گزشتہ منگل کو پارلیمنٹ میں صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کے دورانِ خطاب مسلم لیگ کے لیڈر اور سابق مرکزی وزیر ای۔ احمددل کا دورہ پڑنے سے بے ہوش ہوگئے اور گر پڑے۔ انھیں ایمبولینس کے ذریعہ فوراً رام منوہر لوہیا اسپتال علاج کیلئے پہنچا دیا گیا۔ 2بجے دن میں ان کی موت ہوگئی مگر حکومت کے دباؤ کی وجہ سے ڈاکٹروں نے ان کی موت کا اعلان نہیں کیا تاکہ بجٹ جو کل پیش کیا جانے والا ہے اس میں کوئی رکاوٹ یا رخنہ نہ پڑے۔ ای۔ احمد مرحوم کے گھر والے خاص طور سے ان کے بچوں نے مطالبہ کیا کہ انھیں ان کے والد کی حالت سے آگاہی دی جائے اور ان تک پہنچنے دیا جائے۔ مطالبہ کے باوجود ان کے بچوں کو نہ باپ کی حالت سے آگاہی دی گئی اور نہ ہی ان تک پہنچنے دیا گیا۔ حکومت کا پورا پروگرام بن چکا تھا کہ کسی حالت میں بھی بجٹ کے اعلان یا تشہیر کو ملتوی نہ کیا جائے، چاہے اپوزیشن جس قدر چیختی چلاتی رہے۔
سی پی ایم کے سکریٹری سیتا رام یچوری نے کہاکہ ای۔ احمد مرکزی حکومت میں دس سال تک وزیر رہے اور سات بار ایم پی رہے اور لوک سبھا کی ایم پی جس کی بیٹی ڈاکٹر بھی ہے اسے اپنے بیمار اور تڑپتے باپ کے پاس جانے نہیں دیا گیا جبکہ وہ کئی گھنٹے تک چیختی چلاتی رہی مگر اسے اس وقت جانے دیا گیا جب ای۔ احمد موت کی گود میں سوگئے۔ اسپتال مرے ہوئے آدمی کے جسم میں آکسیجن دینے کا ناٹک کرتا رہا جو کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے۔ موت کے اعلان سے ایک گھنٹہ پہلے ای۔ احمد کے لڑکے نے میڈیا کو بتایا کہ وہ اور ان کی بہن فوزیہ باپ کے بستر مرگ کے قریب قرآن کی آیتیں پڑھنے کی اجازت مانگی مگر دونوں کو نہ قریب جانے دیا گیا اور نہ ہی قرآن مجید پڑھنے کی اجازت دی گئی۔ ای۔ احمد کے بچوں نے کہاکہ میرے باپ کی دواؤں کے بارے میں ہم لوگ واقف تھے۔ میری بہن ڈاکٹر ہے جو دواؤں کے نام جانتی ہے جب بھی ہر قسم کی پابندی اسپتال کی طرف سے عائد کر دی گئی اور دوائیں بغیر ہم لوگوں کے Consent کے دی گئیں۔
بجٹ عام طور پر 31 مارچ سے پہلے پیش کیا جاتا ہے مگر اس بار ملک میں نوٹ بندی کی وجہ سے ہاہا کار اور پانچ ریاستوں کے الیکشن کے پیش نظر مودی حکومت نے بجٹ کا ایک مہینہ پہلے پیش کرنے کا اعلان کیا تاکہ بجٹ کے آسمانی وعدوں سے الیکشن میں کامیابی ممکن ہوسکے اور نوٹ بندی کے جو اثرات پڑے ہیں وہ زائل ہوسکیں۔
کانگریس کے لیڈروں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ای۔ احمد کی موت کی وجہ سے بجٹ میں ایک روز کی تاخیر کردی جائے اور پارلیمانی روایات کے مطابق پارلیمانی کارروائی کو آج ملتوی کر دی جائے۔ ایک روز کی تاخیر سے نہ کوئی دستوری بحران ہوگا اور نہ آسمان گرے گا۔ کانگریسی اور دیگر پارٹیوں کے لیڈروں کی ایک نہ سنی گئی۔ حکومت اپنی ضد پر قائم رہی۔ بعض اپوزیشن لیڈروں نے یہاں تک کہا کہ اگر بی جے پی کا کوئی ایم پی مرجاتا تو کیا حکومت اسی طرح کا رویہ اپناتی۔ ایک لیڈر نے کہاکہ ان پر جب دل کا دورہ پڑا تو وہ ڈیوٹی (onduty) پر تھے۔
بھاجپا حکومت ایک ایسی حکومت ہے جو جیوتشیوں پر یقین رکھتی ہے۔ ان کے جیوتشیوں نے مودی سے کہا ہوگا کہ بجٹ پہلی فروری ہی کو پیش کرنے سے بہتر ہوگا۔ ظاہر ہے ہندوتو حکومت کیلئے جیوتشیوں کی بات کو ٹالنا آسان نہیں ہے۔ ایک بات تو یہ ہوسکتی ہے۔ دوسری بات یہ بھی ممکن ہے کہ بھاجپا اپنی پارٹی کے علاوہ دوسری پارٹیوں کے لوگوں کا خاص طور پر مسلم لیگ کے کسی فرد یا ایم پی کو کوئی وقعت یا اہمیت نہیں دیتی جس کی وجہ سے بھی لوگوں کے مطالبہ پر مودی حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی۔
بہر حال جو کچھ ہوا وہ مودی جیسی حکومت کی عین توقع کے مطابق ہوا ہے۔ ایسی بے رحم اور ظالم حکومت سے اس سے زیادہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ رسماً ان کی موت کی خبر (Obituary) کا اسپیکر نے اعلان کیا۔ دو چار جملوں میں ان کی سوانح عمری بیان کی اور ممبران کو ایک منٹ کیلئے کھڑے ہونے کی اپیل کی۔ اس کے بعد اپوزیشن کے شور و غوغا کے باوجود وزیر خزانہ ارون جیٹلی کو بجٹ پیش کرنے کیلئے کہا گیا۔ ارون جیٹلی بجٹ پیش کرنے لگے۔ آہستہ آہستہ مطالبہ کی آواز دبتی چلی گئی، ہندوتو کی آواز غالب آگئی۔ ای۔ احمد اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اللہ انھیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان کے اہل خانہ اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔