اذان اور دعوت میں  تعلق (دوسری قسط)

 مفتی کلیم رحمانی

اذان کی ابتداء اورکلماتِ اذان

اذان کے کلمات کی تعداد و تکرار کے متعلق سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ تعداد اور تکرار اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے ہے اس لیے اس تعداد و تکرار کو نہ ضرورت سے زائد کہا جا سکتا ہے اور نہ ضرورت سے کم، بلکہ اس تعداد و تکرار کو دعوتی و تعلیمی لحاظ سے عین لازمی اور ضرورت کے مطابق کہا جا سکتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں  کو مخاطب کرکے اپنی سنت کو قرآن میں  یوں  بیان فرمایا:

 اَفَحَسبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰٰکُمْ عَبَثاً وَ اَنَّکُمْ اِلَیْنَا لاَ تُرجَعُونَ.( سورئہ مومنون آیت 115)

( کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہیں  کہ ہم نے تمہیں  یوں  ہی بے کار پیدا کیا ہیں ؟ اور یہ کہ تم ہماری طرف نہیں  لوٹائے جائو گے؟)

مطلب یہ کہ اگر تم سمجھتے ہوں  کہ تمہاری پیدائش یوں  ہی بے مقصد ہوئی ہے تو تم غلط سمجھتے ہو، صحیح بات یہ ہے کہ تمہیں  ایک مقصد کے تحت پیدا کیا گیا ہے، اسی اصول سے یہ بات بھی واضح  ہوگئی کہ جب اللہ تعالیٰ نے انسانوں  کو بغیر مقصد کے یپدا نہیں  کیا تو اللہ تعالیٰ نے انسانوں  کو بغیر مقصد کے کوئی حکم بھی نیہں  دیا ہے، اسی اصول کو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں  کی دعا کے طور پر بھی بیان فرمایا۔ چنانچہ سورئہ آل عمران میں  اللہ تعالیٰ نے عقلمندوں  کے قول و عمل کو نقل کرتے ہوئے فرمایا۔

رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَابَاطِلاً ۔( ال عمران:191)

( ائے ہمارے رب تو نے یہ بے کار نہیں   پیدا کیا ہے)

اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ اس پوری کائنات میں  ایک بھی چیز بیکار اور بے فائدہ پیدا نہیں  ہوئی ہے، ساتھ ہی اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے پورے انسانوں  کے لیے ایک بھی حکم بیکار اور بے فائدہ نہیں  دیا، بلکہ اس نے تمام انسانوں  کے لیے تمام احکام ایک مقصد اور فائدہ کے تحت دیئے ہیں  اس لیے کسی شخص کو اگر اللہ کے کسی حکم میں  نقصان نظر آرہا ہے تو یہ اس کی عقل کا نقص ہے، لیکن یہ بھی افسوس کی بات ہے کہ دنیا میں  زیادہ تر وہی انسان عقلمند شمار ہوتے ہیں  جو ناقص العقل ہیں.  یعنی اللہ کے احکام و ہدایات کو انسانوں  کے لیے زحمت سمجھتے ہیں  جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے احکام و ہدایات انسانوں  کے لیے رحمت ہیں ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جو انسان اللہ کی ہدایت کو نظر انداز کرکے شیطان کی ہدایت کی پیروی کرتا ہے تو اسے بدی نیکی معلوم ہوتی ہے اور نیکی بدی معلوم ہوتی ہے، چنانچہ آج دنیا میں  زیادہ تر انسان شیطان کی اتباع و پیروی میں  زندگی گذار رہے ہیں  جس کی وجہ سے نیکی اور بدی کا پیمانہ بدل گیا ہے، اور خصوصاً سیاست کے میدان میں  ایسے ہی افراد انسانوں  کے حکمراں  اور لیڈر بنے ہوئے ہیں  جو برائی کو اچھائی سمجھتے ہیں  اور اچھائی کو برائی سمجھتے ہیں  ان میں  بہت سے مسلم حکمراں  بھی ہیں  اور بہت سے غیر مسلم حکمراں  بھی ہیں.

چنانچہ ان حکمرانوں  نے دہشت گردی اور ظلم کے خاتمہ کے نام پر پوری دنیا کو دہشت اور ظلم سے بھر دیا ہیں  خصوصاً   انہوں  نے اسلام پسندوں  کا جینا دو بھر کردیا ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اس وقت بے شمار اسلام پسند جیلوں  کی سلاخوں  کے پیچھے ہیں  اور بہت سوں  کو بندوق کی گولیوں  اور بموں  سے ہلاک کیا جارہا ہے اور بہتوں  کو پھانسیوں  کے پھندوں  پر لٹکا یا جا رہا ہے، کیونکہ اسلام اور اسلام پسند ہی ان کی راہ میں  سب سے بڑی رکاوٹ ہے یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اگر دنیا میں  اسلامی حکومت کا اقتدار ہوتا تو آج کے یبست حکمراں  یا تو جیلوں  میں  ہوتے یا پھانسی کے پھندوں پر ہوتے.

کیونکہ ان حکمرانوں  پر سینکڑون اور ہزاروں  ناحق انسانوں  کے قتل کا نہ صرف یہ کہ الزام ہے بلکہ یہ اقراری مجرم ہیں ، اور ان پر الزام ثابت ہے، اور اسلام میں  ناحق قتل کی سزا، قاتل کو قتل کردینا ہے، جس کو قرآن کی اصطلاح میں  قصاص کہتے ہیں ، اور قصاص کے متعلق قرآن میں  فرمایا گیا ہے:

وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوہُ یَاُولِ الْالْبَابْ (بقرہ۔ 179)

(تمہارے لیے قصاص میں  زندگی ہے ائے عقل والو) اور اسی سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ اگر قصاص نہ ہوگا تو تمہارے لیے موت و ہلاکت ہے ائے عقل والو، چنانچہ دنیا کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ جب سے دنیا سے قصاس کا عمل ختم ہوا ہے تو ناحق ہلاکتوں  اور اموات کا بازار گرم ہے، اور جہاں  قصاس کا حکم نافذ ہیں وہان آج بھی نا حق قتل نہیں  کے برابر ہے، جس طرح اللہ کا کوئی حکم بے مقصد اور بے فائدہ نہیں  ہے اسی طرح کسی حکم کی تعداد اور تکرار بھی بے مقصد اور بے فائدہ نہیں  ہے، چنانچہ دو صحابیوں  کو خواب میں  اللہ کی طرف سے اذان کے کلمات کی جو تعداد و تکرار سکھلائی گئی ہے اور نبیﷺ کی زبان مبارک سے ان خوابوں  کو جو سچے خواب ہونے کی سند حاصل ہوگئی ہے تو اذان کے کلمات کی تعداد اور تکرار بے فائدہ اور بے مقصد نہیں  ہے ۔ بلکہ یہ تعداد اور تکرار بھی ایک مقصد لیے ہوئے ہے، اور وہ یہ کہ یہ کلمہ اتنی ہی زیادہ بار توجہ کا حامل ہے۔

 اذان کے متعلق سب سے زیادہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ اسلام کی مکمل دعوت ہے، جیسا کہ اذان کے بعد کی جو دعا آنحضورﷺ سے منقول ہے اس میں  اللَّھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ کے الفاظ ہیں  یعنی ائے اللہ اس مکمل دعوت کے رب۔ اس لیے اذان کو اسلام کی مکمل دعوت کی حیثیت سے سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے، اذان کو صرف نماز کی دعوت و اطلاع کے طور لینا یہ اذان کے متعلق کم علمی اور کم فہمی کی بات ہے، یقینا اذان کا آغاز نماز کے لیے بُلانے کی ایک ضرورت کے غور و فکر ہی سے ہوا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اذان میں تمام انسانوں  کو اسلام کی دعوت دینے کے الفاظ بھی شامل کردیئے ہیں ۔

لیکن یہ بھی افسوس کی بات ہے کہ بہت سے مسلمان اذان کو صرف نماز کی دعوت و اطلاع کے طور پر سمجھتے ہیں ، جب کہ اس میں  نماز کی دعوت و اطلاع کا صرف ایک ہی کلمہ ہے جو دو مرتبہ دُہرایا جاتا ہے اور وہ ہے،حَیَّ عَلیَ الصَّلٰوۃِ  یعنی آئو نماز کی طرف اذان کو محدود معنیٰ و مفہوم میں  لینے کی وجہ سے آج امت مسلمہ بھی اور عام انسان بھی اذان کے پیغام سے محروم ہے، جبکہ اس میں  غیر مسلموں  کے لئے بھی اسلام کی عظیم اور مکمل دعوت کا پیغام موجود ہے جو تمام انسانوں  کے لیے ایک رحمت ہے، لیکن ظاہر ہے جب خود مسلمان ہی اس کو صرف نماز کی دعوت و اطلاع سمجھتے ہیں  تو غیر مسلم کیونکر اسے اسلام کی مکمل دعوت سمجھیں  گے، یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگر مسلمان اذان کے کلمات کا مکمل مطلب سمجھ پائے اور غیر مسلموں  کو سمجھادیں  تو دن میں  سے پانچ مرتبہ ہماری اذانوں  کے ذریعہ سے ان تک اسلام کی مکمل دعوت پہونچ جائیگی، اور کسی غیر مسلم کو قیامت کے دن اللہ کے سامنے یہ کہنے کاموقع نہیں  رہے گا کہ کسی مسلمان نے مجھ تک اسلام کی دعوت نہیں  پہونچائی، اور اگر اس کے باوجود کوئی غیر مسلم اللہ سے شکایت کرے کہ کسی نے مجھ کو اسلام کی دعوت نہیں  دی تو ہماری اذانیں  خود اس کا جواب دیدیں  گی کہ ہمارے ذریعہ سے تجھ تک اسلام کی دعوت پہونچ چکی تھی لیکن تو نے قبول نہیں  کیا، لیکن اسوقت چونکہ غیر مسلم افراد اذان کے مقصد اور مطلب سے نا واقف ہیں ، اس لیے وہ اللہ کے پاس شکایت کر سکتے ہیں  کہ ہم تک اسلام کی دعوت نہیں  پہونچی.

مسلمانوں  کے لیے غیر مسلموں  کو اذان کا مطلب سمجھانے کا کتنا عظیم فائدہ ہے کہ مسلمانوں  پر غیر مسلموں  کو دعوت دین کا جو فریضہ عائد ہوتا ہے وہ ہماری اذانوں  کے ذریعہ خود ہی ادا ہو جائیگا، لیکن اس کے لیے سب سے پہلے مسلمانوں  میں  تفہیم اذان کی تحریک چلانی پڑیگی تب وہ تحریک غیر مسلموں  میں  منتقل ہو سکتی ہے، اور اسی مقصد کے لیے یہ تحریر پیش کی جارہی ہے، اذان کے متعلق ایک کم علمی یہ بھی ہے کہ اس کو صرف مسجدوں  سے ادا ہونے والے موذنین کے کلمات ہی سمجھ لیا گیا ہیں ، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے اس لیے کہ اذان کا جواب دینا واجب ہے، اب مطلب یہ ہوا کہ اذان کے کلمات پوری امت مسلمہ کی طرف سے دن میں  سے پانچ مرتبہ ادا ہونے والے کلمات قرار پاتے ہیں ، اور دوران اذان، اذان دینے والوں  اور اذان سننے والوں  کی وہی صورت بنتی ہے، جو کسی مدرسہ اور مکتب میں  ایک معلم اور ایک طالب علم کی بنتی ہے، مثلاً ایک معلم کسی کلاس میں  اپنے طلباء کو قرآن کا کوئی جملہ پڑھاتا ہے، جیسے ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لاَ رَیْبَ فِیہِ اور طلباء اس کے جواب میں یہی جملہ دہراتے ہیں ، ٹھیک اسی طرح موذنین کے اذان کے کلمات کے جواب میں  سننے والوں  کو وہی کلمات دہرانے کی ہدایت ہے، البتہ حَیَّ عَلیَ الصَّلوٰۃ اور حَیَّ عَلیَ الْفَلاَح  کے جواب میں  لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہِ کہنے کی تلقین ہے، کیونکہ حَیَّ عَلیَ الصَّلوٰۃ  اور  حَیَّ عَلیَ الْفَلاَح کے کلمہ کا یہی جواب بہتر ہے، اسی طرح فجر کی اذان میں الصَّلوۃُ خَیْرُ مِنَّ النَّوْم کے جواب میں  قَدْ  صَدَقْتَ وَ بَرَرْتَکہنے کی تلقین ہے کیونکہ یہی اس کا جواب بہتر ہے۔

اذان کے ساتھ اس کے کلمات کو دہرانے اور جواب دینے کے عمل کو رکھ کر اسلام نے ایک طرح سے پوری امت مسلمہ کو دن میں  سے پانچ (5)مرتبہ اسلام کی عظیم اور مکمل دعوت سے جُڑنے کی تلقین کی ہے، تاکہ اس دعوت کی روشنی میں  دوسری قوموں  کو دعوت دینا امت مسلمہ کے لیے آسان ہو جائے۔ لیکن یہ بھی افسوس کی بات ہے کہ دین اسلام کی طرف سے اتنا زبردست نظم رکھنے کے باوجود امت مسلمہ کے بیشتر افراد اذان کے کلمات کا مطلب تک جانتے نہیں  اور نہ مطلب جاننے کی طلب و جستجو رکھتے ہیں ، جبکہ وہ برسوں  سے دن میں  پانچ مرتبہ اذان کے کلمات کو سنتے اور دہراتے آرہے ہیں ، یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ مسلمان اگر اذان کے کلمات کا مطلب سمجھ جائے اور اس پر عمل پیرا ہو جائے توان کی تعلیم و تربیت کے لیے یہی کلمات کافی ہو جائے، یہاں  یہ بات بھی واضح رہے کہ اسلام نے اذان دینے کے عمل میں  تو عورتوں  کو شامل نہیں  کیا، لیکن اذان کا جواب دینے کے عمل میں  عورتیں  بھی شامل ہیں ، اس لیے عورتوں  کو بھی اذان کے کلمات کو دہرانا چاہیے اور اس کا جواب دینا چاہیے۔ اذان کی اس حقیقت سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اذان پوری امت مسلمہ کی ایک اجتماعی آواز او ردعوت ہے، اس لیے کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں  ہے کہ وہ اذان کے پیغام کو نظر انداز کرکے زندگی گزارے۔

  درج ذیل میں  اذان کے کلمات کا مطلب اور ان کے کچھ تقاضے پیش کئے جارہے ہیں  تاکہ اذان کی حقیقت سے واقفیت حاصل ہو سکے اور اذان کی خلاف ورزی سے بچا جا سکے۔

 اس سلسلہ میں  سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اذان کے تمام کلمات ایک طرح سے قرآن و حدیث سے نکلے ہوئے کلمات ہیں ، اذان کے کلمات کو قرآن و حدیث کی تعلیمات کا نچوڑ اور خلاصہ بھی کہا جاسکتا ہے، مطلب یہ کہ تفصیل اور وضاحت کے ساتھ قرآن وحدیث میں  جو احکام بیان ہوئے ہیں ، ان کا خلاصہ اذان کے کلمات میں  بیان کردیا گیا ہے۔ یوں  تو تکرار اور دہرانے کے لحاظ سے اذان کے کلمات کی تعداد پندرہ (15)ہو جاتی ہے، لیکن اذان کے کلمات کی اصل تعداد پانچ(5) ہی ہے، اور فجر کی اذان میں  جو ایک زائد کلمہ :الصَّلٰوۃُ خَیْرُ مِّنَ النَّوم :ہے اس کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد چھ(6) ہو جاتی ہے۔ ان کلمات میں  سب سے پہلا کلمہ اَللہُ اَکْبَرْ ہے، جو اذان میں  چھ (6)مرتبہ دہرایا جاتا ہے، دوسرا کلمہ  لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ ہے، جو تین(3)مرتبہ دہرایا جاتا ہے، تیسرا کلمہ مُحَمَّدُ رَسُولُ اللہِ  ہے جو دو (2)مرتبہ دہرایا جاتا ہے، چوتھا کلمہ  حَیَّ عَلیَ الصَّلٰوۃ ہے جو دو(2) مرتبہ دہرایاجاتا ہے۔ پانچواں  کلمہ  حَیَّ عَلیَ الْفَلاَحَ  جو دو(2) مرتبہ دہرایاجاتا ہے، اور چھٹا کلمہ الصَّلٰوۃُ خَیْرُ مِّنَ النَّوم  جو صرف فجر کی اذان کے ساتھ ہی خاص ہے، وہ بھی دو (2)مرتبہ دہرایا جاتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔