آج کے مسلمان: مودی کے عروج کی وجہ

علی اشہد خان اعظمی

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ مودی کا عروج کیسے ہوا؟ گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ خوفناک خونی کھیل کھیلا گیا تو کٹّر ہندوؤں کو مودی کی شکل میں ایک امید کی کرن نظر آنے لگی اور وہ لوگ اسے اپنا مسیحا ماننے لگے اور بی جے پی کو ایسے ہی چہرے کی تلاش تھی۔ کیونکہ کانگریس نے بی جے پی ختم ہی کر دیا تھا اس کی وجہ بھی تھی کیونکہ ان کے پاس کوئی پی ایم چہرا نہیں تھا اڈوانی بابری مسجد معاملے میں ملوث تھے اور ان میں کوئی دم خم نہیں تھا اس لئے ان لوگوں کے پاس مودی جیسا مسلم مخالف چہرہ مل گیا۔ کیونکہ اس نے گجرات فساد میں وزیر اعلی رہتے ہوئے یکطرفہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی تھی اور بی جے پی سمیت تمام ہندو تنظیمیں اور کٹّر ہندوتوادی عوام نے مودی کو علاقائی سیاست سے نکال کر قومی سیاست میں لاکر کھڑا کر دیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ مودی کی ہندوتوادی کے تئیں لگاؤ کو دیکھ کر لوگ ان کے اندھ بھکت بنتے گئے جن کی دلی تمنا تھی کہ بھارت ہندو راشٹر بنے اور اگر عروج کی بنیاد یہ ہے تو پھر اس کا زوال اس طرح تو ممکن ہی نہیں ہے کہ ہم مودی کو ہندو کٹّر پنتھی کردار دے رہے ہیں۔

 غلطی ہماری ہی ہے کیونکہ جب مودی کوئی بھی مسلم مخالف کام کرتا ہے یا کوئی بیان دیتا ہے تو ہم مسلمان ایک جٹ ہو کر اس مخالفت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ دراصل یہی مخالفت اس کے عروج کی وجہ بھی بنتی ہے اور مودی نے ہمیشہ یہی ہتھکنڈا اپنایا ہے اور کامیاب بھی ہوا۔ اس کو اچھی طرح سے پتہ ہے کہ ہندوستان میں ہندو اکثریت ہے اور اگر یہاں حکومت کرنی ہے تو دو فرقوں میں تفرقہ ڈالنا پڑے گا، جو کہ انگریزوں نے آزادی سے پہلے یہی فارمولا اپنا کر راج بھی کیا اور یہ لوگ کریں بھی کیوں نہ یہ لوگ بھی تو انہیں کے شاگرد ہیں آزادی کہ لڑائی جب ایک وقت پورا ملک اپنی جان مال کے ساتھ انگریزوں کے خلاف کھڑا تھا، اس وقت کچھ چند غدار ان کی مدد کر رہے تھے اور اس تنظیم کا نام آر ایس ایس ہے۔ انگریزوں کے خلاف آزادی کی لڑائی لاکھوں لوگ گرفتار ہوئے جان سے دی لیکن اپنی زبان نہیں کھولے تب آر ایس ایس کے سربراہ سا ورکر نے جیل سے خط لکھ کر کہا کہ ہمیں آزادی نہیں چاہیے ہم آپ کے غلام ہی ٹھیک ہیں۔ کیونکہ وہ لوگ انگریزوں کا ظلم سہہ نہیں پا رہے تھے اور وہیں ہمارے ملک کے ہونہار نوجوان نے آنے والی نسلوں اور آزاد ہندوستان کے سولی پر چڑھنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹے اور آج بی جے پی اور مودی اسی کے اشارے پر کام کر رہی ہے۔

 انگریزوں نے آزادی سے پہلے ملک کو مذہب کے نام پر باٹنے کا کام کیا اور آج انہیں کی اولادیں وہی فارمولا اپنا کر ایک بار اقتدار میں آگئی اور اپنے دور حکومت میں کئے ہوئے ایک بھی وعدے پر کھری نہیں اتر پائی لیکن پھر سے یہ لوگ وہی کریں گے اور معصوم ہندوؤں کو کبھی رام مند کے نام پر کبھی گائے کے نام پر کبھی ہندو راشٹر کے نام پر اور یہ کہہ کر کہ ہندو خطرے میں ہے سبھی لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کریں گے اور ان کی اس چال میں مسلم قوم پوری طرح سے پھنس جاتی ہے، کیونکہ ہم ان لوگوں کی چھوٹی سے چھوٹی باتوں کو اتنا طول دے دیتے ہیں کہ یہ خودبخود فیمس ہوجاتے ہیں اور ملک میں دو فرقوں کے بیچ الگاؤ کا ماحول بن جاتا ہے اور پولرائزیشن کی ہوا اتنی تیزی سے پھیلتی ہے کہ جس فرقہ کی تعداد زیادہ ہے وہی بہ آسانی اقتدار میں آجاتا ہے۔

 کسی نے کہا ہے کہ اگر کسی کی اہمیت کو جڑ ختم کرنا ہے تو اس کا نام لینا بند کر دو اس کی مخالفت کرنا بند کر دواور اگرہم ایسے ہی پرزور مخالفت کرتے رہے تو مودی کبھی نہیں ہارے گا اور اسے روک پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ آج سے دو چار سو سال پیچھے جاتے ہیں، جب مغلوں اور مسمانوں کا راج تھا، تب ہندو ان کے خلاف کبھی آواز نہیں اٹھائے بلکہ اندر ہی اندر مظبوط ہوتے رہے اور نہ اپنے گھر میں اردو زبان کو آنے دیا اور نہ ہی اپنے برتن میں کبھی کوئی گوشت پکایا اور اپنی سنسکرت پر قائم رہے اور اپنے اچھے دن کا انتظار کرتے رہے۔ لیکن اس دور میں مسلمانوں نے انہیں کبھی کوئی تکلیف نہیں تھی انہیں کھانے پینے بولنے پہننے اور اپنے مذہب پر پورا عمل کرنے کی آزادی دئیے۔ اگر مسلمانوں کے صدیوں حکومت کے دوران اگر ہندوؤں پر زیادتی ہوئی ہوتی تو مجھے نہیں لگتا کہ کوئی ہندو بھارت میں بچا ہوتا یا تو ہو مذہب تبدیل کر لیتا یا بھارت چھوڑ دیتا۔ لیکن وہ لوگ نہ کہ شان سے رہے بلکہ اپنے مذہب و سنسکرتی کو بھی زندہ رکھ پائے اور اس میں اس وقت کے مغل شاہنشاہوں کا پورا ساتھ رہا لیکن آج کچھ گندی سیاست کی سوچ رکھنے والوں نے تاریخ کو جھٹھلا کر معصوم ہندوؤں کو ورغلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ تم پر مغلوں(مسلمانوں) کے دورِ حکومت میں بہت ظلم ہوا بہت زیادتی ہوئی اور ملک میں ہندو مسلم کے بیچ نفرت کا بیج بو کر ایک دیوار کھڑی کرنا چاہتے ہیں اور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو تار تار کر اپنی ہندوتوا کی روٹی سیکنا چاہتے ہیں اور حد تک کامیاب بھی ہورہے ہیں۔

 آج ہمیں اور آپ کو مغلوں کی صحیح تاریخ عام ہندوستانیوں تک پہچانی ہوگی اور خاص کر ہندو بھائیوں کو یہ بتانا ہوگا کہ مسلمانوں کے دور حکومت میں ہندوؤں کو ہر چیز کی بھر پور آزادی حاصل تھی اور میرا ماننا ہے کہ جب بھی مودی مسلمانوں کے حق کی بات کرے یا ان کے حق میں کچھ اچھا کام کرے تو اسے زیادہ سے زیادہ منظرعام پر لائیں تاکہ پروین توگڑیا جیسے اور جو بھی مودی کے آنے کہ وجہ سے بی جے پی میں نا کے برابر ہوگئے ہیں۔ ان کو بولنے کا موقع مل کہ ہم جس کام کے لیئے مودی کو سیاست میں لائے وزیراعظم بنائے مودی اس کا الٹا کر رہا ہے اور مسلانوں کی طرفداری کر رہا ہے اور اس سے بی جے پی میں دو گروپ بنے گا اور ان کے بیچ درار پیدا ہوگی اور شاید یہی مودی کے زوال کا سبب بنے۔

جو رَد ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے

وہ لوگ ہم پہ مسلّط ہیں اِس زمانے میں

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔