احمد اشفاق: ’بے سمت منزلوں کا نشاں ڈھونڈتے ہیں ہم’ (دوسری قسط)
نوشاد منظر
ہماری کلاسیکی شاعری کا وصف خاص محبوب کا ہجر بھی رہا ہے ۔عاشق اپنے محبوب کے انتظاراس امید سے کرتا کہ اس کا محبوب اس سے ملنے آئے گا مگر محبوب وعدہ کے باوجود نہیں آتا۔مذکورہ شعر کے متکلم کے یہاں محبوب کے ہجر کی تکلیف نظر نہیں آتی بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ میں محبوب کی انتظار میں صدیاں گزار دوں مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوگی مگر ہاں میرا محبوب بھی مجھے یاد کرے۔ یہ جدید شعری نظام ہے ،جہاں محبوب سے وصال کو برا نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس کا ظہار بڑی خوبی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ احمد اشفاق نے عاشق کے کلاسیکی کردار کو بدل دیا ہے اب وہ محبوب سے برابری کا رشتہ رکھنا چاہتا ہے۔ احمد اشفاق کی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر کوثر مظہری لکھتے ہیں:
’’احمداشفاق کی شاعری میں نجی زندگی کے تجربات سے لے کر آفاقی موضوعات تک کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔عشق اور محبت،جنوں اور اس جنوں کے آثار کے ذکر سے اردو شاعری بھری پڑی ہے۔جدید ذہن اور فکری رویے کے تحت جو شاعری ہورہی ہے اس میں اس نوع کے نمونے سامنے آرہے۔‘‘
(احمد اشفاق کا شعری تناظر۔پروفیسر کوثر مظہری۔ دسترس ،ص ۳۸)
پروفیسر کوثر مظہری کے خیال کو احمد اشفاق کی شاعری تقویت پہنچاتی ہے۔احمد اشفاق نے اردو شاعری کی اس روایت کا اختیار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جس کا آغاز دراصل فراق گورکھ پوری سے ہوتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
میں تجھ کو لکھتے لکھتے تھک گیا میری دنیا
مری تحریر اب ہر پل محبت چاہتی ہے
فاصلہ اب بہت ضروری ہے
تیری قربت سے جل رہا ہوں میں
نام تیرا آگیا تھا درمیان گفتگو
میری آنکھوں کے جزیرے میں سمندر آگیا
اس کی خاموشی مری راہ میں آ بیٹھی ہے
میں چلا جاتا مگر اس نے اجازت نہیں دی
فراق کو محبوب کے پہلو میں محبوب کی یاد آئی تھی جب کہ احمد اشفاق محبوب کی قربت سے جلتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔دراصل عاشق چاہتا ہے کہ محبوب سے وصال میسر نہ ہو اور وہ اس کے ہجر میں تڑپتا رہے۔ یہ اردو کی کلاسیکی شاعری کا اہم حصہ رہا ہے جہاں محبوب کے وصال کو محبت کی موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ احمد اشفاق کی شاعری میں انانیت کا عنصر بھی غالب ہے۔ وہ محبوب کی بے رخی سے حیران و پریشان تو ہیں مگر وہ اب اس سے برابری کا رشتہ رکھنے کے خواہاں ہیں۔
ہر ایک بات پہ لبیک مت کہا کرنا
زمانہ رہتا ہے گر بدگمان رہنے دے
ملاقاتیں مسلسل ہوں مگر کھل کر نہ ہوں باتیں
ہم ایسی کیفیت میں ملنا جلنا چھوڑ دیتے ہیں
انا منھ آنسوؤں سے دھو رہی ہے
ضرورت سر بسجدہ ہورہی ہے
ریاکاری لیے جاتی ہے سبقت
حقیقت سر جھکائے رو رہی ہے
فاصلے یہ سمٹ نہیں سکتے
اب پرایوں میں کر شمار مجھے
احمد اشفاق نے اپنی شاعری سے ان لوگوں پر بھی طنز کیا ہے جن کے یہاں رشتوں کی بنیاد دراصل ضرورت پر ہوتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ آج سماج کی آدھی آبادی جھوٹ، فریب، ریاکاری، چال بازی، بے ایمانی اور اس جیسی دوسری بیماریوں کے شکار ہیں، دراصل ان بیماریوں کی اصل وجہ انسان کے اندر کا لالچ ہے ۔ہم چھوٹی چھوٹی کامیابی اور کسی منصب کی لالچ میںایک دوسرے کے یقین اور اعتماد کا روزانہ قتل کرتے ہیں اور ہمیں اس پرذرہ برابر افسوس بھی نہیں ہوتا ہے۔احمد اشفاق نے بڑے خوبصورت انداز میں اس موضوع کو اپنی شاعری میںپیش کیا ہے۔
احمد اشفاق نے اپنے معاصر شعرا کے کلام اور ان کے موضوعات سے بھی استفادہ کیا ہے، اور یہ کوئی بری بات بھی نہیں۔ایک شعر بطور نمونہ ملاحظہ کریں:
کشمکش میں کاٹ دی اشفاق یونہی زندگی
پاؤں کو ڈھانپا تو سر چادر سے باہر آگیا
اب بشیر بدر کا ایک شعر ملاحظہ ہو۔
زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمیں
پاؤں پھیلاوں تو دیوار سے سر لگتا ہے
(جاری)
تبصرے بند ہیں۔