آدمیت اور ابلیسیت

جہاں گیر حسن مصباحی

اللہ تعالیٰ نے جب حضرت انسان کو پیدافرمانے کا ارادہ کیا اور اپنے ارادے کو فرشتوں پر ظاہر فرمایاتو فرشتوں نے پوچھا:
یااللہ! تو اس انسان کو پیدافرمائے گاجو زمین پر فسادمچائے گا ۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ’’ جب اللہ رب العزت نے فرشتوں سے فرمایاکہ میں زمین پر اپناخلیفہ بنانے والاہوں،اس پر فرشتوں نے کہا:یااللہ! تو زمین میں اس کوپیداکرے گا جو زمین میں فسادمچائے گااورخوں ریزی کرےگا، حالاں کہ ہم تیری حمدوثنااورتیری پاکی بیان کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے فرشتو!جو میں جانتاہوں وہ تم نہیں جانتے۔(سورۂ بقرہ:30)
پھرجب حضرت آدم کی پیدائش ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے تمام فرشتوں کو سجدے کا حکم فرمایا،سب فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن ابلیس غرور میں آگیا اوریہ کہتے ہوئے سجدےسے انکارکربیٹھاکہ میں آگ سے پیداہواہوںاورآدم مٹی سے،بھلاآگ مٹی کے سامنے کیسے جھک سکتی ہے ؟القصہ! فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی مرضی پر اپنی مرضی کو قربان کردیا،جب کہ ابلیس نے اپنی اَناکامسئلہ بنالیااورتکبروغرور میں مبتلاہونے کی وجہ سے بارگاہ الٰہی کا معتوب ومردودٹھہرا۔
اسی دن سےانسان اورشیطان کے درمیان دشمنی کی شروعات ہوگئی۔شیطان نے بارگاہ الٰہی میں اس دشمنی کا اعلان ہی نہیں کیا،بلکہ اللہ رب العزت سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی اجازت بھی مانگ لی اورگمراہی پھیلانے میں لگ گیا،یہاں تک کہ اس نے حضرت آدم کوبھی اپنے مکروحیلہ سے اس درخت کا دانہ کھانے پر مجبورکردیا جس کے قریب جانے سے بھی اللہ تعالیٰ نے منع فرمایاتھا،اس کے باوجودشیطان نامرادہی رہا،کیوں کہ حضرت آدم نے اپنی اس بھول پر اس قدرعاجزی کا مظاہرہ کیااورایسی توبہ کی کہ اللہ نے اُنھیں ’’مجتبیٰ‘‘کے لقب سے یادفرمایا۔
چناں چہ یہیں سے یہ طے پاگیاکہ جوتکبروغروراوراَنامیں مبتلا ہوکر اپنی زندگی بسرکرے گااور خطا ظاہر ہونے کے بعدبھی اس پر اَڑا رہے گاوہ عزازیل وابلیس اورعذاب الٰہی کا سزاوارہوگا اور جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق اپنی زندگی بسرکرے گا اوربھول چوک کی صورت میں بھی عاجزی وانکساری کے ساتھ توبہ و استغفارکرے گاوہ اللہ کا نیک اور محبوب ومقبول بندہ ہوگا ۔
اس کو ہم دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جس کے عمل سے دین کو نقصان پہنچے وہ ابلیس کی راہ پر ہے اور جس کے عمل سے دین کو نفع پہنچے وہ اللہ کی راہ پر ہے۔
آج بھی ہم سب کے لیے یہ ایک کسوٹی ہے جس پر اچھے برے کو پرکھاجاسکتاہے ،یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جو اِنسان جس رتبے اور جس حیثیت کا ہوتاہے ابلیس اسی اعتبارسے اس انسان کے دل میں وسوسہ ڈالتاہے اور اُسے سیدھی راہ سے بھٹکاتاہے ، چناں چہ ایک عالم کو علم کے پردے میں،ایک عابدشب زندہ دارکو عبادت کے لبادے میں ،ایک سخی اوربااخلاق انسان کو سخاوت واخلاق کے خول میں ،ایک ماں کو ممتاکے سہارے،ایک باپ کواولادکی محبت کے جال میںپھانس کر بڑی صفائی اور آسانی سے آدمی کے دل پر اپناقبضہ جماتاہے اورپھر اُسے حق وناحق کے درمیان امتیازنہیں کرنےدیتا۔
انبیاواولیاکی زندگی کامطالعہ کریں تو یہ تمام باتیں دودوچارکی طرح واضح ہوجائیں گی کہ ابلیس نے جب کبھی کسی کو راہ حق سے گمراہ کرنے کی کوشش کی ،تو اس کے رتبے ،عظمت اورتعلق ورشتے کا ضرور استعمال کیا،مثال کے طورپر حضرت ہاجرہ کو ممتاکے سہارے نافرمانی کے لیے ورغلانے کی کوشش کی،حضرت ابراہیم کو بیٹے کی محبت کا فریب دےکر اللہ کے حکم پر عمل کرنے سے روکنا چاہا اور خود حضرت اسمٰعیل کو جان کی دہائی دے کر خالق ومالک کی طاعت وفرماں برداری سےرک جانے کے لیے اکسایا،یہ الگ بات ہے کہ اِن نیک بندوں پر ابلیس کا کوئی زورنہ چل سکااوروہ اپناسامنھ لے کر رہ گیا۔
اس سےایک بات یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ابلیس کا کام ہےبندے کوراہ حق سے روکنا،ورغلانا،اکسانا،فتنہ وفسادپھیلانا، امن وسکون غارت کرنا اوردین کو نقصان پہنچانااورآدمی کا کام ہے لوگوں کو بھلائی کی دعوت دینااوربرائی سے روکنا،ملک ومعاشرےاور دنیامیں امن وشانتی کے لیے کوششیں کرنا،دلوںسے حسدوکینہ اورتکبروغروردورکرنااوراگرجانے انجانے میں کبھی کوئی خطاہوبھی جائےتوعاجزی وانکساری کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں توبہ استغفارکرنا۔
چناں چہ اب اگرہم کسی کو کسی کے خلاف اکساتے ہیں، یاہمارےکسی بھی عمل سے فتنہ وفسادجنم لیتاہے ،ملک ومعاشرے میں کسی بھی طرح کی بدامنی پھیلتی ہے اور کسی بھی طورسے دین کا نقصان ہوتاہے تو سمجھ لیناچاہیے کہ یہ سب ابلیسی اورشیطانی عمل ہے،جن سے پرہیزکرنے کی سخت ضرورت ہے۔
اب یہاں ایک سوال یہ پیداہوتاہے کہ ابلیس نےحضرت ہاجرہ،حضرت ابراہیم اورحضرت اسمٰعیل سے جو کچھ کہا،کیاوہ غلط تھا؟ کیا ایک باپ کے لیے یہ عمل زیب دیتاہے کہ وہ اپنی اولاد کوذبح کرے؟کیاایک ماں یہ برداشت کرسکتی ہے کہ اس کے بیٹے کو ذبح کردیا جائے،یا ایک انسان یہ چاہے گا کہ اس کے گلے پر چھری چلادی جائے اورپھر اللہ تعالیٰ نے بھی توخودجان کی حفاظت کے لیے دیت اور قصاص جیسے قوانین کا انتظام فرمایا ہے،بظاہرایسے انسان کوتودنیامجنون ہی کہے گی ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب بات آجائے اللہ کی رضاکی اور اس کے حکم کی تعمیل کی،تو اللہ کی مرضی میں جینے مرنےوالے بندے ایک بیٹااورایک جان کیا،بلکہ جتنی اولادہوںاور جتنی بارجان ملےسب کو اللہ کی مرضی پر قربان کردیناہی اصل سمجھتے ہیں،کیوں کہ ایسے نیک بندے پہلے اللہ کے فرماں بردار ہوتے ہیں اورپھربعدمیں ان کاکوئی رشتہ یاناطہ ہوتاہے۔
کیایہ تمام باتیں ہمیں اس بات پرغوروفکرکرنےکی دعوت نہیں دیتیں کہ ہم کوئی بھی قدم اٹھانے ،یا کسی بھی طرح کا کوئی حکم و فیصلہ سنانے سے پہلےاپنے دلوں میں جھانکیں کہ واقعی ہم جو قدم اٹھانے جارہے ہیں ،یاجوحکم اورفیصلہ سنانے جارہے ہیں،اس میں اَنااور تکبروغرور کا عنصرتوشامل نہیں،کہیں ایسا تونہیں کہ ہمارا یہ عمل محض ایک رسمی فریضے کی ادائیگی تک محدودہو اوربس،اگر ایسا ہے تومعاف کیجئے کہ میرے نزدیک یہ اصل فرائض کی ادائیگی ہے ہی نہیں،بلکہ یہ ایک طرح سےرسم فرائض اورذمے داری سے ہاتھ جھاڑناہے ،اس لیے کہ آدمی کی ذمے داری صرف یہ نہیں ہے کہ رسمِ فرائض کی ادائیگی کردی جائے ،بلکہ ساتھ میں یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ اس رسمِ فرائض کی ادائیگی سے کیااثرات مرتب ہورہے ہیں ،کہیں اِس سے کوئی ہنگامہ تو پیدا نہیں ہورہاہے،کہیں کسی کی عزت توتارتار نہیں ہورہی ہے،کہیں دین کا کوئی نقصان تو نہیں ہورہا ہے وغیرہ وغیرہ۔
چناں چہ آج ہمارے لیے یہ ضروری ہوگیاہے کہ اپنے اعمال وکردار کوپرکھیں کہ کیاہماراعمل آدمیت کے پیمانے پر مکمل اترتا ہے؟ اگر ہاں! تواللہ کا شکراداکریں،تاکہ اللہ اس پراور مضبوطی بخشے،کیوں کہ اللہ کاارشادہےکہ’’ اگر تم شکرگزاری کروگے تو میں تمھیں اور زیادہ عطاکروں گا۔’’ (سورۂ ابراہیم:7)
اگرہماراعمل آدمیت کے پیمانے پرمکمل نہیں اترتا،تو اللہ کی پناہ طلب کریں اوراپنے قلوب سے حسدوکینہ اور تکبروغرور دورکریں،نیزاس دن سے ڈریں جس دن سب لوگ اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشادہےکہ’’ اس دن سےڈروجس دن تم لوگ اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوگے۔’’ (سورۂ بقرہ:281)
ساتھ ہی توبہ کریں کہ اللہ توبہ کرنے والوں کواپنا محبوب رکھتاہے۔
ارشادربانی ہےکہ’’واقعی اللہ توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھتاہے۔’’ (سورۂ بقرہ:222)
ورنہ کوئی بعیدنہیں کہ قیامت میں اللہ کے نزدتک مجرم قراردیے جائیں کہ ابن آدم ہونے کے ناطے عمل کی جو ذمے داری ہمیں دی گئی تھی،وہ ہم سے ادا نہ ہوسکی،اس لیےا س پہلو پر بڑی سنجیدگی سے غورکرنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے بند ہیں۔