احمد علی برقیؔ اعظمی
ہے داستانِ ارضِ فلسطین خونچکاں
کیوں بے خبر ہے اس کے مصائب سے یہ جہاں
…
بیحس ہیں کتنے مشرقِ وسطیٰ کے حکمراں
اس ابتلاء میں اُن کی ہے غیرت کا امتحاں
…
صیہونیت کے ظلم و ستم سے ہیں باخبر
پھر بھی تماش بیں ہیں، وہ جیسے ہوں بے زباں
…
مرتے رہیں گے کیا یونہی معصوم شیرخوار
امن و سکوں کے اب وہ علمدار ہیں کہاں
…
ذہنی سکوں نصیب میں اُن کے نہیں ہے کیا
صیہونیت کی زد پہ ہیں جو زیرِ آسماں
…
ظلم و ستم کے اپنے ہی گھر میں ہیں اب شکار
بچے ہوں ،سن رسیدہ ہوں یا ہوں وہ نوجواں
…
پُرسانِ حال کیوں نہیں اُن کا کوئی ہے آج
ہیں اب کہاں حقوقِ بشر کے وہ خطبہ خواں
…
مہرہ ہیں اہلِ غرب کے شطرنج کا جو آج
ایک ایک کرکے سب کا مٹائیں گے وہ نشاں
…
ہے وقت اب بھی کام لیں عقلِ سلیم سے
برقیؔ مِلاتے رہتے ہیں اُن کی جو ہاں میں ہاں
تبصرے بند ہیں۔