آخری داؤ

محمد شمشاد

راجو کافی دنوں سے بیمار تھا اس بیماری کے سبب وہ بالکل لاغر و ناتواں ہو گیا تھا اسے لاغر ہونا تو فطری تھا اس ضعیف العمر میں ایک شدید مرض میں مبتلا ہونا ہی ایک انسان کے لیے کافی ہوتا ہے اور وہ انسان جس کی عمر ساٹھ کے قریب پہنچ چکی ہو جس نے اپنے ساری زندگی کی کمائی اپنے اولاد پر صرف کی ہو اور پوری زندگی صرف ماہواری تنخواہ پر گزاری ہو جس نے رتی بھر ناجائز کما کو حرام سمجھا ہو تو اس شخص کے پاس اپنی عمر کے آخری دور میں خرچ کے لیے اتنے سارے دولت کہاں ہونگے کہ وہ با آسانی اپنی اعلاج کرا سکے یا اپنے بیٹے کی نوکری کے لیے لاکھ دو لاکھ کی بات کرے۔

راجو ایک شریف اور نیک انسان تھا اس نے کبھی بھی ناجائز آمدنی پر یقین نہیں کیا تھا بس اس کے لیے تنخواہ ہی کافی تھی وہ خوش تھا کہ اس نے بہت سارے لوگوں کی بھلائی کی ہے حالانکہ اس کے دفتر میں ایسا بھی نہ تھا کہ ناجائز کمائی کا چلن نہ ہو۔ شاید اسی وجہ کر دفتر میں ایمانداری کی حیثیت سے وہ جانا جاتا تھا لیکن ایسا بھی نہ تھا کہ دفتر کے سارے لوگ اس سے خوش ہوں بہت سارے تو ایسے تھے جو اسے دیکھتے ہی کٹنے کی کوشش کرتے تھے۔

راجو کے خاندان میں بیوی کے علاوہ سب سے بڑالڑکا تھا اور اس کے بعد دو بیٹیاں تھیں جو بالغ ہو چکیں تھیں اس کا بیٹا گریجیویشن کرنے کے بعد نوکری کی تلاش میں در بہ درکی ٹھوکریں کھا رہا تھا جب کہ وہ سروس ایج کے آخری دور سے گزر رہا تھا۔

راجو کا بیٹا ہر روز گھر سے نوکری کی تلاش میں نکلتا اور نامراد گھر لوٹ آتا۔ گھر لوٹتے ہی راجو اس سے ایک ہی سوال کرتا ’’بیٹا آج کیا ہوا؟ کہیں کوئی بات بنی‘‘؟ لیکن اس کا جواب نہ پاکر وہ سب کچھ سمجھ جاتا اس کا بیٹا زبان کھولتا بھی تو کس منہ سے وہ یہ کیسے کہتا کہ بابوجی! اس دور میں ہمیں نوکری نہیں ملے گی جہاں رشوت اور بیروی کا بازار گرم ہے وہ یہ سوچ کر بھی کچھ نہیں کہتا کہ یہ سن کر بابوجی پر کیا گزرے گی جبکہ انہوں نے میری خاطر ساری زندگی سرکار کی نوکری نہیں بلکہ غلامی کی میں ہی تو ان کا آخری آس ہوں اور اب وہ اپنے رٹائرڈ ایج میں پہنچ چکے ہیں اس پر بھی کبھی مجھے ہمت دلانے سے انکار نہیں کرتے اس وقت ان کے سر پر دو جوان بیٹیاں ہیں اور خود بھی ایک شکریہ مرض میں مبتلا ہیں ان سارے وجوہات کے بنا پر وہ کبھی نہیں بولا کہ اس سرکاری دور میں ہم جیسے غریب بے سہارا لوگوں کی کوئی پوچھ نہیں ہے بس اس کا ایک ہی جواب ہوتا آج نہیں تو کل ہمیں نوکری ضرور ملے گی اور مسکراتا ہوا وہاں سے وہ چل پڑتا۔

راجو کافی دنوں سے بیمار تھا وہ چھوٹیاں پرچھوٹیاں لیتا جا رہا تھالیکن مرض کم ہونے کا نام نہیں لیتا وہ سوچتا کہ ابھی تو میری تنخواہ سے گھر کا سارا خرچ پورا ہو جاتا ہے لیکن چند ماہ کے بعد اس گھر کا حال کیا ہوگا جب میں رٹائرڈ ہو جاؤں گا بس چند ماہ بعد …… اور …… اور اس کے آنکھوں کے سامنے اپنی تباہیوں کا منظر گھومنے لگا اس کے دلوں میں بس ایک ہی امید کی کرن تھی اور وہ بھی بجھتی ہی نظر آرہی تھی جس پر اس کے گھر کی ساری ذمہ داریاں آنے والی تھیں گھر اور اولاد کی ذمہ داریاں جیسے وہ چھوڑ کر جا رہا تھا دو کنواری بہنوں کی ذمہ داریاں وہ ان ساری ذمہ داریوں کو کیسے نبھا پائے گا جب کہ وہ خود بھی ایک ایک پیسہ کے لیے محتاج مجبور ہے جس نے اپنی جوانی تعلم مکمل کرنے اور نوکری کی تلاش میں گزار دی ہو۔ وہ ان سب باتوں میں ڈوب جاتا ہے اسے حالت میں وہ کر بھی کیا سکتاتھا جب کہ اس کا جسم بھی جواب دے چکا تھا اس کے ہاتھ میں اب اتنی بھی سکت نہ تھی کہ وہ اس ڈوبتے ہوئے ناؤ کو مندھار سے نکال سکے۔

ایک روز جب اس کا بیٹا گھر میں داخل ہوا تو اس وقت وہ خوشی سے جھوم رہا تھا اس کے ہاتھوں میں ایک اخبار چھکا ہوا تھا اسے دیکھ کر راجو کو ایسا محسوس ہوا کہ آج وہ کامیاب ہو کر ضرر لوٹا ہے اس نے آتے ہی اپنے بابو سے بولا ’’دیکھیے بابو جی آج کا اخبار بہت اچھا ہوا کہ سرکار نے ہم جیسے غریب نوجوانوں کے لیے ایک بل پاس کیا ہے۔ دیکھیے نا بابوجی! اب ……… کی بنیاد پر ہم جیسے بیکار لوگوں کو نوکری ملے گی یہ قانون بے سہارا نوجوانوں کے لیے بہت ہی مددگار ثابت ہوگا جس کی کوئی پیروی اور پہنچ نہیں ہوتی اور جسے اتنی بھی صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ اس دور میں رشوت کی بھاری رقم نکال سکے چلیے اس قانون کے بنا پر کم سے کم ان جوانوں کو تو نوکری ملے گی جس کا با رٹائر ہونے کے قبل ہی مر گیا ہو یہ تو بہت ہی اچھا قانون بنا ہے ہمارے دیش میں ‘‘۔

راجو بہت خوش تھا کہ اس کا بیٹا ٹھیک اس کے نقش قدم پر نکلا تھا اسے بھی راجو کی طرح سماج کی بھلائی میں خوشی تھی وہ خوش تھا کہ اب سماج کے ایسے جوانوں کو نوکری ملے گی جو بیکار اور بے سہارا ہونگے ان کے پاس پاس رشوت کے لیے بڑی رقم نہ ہوگی اور نہ ہی سرکار تک پہنچنے کا کوئی راستہ لیکن اس کا باپ نوکری کرتے ہوئے مر گیا ہوگا۔

ایک دن راجو کی نظر اخبار کی ایک خبر پر جاکر اٹک گئی ’’نوکری کی خاطر بات کا قتل‘‘ اسی خبر کو وہ دھیان سے پڑھنے لگا اور پڑھ حیرت زدہ رہ گیا اخبارمیں لکھا تھا ’’بیٹے نے اپنے بوڑھے باپ کو جان سے مار کر پولس کے سامنے اقبال جرم کرتے ہوئے بیاں دیا کہ میں نے اپنے خاندان اور چھوٹے بھائیوں کی خاطر ایسا کیا ہے اس قتل کے بعد کم سے کم اتنا تو ضرور ہوگا کہ بعد میرے خاندان میں کم سے کم ایک بھائی نوکری والا ہو جائے گا جس سے پورے گھر کا گزر بسر ہو سکے گا اگر میرا باپ زندہ ہوتا تو کیا کرتا وہ تو چند ہی ماہبعد رٹائر ہونے والا تھا اس کے بعد اس گھر کا خرچ کون پورا کرتا اس رشوت کے زمانے میں ہم جیسے لوگوں کو نوکری بھی نہیں ملتی لیکن اب میرا گھر اس سے کہیں زیادہ بہتر ہوگا میں ایسا کرکے بہت خوش ہوں بھلے ہی اس جرم میں مجھے پھانسی کے تختہ سے ہی کیوں نہ لٹکنا پڑے لیکن مجھے اس کا تھوڑا بھی افسوس نہیں ‘‘۔

اس خبر کو پڑھتے ہی راجو نے آہ بھری یہ کیسی دنیا ہے یہ کیسا زمانہ آگیا جو ایک انسان کو ایسا کرنے پر مجبور ہونا پڑے ’’لیکن جرم‘‘ یعنی قتل اور وہ بھی اپنے ہی ہاتھوں سے باپ کا قتل اور وہ کچھ سوچنے لگا۔

راجو وہاں سے اٹھا اور ایک گلاس پانی لیکن اپنے کمرے میں جاکر بستر پر بیٹھ گیا اور اس نے نیند کی ساری گولیاں اپنے ہتھیلی پر رکھا اور پانی کے ساتھ انہیں اپنے حلق سے پار کرکے بستر پر لیٹ گیا اس وقت راجو کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ میرا آخری اور اب کبھی خالی نہ جائے گا چند ہی لمحوں میں اس کا بیٹا بھی انکپا کی بنیاد پر سرکاری نوکری پانے کا حقدار ہو جائے گا اور ان کی گردن دائیں جانب لڑھک گئی اب وہ بے سدھ بے جان اپنے بستر پر پڑا مسکرا رہا تھا۔

تبصرے بند ہیں۔