ہوا سے لڑائی ایودھیا پر چڑھائی

حفیظ نعمانی

رام مندر کے نام پر ایودھیا میں 25 نومبر کو دھرم سبھا میں لاکھوں ہندوؤں کو بلاکر کس کو دھمکانا اور کس پر دباؤ ڈباؤ ڈالنا ہے یہ تو حکومت جانے۔ ہم تو صرف یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ملک میں ہندوؤں کی حکومت ہے اور ہندو بھی وہ ہیں جو اپنی مسلم دشمنی کو ملک کے ہر حصہ میں دکھاتے ہوئے حکومت کی کرسی تک آئے ہیں تو پھر وہ رام مندر کا مطالبہ کس سے کرنے کے لئے آرہے ہیں؟ بات بی جے پی کی ہو، وشوہندو پریشد کی ہو، آر ایس ایس کی ہو یا شیوسینا کی سب صرف رام مندر رام مندر کی بات کرتے ہیں جبکہ اصل مسئلہ زمین کے اس ٹکڑے کا ہے جس پر سیکڑوں برس سے ایک مسجد بنی ہوئی تھی اور 1992 ء تک کھڑی تھی۔ اب نہ اس پر مسجد ہے نہ مندر۔ ہندوستان کے مسلمانوں میں سب جانتے ہیں کہ اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ اس زمین پر مسجد بنالیں یا مندر نہ بننے دیں اور یہ بات بھی ہر ہندو کو معلوم ہے کہ ملک کے آزاد ہونے کے صرف دو سال کے بعد وہ مسجد مسلمانوں سے لے لی گئی تھی اور اس میں سرکاری تالا ڈال دیا گیا تھا۔ یہ کام کرنے والے بھی ہندو تھے۔ یہ کام مسلمانوں کا نہیں ہے جو یہ بتائیں کہ وہ کیسے ہندو تھے جنہوں نے اس مسجد میں آدھی رات کو مورتیاں رکھ دیں اور وہ کیسے ہندو تھے جنہوں نے کہا کہ جس مندر سے لائے ہو اسی مندر میں رکھ دو، اور وہ کیسے ہندو تھے جنہوں نے کہہ دیا کہ اب وہ جہاں ہیں وہیں رہیں گی اور وہ کون سے ہندو تھے جنہوں نے تالا کھلوا دیا اور مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روک دیا اور ہندوؤں کو ان مورتیوں کی پوجا کرنے کی اجازت دے دی؟

اور ہم ان کو بھی صرف ہندو مانتے ہیں جنہوں نے وہ مسجد گرادی اور وہ بھی ہندو تھا جس نے کہا تھا کہ ہم وہیں مسجد بنواکر مسلمانوں کو دیں گے اور انہیں بھی ہندو ہی کہا جائے گا جو کہہ رہے ہیں کہ جو مسجد تھی وہ مندر کو گراکر بنائی گئی تھی۔ اب اختلاف صرف اس بات پر رہ گیا ہے کہ جو مسجد 06 دسمبر 1992 ء کو گرائی گئی تھی وہ مندر گراکر بنائی گئی تھی یا کسی کھنڈر پر بنی تھی یا زمین کا صاف ٹکڑا تھا۔ ہم تاریخ کے آدمی نہیں ہیں لیکن بابری مسجد کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ پہلے دن سے آج تک کا ہر واقعہ یاد ہے۔ خوب یاد ہے کہ جب مورتیاں رکھی گئیں تو یہ کہا گیا کہ یہ شری رام چندر کا جنم استھان ہے۔ اس زمانہ میں یہ تو سب مانتے تھے کہ رام چندر جی کے جنم کو لاکھوں برس ہوگئے ہیں۔ ہندوؤں میں ہی آنجہانی کروناندھی نے کہا تھا کہ ہمارے پوروجوں کو دنیا سے گئے ہوئے صرف ہزاروں برس ہوئے ہیں اور کسی کو نہیں معلوم کہ کس کا کہاں جنم ہوا اور کس کی کہاں سمادھی ہے ان ہندوؤں کو لاکھوں برس کی باتیں معلوم ہیں؟ بنگال کے وزیراعلیٰ نے کہا کہ رابندر ناتھ ٹیگور جی نے تو لکھا ہے کہ یہ ایک فرضی کہانی ہے جس سے برائی پر اچھائی کی فتح کا سبق دیا جاتا ہے۔ ہم مسلمانوں کو اس سے کچھ لینا دینا اس لئے نہیں کہ جو آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے اور قرآن عظیم سے پہلے اللہ کے نبی ؑ اور کتابیں آئیں ان سب کو یاد نہ کیا جائے بس آخری نبیؐ اور آخری کتاب کے ہر حکم کو مانا جائے۔

ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نے صرف وہاں مسجد دیکھی ہے اس لئے مسلمان مانتے ہیں کہ وہ زمین مسلمانوں کی ہے کیونکہ میرباقی سنی تھے یا شیعہ یہ ہر مسلمان کو معلوم ہے کہ کسی ایسی زمین پر مسجد نہیں بنائی جاسکتی جس کے مالک بنانے والے نہ ہوں۔ ہر مسلمان کو معلوم ہے کہ جب حضرت محمدؐ مدینہ شریف پہونچے تو جس زمین کے ٹکڑے پر مسجد بنانے کا ارادہ کیا وہ دو یتیم بچوں کی تھی ان کے سرپرستوں نے زمین مفت دینا چاہی حضور اکرمؐ نے اصرار کرکے مناسب قیمت ادا کی اس کے بعد مسجد بنائی۔ مسلمان کیسے یہ مان سکتے ہیں کہ میر باقی نے کسی مندر کو گراکر اس زمین میں مسجد بنالی اور یہ نہ سوچا کہ اگر بادشاہ بابر کو معلوم ہوگیا تو وہ گردن مار دیں گے۔ نیز مرنے کے بعد دوزخ میں جلوں گا۔ اس وجہ سے مسلمان خوبصورتی سے یہ مطالبہ کررہے ہیں اور حکومت نے اسے عدالت کے سپرد کردیا اب ہر مسلمان کہہ رہا ہے کہ اگر عدالت کہہ دے گی کہ مسجد سے پہلے مندر تھا تو ہم خاموشی سے گھر بیٹھ جائیں گے ہندو بھائی اس پر چاندی کا مندر بنائیں یا سونے کا اور اگر عدالت کہہ دے کہ مسجد مندر توڑکر نہیں بنائی گئی تو زمین مسلمانوں کی ہوگی وہ اس پر کچھ بنائیں یا نہ بنائیں۔

شیوسینا جیسی ذمہ دار پارٹی بھی کہہ رہی ہے اور آر ایس ایس کے بھیاجوشی بے قرار ہیں کہ مندر بن جائے۔ مسلمانوں کی طرف سے کسی نے عدالت سے نہیں کہا کہ آپ فیصلہ ٹال دیجئے وہ تو ہر وقت سننے کیلئے تیار ہیں بے قراری ہندو لیڈروں کی سمجھ میں نہیں آتی کہ قانون بناکر مندر بنا دو آرڈی نینس لاکر مندر بنا دو کیا ہندو دھرم اس کی اجازت دیتا ہے کہ جس مسجد کو گراکر چاہو مندر بنالو۔ کیا جس بھگوان کا مندر ناجائز زمین پر بنے گا وہ بھگوان یہ نہیں سوچیں گے کہ میرے ماننے والے کتنے نیچ ہیں کہ میرے لئے زمین بھی نہیں خرید سکے پرائی زمین پر مجھے بٹھا دیا۔

اور سمجھ میں نہ آنے والی بات یہ ہے کہ وزیراعظم اور حکومت تو دہلی میں ہے اور جب دہلی کی حکومت ہری جھنڈی دکھائے گی تو جو حکومت عمل کرے گی وہ لکھنؤ میں ہے تو پھر ایودھیا پر چڑھائی کس لئے ہورہی ہے؟ ہندوستانی مسلمانوں کے صبر کو تو ان تمام ہندوؤں نے جو ایودھیا پر چڑھائی کرنے آرہے ہیں اس وقت بھی دیکھ لیا تھا جب مسجد گرائی تھی اب اگر ارادہ یہ ہے کہ ہر آدمی ایک اینٹ رکھے گا اور مندر بن جائے گا تو مسلمان کہاں رکاوٹ بن رہے ہیں پھر ان مٹھی بھر مسلمانوں کو دہشت زدہ کرکے کیا حاصل ہوگا؟ چڑھائی دہلی پر کرنا چاہئے اور جو کچھ کہنا ہے نریندر مودی سے کہنا چاہئے۔ اگر زمین پر جبراً قبضہ کرلیا جائے گا تب بھی مسلمان کیا کرلیں گے اور عدالت کے فیصلہ کے بعد اس کے خلاف کریں گے تو مسلمان کیا کرلیں گے اس کا جواب تو یوگی آدتیہ ناتھ کو دینا پڑے گا جو اپنی حکومت کے بارے میں تقریروں میں کہہ رہے ہیں کہ اترپردیش میں ان کی حکومت میں بدمعاشوں اور مافیاؤں سے سختی سے نپٹا گیا جس کے نتیجہ میں آج وہاں رات کے 12 بجے بھی خواتین محفوظ نکل سکتی ہیں۔ جب یہ ان سے ہی معلوم کیا جانا چاہئے کہ ایودھیا ان کی حکومت میں ہے یا نہیں؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔