کیا گھر کو گھر کے چراغ سے ہی آگ لگے گی؟
حفیظ نعمانی
اسیر زنداں مختار انصاری کی کہی جانے والی پارٹی قومی ایکتا دل 21 ؍ جون کو سماج وادی پارٹی میں ضم ہوچکی تھی۔ یہ انضمام ملائم سنگھ کے چھوٹے بھائی شیو پال سنگھ یادو اترپردیش کے ایک وزیر کی کوششوں سے ہوا تھالیکن اچانک معلوم ہوا کہ وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو سے اس سلسلہ میں کوئی مشورہ نہیںہوا تھا۔ ان کے علم میں جب یہ خبر آئی تو انھوں نے جس غصہ کا مظاہرہ کیا اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا، وزیر اعلیٰ نے پہلے تو ان منسٹر صاحب کو برخاست کیا جو ان کے چچا کے ساتھ اس میں شریک تھے۔ اس کے بعد انھوں نے ا پنے چچا کو بھی دکھایا کہ اقتدار کے لیے باپ بیٹوں کی جنگ اور بھائی بھائی کے ہاتھوں قتل صرف مغل دور کی بات ہی نہیںاب بھی اقتدار ایسی ہی چیز ہے کہ بھتیجا چچا کو سر عام بے عزت کردے۔ وزیر اعلیٰ نے چچا کے پاس جتنے اہم محکمے تھے وہ سب لے لیے اور ماہی پروری جیسا ایک نام کا محکمہ انھیں تھما کر کہا کہ لو چچا تم بس اس قابل ہو۔
جس وقت دونوں پارٹیوں میں رشتہ ہورہا تھا اس وقت بھی شیو پال نے کہا تھا کہ یہ صرف میری مرضی سے نہیں ہوا ہے بلکہ نیتاجی یعنی ملائم سنگھ جو پارٹی کے ڈائرکٹر ہیں ، ان کی مرضی بھی اس میں شامل ہے لیکن اکھلیش یادو کسی طرح نہیں مانے ا ور 28 جون کو پارلیمنٹری بورڈ کے صدر کی حیثیت سے انھوں نے اس فیصلہ کو منسوخ کردیا، جس کے بعد افضال انصاری نے وہ سب کہا جو کہنا چاہیے تھا۔ انھوں نے برسرعام ملائم سنگھ کو دھوکہ باز تک کہہ دیا کہ انھوں نے راجیہ سبھا اور کائونسلر کے الیکشن میں ہم سے پورا تعاون یہ کہہ کر لیا تھا کہ 2017ء کا الیکشن ہم مل کر لڑیں گے اور اب انھوں نے نہ صرف ہمیں دھوکہ دیا بلکہ گھر پر بلا کر ذلیل بھی کیا۔
اسی زمانہ میں ہمارے قلم سے نکلا تھا کہ وزیر اعلیٰ اکھلیش بابو ملائم سنگھ کی پہلی بیوی کے بیٹے ہیں، اب دوسری بیوی کے بیٹے بھی بڑے ہوگئے ہیں اور ملائم سنگھ کو ان کے بارے میں زیادہ فکر مندہوناقدرتی بات ہے، اسی زمانہ میں جب شیو پال کے حمایتی اور اکھلیش یادو کے حمایتی ننگی تلواروں کے ساتھ آمنے سامنے آئے تھے تو کس کی زبان سے نکلا تھا کہ اکھلیش یادو کے چھوٹے بھائی بھی اپنے چچا کے حمایتیوں میں ہیں اور اس وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ اگر ترازو ملائم سنگھ کے ہاتھ میں ہے تو وہ اپنے چھوٹے بیٹے کی وجہ سے بھائی کی طرف جھک جائے گا۔ ملائم سنگھ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ پرانے کھلاڑی ہیں، انھوں نے پورے مقدمہ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اکھلیش سے بھی کہلوالیا کہ سب کچھ آپ ہیں۔ اس کے بعد انھوںنے پارٹی کی صوبائی صدارت اکھلیش سے لے لی اور بھائی کو دے دی اور ہر دن ایک ایسا فیصلہ شیو پال سے کرایاجس کی چوٹ وزیر اعلیٰ پر پڑتی رہی اور ۶ ؍ اکتوبر کو وہ فیصلہ کرادیا جس کے بعد غصہ سے اکھلیش پاگل ہوگئے تھے۔ اکھلیش یادو نے اس رشتہ کی مخالفت میں اپنے نزدیک جو سب سے مضبوط دلیل دی تھی وہ یہ تھی کہ پارٹی اپنی حکومت کے کاموں کے بل پر جیتے گی لیکن وہ یہ بھول گئے کہ اگر حکومت کے بل پر پارٹی جیتی تو ملائم سنگھ کی حیثیت کیا رہ جائے گی جو یہ دکھانا چاہ رہے ہیں کہ پارٹی کو انھوں نے جتایا اور اکھلیش کو انھوں نے وزیر اعلیٰ بنادیا۔ اکھلیش بابو ابھی بہت چھوٹے ہیںوہ اسے اہم سمجھ رہے ہیں کہ ایس پی دوبارہ جیتی تو اپنی حکومت کے کاموں سے جیتی، اگر ایسا ہوجائے تو پھر اس میں ملائم سنگھ یا شیو پال کا کیا کمال ہوا۔ پھر تو حکومت بھی اکھلیش کی ہوگی اور پارٹی بھی اکھلیش کی ہوگی۔ یہ بات ملائم سنگھ تو برداشت کرسکتے ہیں لیکن ان کی چھوٹی ممّی اور چھوٹا بھائی برداشت کرسکتے ہیں؟ وہ تو یہ آواز سننا چاہتے ہیں کہ ملائم سنگھ کی وجہ سے شیو پال کی وجہ سے اور قومی ایکتا دل کی وجہ سے سماج وادی پارٹی دوبارہ ا قتدار میں آئی۔
ہم جیسے لکھنے والوں کے پاس تجزیہ، تجربہ اور مشاہدہ ہوتا ہے۔ مشاہدہ تو پروردگار نے ہم سے لے لیا۔ اب ان کے مشاہدے ہمارا سرمایہ ہیں جو محبت میں ملنے آجاتے ہیں اور اپنی دیکھی سنی بتا جاتے ہیں۔ تجزیہ کرنے کے لیے وقت چاہیے جو بہت ہے اور اور تجربہ وہ ذخیرہ ہے جس کا مظاہرہ ہر تحریرمیں ہوجاتا ہے۔ان کی بدولت یہ تو نہیں کہا جاسکتا ہے کہ سماج وادی لوٹ کر آرہی ہے لیکن یہ ضرور محسوس ہورہا ہے کہ ساڑھے چار سال کے بعد جو حالت ملائم سنگھ کی 2007ء میں نظر آرہی تھی اس کے مقابلہ میں بہت بہتر ہے۔ اس کے باوجود بہتر ہے کہ مرکزی حکومت صرف مخالف پارٹی کی نہیں ہے بلکہ وہ پوری طاقت سے مقابلہ بھی کرے گی اور صرف وہی مقابلہ نہیں کرے گی بلکہ مرکز کی سابق مرکزی حکومت بھی نئے ہتھیاروں کے ساتھ میدان میں آرہی ہے اور وہ جو چار مرتبہ حکومت بنا چکی ہے اس نے بھی کمزور ہونے کے باوجو زبردست ٹکر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ قومی ایکتا دل سماجوادی پارٹی کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف ملائم سنگھ شیو پال اور وزیر اعلیٰ کے چھوٹے بھائی کی ضرورت ہے اورقومی ایکتادل کو حکومت کی مدد کی ضرورت ہے۔ اس لیے افضال انصاری صاحب نے اتنی ذلت کے بعد دوبارہ بغیر کسی معذرتی تجویز کے پھر انضمام کے دستاویز پر دستخط کردئے اور یہ بھی نہیں کہا کہ اکھلیش یادو کو بھی اسی طور پر شریک ہونا چاہیے۔
ہم نے ابتک اسی لیے انتظار کیا کہ شاید پھر کوئی دھوکہ ہو۔ لیکن شاید وزیر اعلیٰ نے بھی اس نزاکت کو سمجھ لیا ہے اور خاموشی اختیار کرکے اس لیے اچھا کیا کہ یہ بات نہ پارٹی کے حق میں بہتر ہے اور نہ حکومت کے حق میں کہ یادو پریوار میں اتنی بدمزگی ہوجانے کے بعد دوبارہ پھر انضمام دونوں کو کوئی فائدہ پہنچا سکے گا۔جس گھر سے ایک بار بے عزت ہو کر بارات واپس آنے بعد دوبارہ اسی گھر میں جانا عزت کی نہیں مجبوری کی بات ہے، اور مجبوری بہرحال مجبوری ہوتی ہے۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔