کیا یوپی ہندوتوا کی دوسری تجربہ گاہ بننے جارہا ہے

ندیم عبد القدیر 

شرا ب جتنی پرانی ہوتی ہے اس کا نشہ اتنا گہرا ہوتا ہے ۔ آر ایس ایس کے میکدہ میں وطن پرستی کی مے 90 ؍سال سے کشید کی جارہی ہے ا ور 90؍سال بعد اس میں بلا کا نشہ آگیا ہے ۔ اس کی تاثیر نے سارے ملک کومیکدہ بنا کر رکھ دیاہے ۔رندوں کی فوج کے فوج تیار ہورہی ہے جو حب الوطنی کے نشے میں انسانیت اور حیوانیت، اخلاق اور بداخلاقی ،تہذیب اورجاہلیت میں تمیز کرنے سے قاصر ہے ۔ انہیں ہر شئےتیرتی ہوئی یا اپنے حجم سے کئی کئی گنا بڑی دکھائی دےرہی ہے ۔

وقت کی صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں۔ یوپی میں بی جےپی کی حکومت نے بھکتوں کو مسرت کی ان وادیوں میں پہنچادیا جن کا انہوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا ۔یہ بھکت بی جےپی کی فتح کےخمار میں سرشار ہیں، طاقت کے نشہ میںغرق ہیں،یہ نشہ انہیں کسی اور جہان کی سیر کرا رہا ہے ۔ وہ کبھی اپنے آپ کو ہوا کے دوش پر سوار اڑتے ہوئے تصور کرتے ہیں اورکبھی گمان کرتے ہیں کہ ہر شئے ان کی تابعداری میں ہے ۔ اتنی بڑی کامیابی کے بعد ان کے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔

ویسے تو وطن عزیز میں آر ایس ایس کبھی بھی ناتواں نہیں رہا ہے ۔ خواہ حکومت کسی کی بھی ہو، وہ کانگریس ہو، سماج وادی پارٹی ہویا کوئی اور، لیکن بی جےپی کے مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہونےسے شادمانی کی نئی گدگدی ہورہی ہے اور طاقت کی نمائش کی نئی کھجلاہٹ پریشان کررہی ہے ۔سنگھ پریوار سے زیادہ اس کے ورکروں کو اپنے جذبات کو مغلوب رکھنا مشکل ہورہا ہے ۔ ہندوتوا کی شدت پسندی کا جو زہر آر ایس ایس کی شاکھاؤں میں ایک عام ہندو کے دل و دماغ میں کاشت کیا جارہا تھا اس کا کچھ تو اثر پڑنا فطری امر ہے ۔ ایک عام سیوئم سیوک کو آج تک یہی بتایا گیا کہ مسلمان ملک کے غدار ہیں۔ یہ ملک اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک مسلمان یہاں موجود ہیں۔ آپ کی ترقی کی راہ میں مسلمانوں کا وجود ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ دھیرے دھیرے یہ بات اس کے لاشعور کا بھی حصہ بن گئی ۔

آر ایس ایس نے یہ بات بھی پڑھائی کہ بی جے پی کی حکومت آتے ہی سب سے پہلے مسلمانوں کا ہی قلعہ قمع کیا جائے گا ۔2014ء میںمرکز میں مودی کی حکومت میں آنے کے بعد یہ خواب سچا نظر آنے لگا اوریوپی میں یکطرفہ فتح نے تو مسلم دشمنی کے جذبات کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اب انہیں یوپی میں ہندوتوا کی دوسری تجربہ گاہ نظر آنے لگی ہیں۔ ریاست اتر پردیش ہندوتوا کی تجربہ گاہ بننے کے بالکل مناسب دور میں داخل ہوچکی ہے ۔ چھوٹے موٹے تجربے بھی شروع ہوگئے ہیں۔ ان میں اہم تجربے بریلی ، دیوبند اور بلندشہر میں ہوئے ہیں۔

بریلی کے ایک گاؤں ’جیاناگلا‘ میں پوسٹر لگا کر مسلمانوں کو دھمکی دی گئی کہ وہ اس علاقہ کو 31؍دسمبر تک خالی کردیں۔ اس پوسٹر میں یہ بھی کہا گیا کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ وہی کریں گے جو امریکہ میں ٹرمپ نے مسلمانوں کے ساتھ کیا ہے ۔ پوسٹر کے عنوان میں ہی ’جے شری رام ‘ لکھا ہے اور نیچے بی جےپی رکن پارلیمنٹ یوگی آدتیہ ناتھ کا نام دیا گیا ہے ۔ اس گاؤں میں کل 2500؍مکانات ہیں جن میں صرف 200؍مکانات مسلمانوں کےہیں۔
یوگی آدتیہ ناتھ نے اب تک اس تعلق سے کوئی صفائی نہیں دی ہے ۔ انہوں نے یہ بھی نہیں کہا کہ یہ ان کا کام ہے یا نہیں ہے ۔ نہ ہی پولس نے اب تک اس بارے میں یوگی آدتیہ ناتھ سے کسی بھی قسم کی کوئی پوچھ گچھ کی ہے ۔

پولس نے اس معاملے میں چند لوگوں کو گرفتار تو کیا لیکن اس کے آگے کیا ہوا اس بارے میں اب تک پولس نے نہیں بتایا ہے ۔
2500؍ہندوؤں کے مکانات میں گھرے ہوئے 200؍مسلم خاندان ۔اس گاؤں کے مسلمانوں پر کیا گزر رہی ہوگی اس کا ادراک ایک عام آدمی بھی کرسکتا ہے ۔ عدم تحفظ اور بے یقینی کی کونسی کے ماحول میں جی رہے ہونگے؟ ڈر اور خوف کے کس دائرے میں قید ہونگے؟

ہمارے قومی میڈیا نے یہاں بھی دورخی رویہ اپنایا اور آسام میںصرف ایک میوزیکل پروگرام کے انعقاد کے خلاف تقسیم کئے جانے والے پمفلٹ پر واویلہ مچانے والے میڈیا کو 200؍مسلم خاندان کو گاؤں سے نکل جانے کی دھمکی دینے والے پوسٹر میں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی کہ وہ اپنے’ کوئے پرائم ٹائم ‘میں اس معاملہ پر محفل سجاتے۔

ناہید آفرین کی حمایت میں جہاں سارا ملک آگے آگیا تھا وہیں ان 200؍ مسلم خاندان کی حمایت میں کوئی بھی نہیں آیا حتی کہ مسلم لیڈران بھی نہیں ۔ ذرا ذرا سی بات پر حقوق انسانی کی بات کرنے والے انسانیت دوست افراد کی بھی انسانی غیر ت نہیں جاگی۔ٹویٹر پر بھی کوئی ارتعاش برپا نہیں ہوا۔ہمارا ملک صرف ’فتوے‘ کے لفظ سے ہی جاگتا ہے ۔

’جیاناگلا‘  گاؤں میں پوسٹر کا نمایاں ہونا مسلمانوں کے مکانات پر قبضہ کرنے کی سازش بھی ہوسکتی ہے ۔ مسلمانوں کی ملکیت پر قبضہ کرکے انہیں بے گھر کرنے کا یہ بہت ہی آسان اور آزمودہ نسخہ ہےنیز ہندوتوا کی تجربہ گاہ میں یہ ضروری بھی ہے۔ ایسے منصوبوں کے بارے میں میں وشو ہندو پریشد کے سکریٹری پروین توگڑیا کا بھی ایک ویڈیو منظر عام پر آیا تھا جس میں پروین توگڑیا وی ایچ پی کے کارکنوں کو درس دے رہے تھےکہ مسلمانوں کو ان کے گھروں سے کس طرح بے گھر کرکے ان کے مکانات پر قبضہ کیا جانا چاہئے۔

 پوراایک سوچا سمجھا منصوبہ ہوتاہے ۔ پہلے مسلمانوں کو ڈراؤ، دھمکاؤ۔ ڈرانے کےلئے مختلف طریقے ہیں۔یہ کام اتنا کرو کہ مسلمانوں کو اپنی جان ، عزت اور مال کے تعلق سے خطرہ محسوس ہونے لگے،اور وہ اپنے مکانات چھوڑ کریہ سوچ کر چلے جائیں کہ کچھ دنوں بعد وہ واپس آجائیں گے، لیکن ایک بار وہ مکان چھوڑ کر جائیں تو ان کے گھر کا سارا سامان لوٹ لو اور ان کے مکان پر قبضہ کرکے کسی بھی ہندو تنظیم کا بینر لگادو۔ ہندو تنظیم کا بینر دیکھ کر پولس بھی کوئی بھی اقدام کرنے سے گھبرائے گی ، کیونکہ ہندو لیڈران ، مسلم لیڈران کی طرح بحران کے وقت اپنے گھر پر نہیں پڑے رہتے ہیںبلکہ میدان ِ عمل میں آجاتےہیں۔اس کے بعد معاملہ عدالت میں جاتاہے اور پھر وہیں کا ہوکر رہ جاتا ہے ۔

بریلی کے گاؤں میں مسلمانوں کو دھمکانے والے پوسٹر وں کا منظر عام پر آنا بھی ایسی ہی سازش کا حصہ ہوسکتا ہے ۔ یہاں کے بھی مسلمان ایک نرم چارہ ثابت ہوجائیں گے ،کیونکہ ان کی حوصلہ افزائی کیلئے کوئی بھی ان کے ساتھ کھڑا نہیںہوگا ۔ ہمارے لیڈران کو صرف مسلمانوں کےووٹ چاہئیں۔ ان کی تکالیف سے لیڈران کوکوئی سروکار نہیں ہوتا ہے ۔ وہ پارٹی کے رہنما خطوط کی پاسداری میں زیادہ ایماندار ہوتے ہیں۔

ہندوتواکی تجربہ گاہ کا دوسرا تجربہ دیوبند میں ہوا۔ دیوبند شہر کا نام تبدیل کرنے کی کوششوں میں تیزی آگئی ہے ۔دیوبند سے بی جےپی کے ایم ایل اے کنور برجیش سنگھ نے اپنی انتخابی مہم میں بھی دیوبند کے نام کو بدل کر ’دیوورند‘ رکھنے کا وعدہ کیا تھا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ ان کے ایم ایل بنتے ہی ان کی سب سے پہلی تجویز دیوبند کا نام بدل کر ’دیو ورند‘ رکھنے کی ہی ہوگی۔ دیوبند شہر ساری دنیا میں دارالعلوم دیوبند کے سبب ایک اعلیٰ مقام رکھتا ہے لیکن برجیش سنگھ کا کہنا ہے کہ ’دیو ورند‘ کا ذکر مہابھارت میں ہوا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ دیوبند میں اکثریت مسلمانوں کی ہے ۔ اس تعلق سے بھی مسلم لیڈران اپنے پسندیدہ مشغلہ یعنی ’غفلت کی نیند‘ میں ہیں۔ دیوبند کا نام بدلنے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے ۔

ہندوتوا کا تیسرا تجربہ بلند شہر میں ہوا جہاں ایک مسجد پر بی جے پی کا جھنڈا لہرانے کی کوشش کی گئی ۔ حالات فی الحال قابو میں ہیں لیکن تجربہ کامیاب رہا اورحالات یہاں کشیدہ ہیں۔ ابھی ایسے مزید تجربے ہوتے رہیں گے۔ مسلمانوں کو انتہائی ہوشیاری اورچالاکی سے کام لینا ہے ۔ چھوٹی موٹی دھاندلیوں ، غنڈہ گردی کو نظر انداز کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ۔ حکومت ان کی ہے ، پولس ان کی ہے ، قانون ان کا ہے ، عدالت ان کی ہے ، فوج ان کی ہے ۔ہم مسلمان رعایا ہیں، اس لئے رعایا بن کر ہی رہیں۔ کسی کے جذباتی بہکاوے میں آنے سے بچیںکیونکہ شرا ب جتنی پرانی ہوتی ہے اس کا نشہ اتنا گہرا ہوتا ہے ۔ آر ایس ایس کے میکدہ میں وطن پرستی کی مے 90 ؍سال سے کشید کی جارہی ہے ا ور 90؍سال بعد اس میں بلا کا نشہ آگیا ہے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔