ہندستان میں عدم رواداری اور شدت پسندی کا بڑھتا ہوا رُجحان

عبدالعزیز

            آر ایس ایس کا جنم 1928ء میں ہوا۔ اس تنظیم کا خاص مقصد ہندو اور مسلمانوں میں منافرت اور کدورت پیدا کرنا تھا۔ آر ایس ایس کی سیاسی تنظیم جن سنگھ کے نام سے عالم وجود میں آئی تھی۔ کانگریس کی مخالفت میں جب تقریباً ساری سیاسی تنظیمیں ایمرجنسی کے بعد جنتا پارٹی کے نام سے اکٹھا ہوگئیں تو اس میں جن سنگھ کو بھی شامل کرلیا گیا جس کی وجہ سے جن سنگھ کو ہاتھ پاؤں پھیلانے میں کافی مدد ملی۔ جب جنتا پارٹی کئی حصوں میں تقسیم ہوگئی تو جن سنگھ کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے نام سے ایسا کیا گیا۔ آر ایس ایس یا جن سنگھ کے لوگ ہر چھوٹی بڑی تنظیموں میں شامل تھے۔ کانگریس کے اندر بھی ایک بڑی تعداد آر ایس ایس والوں کی ہمیشہ شامل رہی۔ جب نرسمہا راؤ ملک کے وزیر اعظم ہوئے تو آر ایس ایس کو پھر پھلنے پھولنے کا موقع مل گیا کیونکہ نرسمہا راؤ آر ایس ایس کی ذہنیت رکھتے تھے۔ جس طرح آر ایس ایس کا منصوبہ تھا کہ بابری مسجد کی عمارت کو ڈھا دیا جائے۔ ٹھیک یہی منصوبہ نرسمہا راؤ کا تھا۔ مسٹر راؤ اگر چہ کانگریس کے وزیر اعظم تھے مگر حقیقت میں وہ بی جے پی کے پہلے وزیر اعظم ثابت ہوئے جنھوں نے بابری مسجد کو گرانے میں آر ایس ایس کی پوری مدد کی۔ اس طرح تقسیم ہند اور گاندھی جی کا قتل کے بعد ہندستان کا تیسرا بڑا سانحہ تھا جس سے آر ایس ایس فسادات کرانے میں کامیاب ہوئی۔ کانگریس کی حکومت کبھی بھی فسادیوں کو سزا دلانے کی کوشش نہیں کی جس کی وجہ سے منافرت اور عدم رواداری کا رجحان بڑھتا رہا۔

            اٹل بہاری باجپئی کی حکومت بی جے پی کی حکومت ضرور تھی مگر مخلوط حکومت تھی اور کمزور تھی جس کی وجہ سے باجپائی کے پنجسالہ دور میں آر ایس ایس کو اپنا ایجنڈا پورا کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن جب سے نریندر مودی کی حکومت ہوئی آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں کچھ زیادہ ہی سرگرم عمل ہوگئی ہیں۔ آر ایس ایس اپنے ایجنڈے کو نافذ کرنے کیلئے سارا زور لگا دیا ہے۔ سوریہ نمسکار، یوگا، لوجہاد، گھر واپسی جیسے عنوانات کے ساتھ منافرت بڑے پیمانے پر پھیلانا شروع کیا پھر گائے کے ذبیحہ پر پابندی اور اس کے لانے لے جانے پر رکاوٹ اور پابندی شروع ہوئی۔ ان تمام بیہودہ حرکتوں اور کارروائیوں سے پورے ملک کا ماحول خوف و دہشت کے ماحول میں تبدیل ہوگیا۔

            ہندستانی حکومت کی جانب سے چہرہ پر پردہ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن عالمی برادری اور خصوصاً بین الاقوامی شہرت رکھنے والے دانشوروں نے بھی ہندستان کو شدت پسندی اور عدم رواداری کا گڑھ قرار دیا ہے۔ ویب سائٹ العربیہ کی رپورٹ کے مطابق مصنّفین کے عالمی گروپ میں انٹرنیشنل نے حال ہی میں ایک سروے کیا ہے جس میں مصنّفین، وکلاء، سماجی کارکنان، صحافیوں اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے دانشوروں نے ہندستان کے بگڑتے ہوئے سماجی اور سیاسی حالات کے متعلق گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ سروے کی رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی دانشوروں کی بھاری اکثریت کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے دور میں ہندستان میں عدم رواداری اور اقلیتوں خصوصاً مسلم اقلیت کے استحصال کا مسئلہ شدت پکڑ گیا ہے۔

            ملک کی صورت حال کا جو لوگ باہر سے جائزہ لے رہے ہیں حقیقت میں اس سے بھی زیادہ خراب صورت حال دن بہ دن ہوتی جارہی ہے۔ جو لوگ لاقانونیت، نفرت اور کدورت پھیلا رہے ہیں ان کو مرکزی یا ریاستی حکومتیں گرفتار کرنے یا سزا دلانے کے بجائے حوصلہ افزائی کررہی ہیں۔ اس میں حکمراں جماعت کے وزراء، ایم پی، ایم ایل اے اور لیڈران کی بڑی تعداد شامل ہے۔ دیکھا جائے تو جو لوگ حکمراں جماعت سے جڑے ہوئے ہیں وہ ملک کو بد امنی اور خلفشار کی طرف تیزی سے دھکیل رہے ہیں اور ملک میں خانہ جنگی کا پورا ماحول تیار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

            اگر ملک کے اندر خلفشار بڑھتا گیا اور منافرت اور شدت پسندی میں جس طرح تیزی پیدا ہورہی ہے اس پر قانونی طور پر بریک لگانے کی کوشش نہیں کی گئی تو ملک کو تباہی اور بربادی سے کوئی طاقت بچا نہیں سکتی۔ ملک میں جو تنظیمیں امن، انسانیت اور انصاف کی بحالی کی کوششیں کر رہی ہیں۔ ان کی قوتِ کارکردگی بگاڑ پیدا کرنے والوں کے مقابلے میں کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ یہ ملک کیلئے خطرہ کی سب سے بڑی علامت ہے جو باہر کے خطرہ سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ ضرورت ہے سماجی، سیاسی اور ہر طرح کی فلاحی اور رفاہی تنظیمیں متحد اور منظم ہوکر شدت پسندی اور عدم رواداری کے خلاف پوری قوت کے ساتھ مہم چلائیں جب ہی شرپسندوں کے شر اور ظالموں کے ظلم میں کچھ کمی واقع ہوسکتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔