڈرشپ رول ماڈل کے طورپر نہیں ملی، جو عوام کی شہری آزادی و زندگی کے بنیادی مسائل کے لیے سڑکوں پر عوامی احتجاج کے لیے اترے۔ حتی کہ بائیں محاذ کی سیاسی جماعتیں بھی حاشیے پر جا چکی ہیں، صرف بہار کے کچھ حصوں میں بائیں بازو کے انقلاب پسندوں میں زندگی کی کچھ رمق ہے۔ ماہر سماجیات پروفیسر آنند کمار اکثر کہتے ہیں کہ بائیں محاذ کا وجود ہندستانی سیاست میں ضروری ہے، البتہ یہ وجودبس کھانے میں نمک کی طرح ہو، جس کانہ ہونا اور ضرورت سے زیادہ ہونا دونوں نقصان دہ ہے۔

         ایسے سیناریومیں کنہیاکمارکی معنویت بڑھ جاتی ہے، جواعلیٰ ہندوبرادری کی ایک غریب کسان فیملی سے تعلق رکھتے ہیں، پہلے جواہرلعل نہرویونیورسٹی کے طالب علم ایکٹوسٹ کی حیثیت سے ملکی منظرنامے پرہویداہوئے اورجنھیں موجودہ انتہاپسندوجابر حکومت نے زیرکرنے کی کوششیں کیں، مگرکنہیانے بڑی بہادری سے اپنے آپ کوحکومت کے خلاف احتجاج کی علامت کے طورپرنمایاں کیا، انھوں نے ایسے عہدمیں طلباونوجوانوں کی مزاحمتی سیاست کی بازیافت میں اہم رول اداکیاہے، جب حکومتیں کارپوریٹ گھرانوں کے زیرِ اثرکام کرتیں اوران کے اشاروں پر ناچتی ہیں۔ میرے خیال میں کنہیاسے پہلے بھی جے این یو سے تعلق رکھنے والے بائیں بازوکے طلباایکٹوسٹس میں دانش وبینش، حکمتِ عملی اوربیان وخطاب کی خوبیوں کے اعتبار سے کئی اہم لوگ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر چندر شیکھرکنہیاسے کئی قدم آگے تھے، مگرچندوکو مارچ 1997میں سیوان میں شہاب الدین کے مبینہ شوٹرزنے خاموش کردیاتھا، ایسے بڑے لوگوں کے بالمقابل کنہیاکا امتیازیہ ہے کہ اس نے ایسے وقت میں صداے احتجاج بلندکی، جب ایک مغرورومتکبر حکومت کے سامنے احتجاج ومزاحمت کی آوازیں دب رہی تھیں، نوجوان صارفیت میں مست تھے اورکارپوریٹ گھرانوں کے زیرملکیت چلنے والے نیوزچینلز علانیہ طورپرانتہاپسندی میں مبتلاہوگئے اورجھوٹ وافواہ پھیلانے میں ان کاکردار خطرناک حدتک پہنچ گیاتھا، جب تعلیمی اداروں کی شناخت نہایت حقیر علامتوں سے کی جانے لگی اوردلت، مسلم وقبائلی طلبامداخلت کار ریاست کے مظالم کاشکارہونے لگے، جب پولیس وتفتیش کے محکمے خطرناک حدتک بے عقل حکمراں پارٹی کے سیاسی انتقام کے خادم بن گئے تھے۔

         ایسی ہولناک صورت حال میں کنہیاکمارمحدودسطح پرہی سہی مزاحمت کی علامت بن کر ابھراہے، بہت سے مسلم نوجوان بھی اسے اسی نظرسے دیکھ رہے ہیں۔ اس کے بالمقابل بیگوسرائے میں آرجے ڈی کے مسلم امیدوار کی معتبریت میرے علم کے مطابق نہایت معمولی ہے۔ وہ مسلمانوں کی لنچنگ اورماورائے عدالت قتل کے حادثات پربالکل خاموش تھے۔ ایم ایل سی ہونے کے باوجود ان کی کوئی قابلِ ذکرکارکردگی نظرنہیں آتی۔ اگرانھوں نے کوئی کام کیابھی ہوگا، توان کے حامیوں نے نہ توان کاپتالگایااورنہ ہی تشہیرکی ؛ لیکن فرقہ پرست مسلمان اس وقت غصہ ہونے لگتے ہیں جب ان کے بعض ہم مذہب مخصوص شناخت پرمبنی انتخابی سیاست کی ان کی ترجیحات کوچیلنج کرنے لگتے ہیں۔

        بلکہ حقیقت تویہ ہے کہ بھگوا بریگیڈ کے ذریعے واضح طوپرسسٹم کی پشتیبانی کے ساتھ مسلمانوں پر کی جانے والی زیادتیوں کے معاملوں میں تیجسوی یادونے بھی بڑی تاخیرسے اورمبہم اندازمیں زبان کھولی۔ بہارمیں کانگریس اورآرجے ڈی کے دوسرے قدآورلیڈروں کاکرداربھی اچھانہیں رہا، یہی حال یوپی میں اکھلیش، مایاوتی اوران کے مسلم لیڈروں کابھی تھا۔ کنہیاکی طرح کسی بھی سیکولرپارٹی کے لیڈروں نے مسلمانوں پر کی جانے والی زیادتیوں کے خلاف سڑکوں پراترکراحتجاج نہیں کیا۔

         مخصوص شناخت پرمبنی دائیں بازوکی سیاست جس میں عوام کوبنیادی ایشوزنہیں اٹھانے دیے جاتے اورنہ رائے دہندگان کواپنے سیاسی نمایندوں کی کارکردگی دریافت کرنے کی اجازت دی جاتی ہے، اس میں پولرائزڈہندواورمسلم دونوں طبقات کے مابین نسبتاًاضافہ ہواہے۔ حدتویہ ہے کہ اب سماجی انصاف کی سیاست بھی بعض اکثریتی طبقات کے تسلط میں ہے، خوفناک اکثریت پسندی نے انھیں اپنے سپورٹ بیس کوداؤپرلگانے پرمجبورکردیاہے؛بلکہ حقیقت تویہ ہے کہ اسے نہایت معمولی ووٹرزکے روپ میں دیکھاجاتاہے، غنڈے قسم کے لوگ لوکل باڈیزکے الیکشن میں منتخب ہوتے ہیں، وہی آیندہ چل کر ایم پی، ایم ایل اے بنتے ہیں اوروہی لوگ نفرت انگیز بھاشن دے کر سماج میں زہر گھولتے ہیں۔ لوگوں کے عام سماجی ومعاشی ایشوزپرپرتوجہ دینے کی بجاے  ایوانِ بالاتک پہنچنے کایہ نسبتاًآسان راستہ ہوتاہے۔

        بہرکیف مختلف طبقات کی جانب سے کنہیاکمار کی حمایت کی آوازیں اٹھ رہی ہیں، جو دراصل عوامی سطح پرمختلف شناختوں پر مبنی نفرت انگیز اور سماج میں پھوٹ ڈالنے والی سیاست کے خلاف آزادی پسند سیاست کی بازیافت، اسے مضبوط کرنے اوراس کے خلاف سڑکوں پر عوامی احتجاج کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ یاس اورناامیدی کے اس عہد میں ضروری ہے کہ ملک کے رائے دہندگان یہ ثابت کریں کہ امید کی ایسی کرنیں موجودہیں، جو ملک کوآزادی و خود مختاری کے راستوں پر گامزن کرسکتی ہیں۔ ہر سیٹ پر کوئی قابلِ اعتماد متبادل موجود نہیں ہے، مگر بیگوسرائے کے ہندووں اور مسلمانوں کے پاس موقع ہے کہ وہ مخصوص شناختوں پر مبنی سیاست کے خلاف کھڑے ہوں اور ہندستان سمیت پوری دنیا کو ایک امید بھرامثبت پیغام دیں۔ جہاں تک شناخت کے عدمِ تحفظ کے احساس میں مبتلا مسلمانوں کی بات ہے، تو انھیں خاموش و لاپروا نمایندے کی بجاے کنہیاکمارکی شکل میں ایک جری، حوصلہ مند اور بے باک نمایندہ ملے گا۔ اب یہ بیگو سرائے کے مسلمان فیصلہ کریں کہ انھیں کیا چاہیے؟مسلم سیاست کی تشریحِ نو (Re-Definition)ہونی چاہیے، اسے اقلیت ازم سے اوپر اٹھنا ہوگا۔ مسلمان اور ہندوسیاسی لیڈروں کو اس حقیقت کا احساس دلانا ضروری ہے کہ لیڈربننے کے لیے بلاکسی تفریق کے عوام کے اصل اور زمینی مسائل و مشکلات پر فوکس کرناہوگا، محض پھوٹ ڈالنے والی سیاست کرکے لیڈربننے کی راہ کو روکنا ضروری ہے۔

        اگر بیگوسرائے کے ہندواور مسلمان نفرت انگیز سیاست کو مسترد کرکے کنہیاکمار کی کامیابی کو یقینی بنائیں، تویہ ہندستانی جمہوریت کے لیے بھی فالِ نیک ہوگا، اس سے بہار و ہندستان کے دوسرے خطوں کو ایک سبق ملے گا اور بیگو سرائے ان کے لیے قابلِ تقلید ثابت ہوگا؛لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاواقعتاًایسا ہوپائے گا؟اور اسی سوال کے (مثبت یا منفی )جواب پر ہندستان کا تہذیبی وجود، مشترکہ کلچراور قومی یکجہتی و ہم آہنگی کا مستقبل منحصر ہے۔

(نوٹ: یہ مکمل مضمون کا ترجمہ ہے، اس کی تلخیص3؍اپریل کو دی اکانومک ٹائمس میں شائع ہوچکی ہے)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


2 تبصرے
  1. mir afsar aman کہتے ہیں

    کننیا کمار زندہ باد۔ یہ مسلمانوں کے دکھ درد پانٹنے کی کوشش کرتا ہے

  2. mir afsar aman کہتے ہیں

    کننیا کمار زندہ باد۔ یہ مسلمانوں کے دکھ درد پانٹنے کی کوشش کرتا ہے
    mir afsr aman islamabad

تبصرے بند ہیں۔