ترکی میں فوجی انقلاب کی ناکام کوشش
ڈاکٹر محمد ضیاء اللہ ندوی
آج کی رات ترکی کے لئے نہایت تکلیف کی رات رہی۔ فوج کا ایک گروہ جو طاقت کے حصول کے لئے کافی بے چین ہے جمہوری طریقے سے عوام کے ذریعہ منتخب حزب النہضہ و العدالۃ کی حکومت کا تختہ پلٹ کر کے جمہوریت کا خون کرنے پر تل گیا۔ یہ فوجی طاقت کے استعمال کے ذریعہ تختہ پلٹنے کی کوئی نئی کوشش نہیں تھی‘ اس سے پہلے بھی اس طرح کی کوششیں ترکی میں ہو چکی ہیں ۔ لیکن اسی (80) کی دہائی کے بعد سے لے کر اب تک فوج کے ایسے عناصر کو جو جمہوری طرز حکومت سے متفق نہیں ہیں کامیابی نہیں ملی ہے۔ آخری بار 1997 میں نجم الدین اربکان کی حکومت کو فوج کی مداخلت سے ختم کردیا گیا تھا لیکن پورے طور پر حکومت پر قابض ہونے میں فوج کے ایسے عناصر تب بھی ناکام رہے تھے۔ آج کی شب بھی ایک معمولی تعداد نے طاقت کے حصول کی اپنے دیرینہ خواب کو پورا کرنے کی ناکام کوشش کی لیکن ناکام ہو گئی۔ یہ سازش اس لئے ناکام ہو گئی کیوں کہ ترکی فوج کے اعلی عہدے داران بالخصوص بحریہ کے چیف نے یہ اعلان کیا کہ وہ اس طرح کی کسی کوشش کا حصہ نہیں ہیں۔ فوجی انقلاب کی سازش میں ملوث افسران نے سب سے پہلے نیشنل بروڈکاسٹرپر قبضہ جما کر اس کو بند کردیا تاکہ کوئی خبر باقی دنیا تک نہ پہونچ سکے۔ لیکن صدر طیب اردوگان‘ وزیر اعظم یلدرم اور سابق وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو متبادل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اپنے عوام سے مخاطب ہوئے اور ان سے اپیل کی کہ فوج میں موجود ایسے شرپسند عناصر کے خلاف منتخب جمہوری حکومت کی حمایت میں سڑک پر اتر آئیں۔ ترکی کے حساس عوام نے بروقت یہ محسوس کیا کہ ان کے ذریعہ منتخب لیڈران کو ان کی مدد کی ضرورت اس وقت سب سے زیادہ ہے۔ اسی لئے اس اپیل کو سنتے ہی ترکی کے تمام شہروں کی سڑکیں عوام سے بھر گئیں۔ انقلاب کے حامی عناصر نے اتاترک انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو بھی بند کردیا تھا جو بعد میں انقلاب کی ناکام کوشش کے بعد کھول دیا گیا۔ اس ناکام انقلاب کا ایک تکلیف دہ پہلو یہ رہا کہ تقریبا سترہ پولیس کے افسران اس میں شہید ہوئے‘ ترکی پارلیمنٹ پر بم پھینکے گئے اور اتاترک انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے نزدیک بھی دو دھماکے سنے گئے۔ تادم تحریر کسی شہری کے موت کی خبر موثوق ذ رائع سے حاصل نہیں ہوسکی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ ترکی دہشت اور تشدد کے خلاف برسرپیکار ہے‘ اس قسم کی قابل مذمت کوشش کے پیچھے کون سی طاقت کارفرما ہے؟ ترکی وزیر اعظم کے آفس نے گولین تحریک کو اس سازش کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا ہے لیکن کوئی بھی بات پورے اعتماد سے اس وقت نہیں کہی جاسکتی ہے۔ خود گولین موومنٹ نے فوجی انقلاب کی کوشش کی مذمت کی ہے اور خود کو بری الذمہ قرار دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں ہی اس سازش کے تمام پہلو واضح ہو پائیں گے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ترکی کا معاشرہ پوری طرح سے دو خیموں میں بٹا ہوا ہے۔ طیب اردوگان کی قیادت والی حزب النہضہ نے مسلسل انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے دیگر سیاسی پارٹیوں کے لئے سیاسی دائرہ کو محدود کردیا ہے، لیکن تمام حزب اختلاف اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ترکی میں کسی بھی طرح کے بدلاؤ کے لئے جمہوری طرز عمل کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اسی لئے تمام اپوزیشن پارٹیوں نے بیک زبان اس فوجی انقلاب کی ناکام کوشش کو مذموم قرار دیا اور اپنی اعلی سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا۔ بین الاقوامی پیمانے پر دیکھا جائے تو ترکی ایک نہایت اہم ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی لئے تمام عالمی سربراہان بشمول امریکہ اور یورپی یونین نے ترکی کی عوامی جمہوری حکومت کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہنے کا فوری طور پر اعلان کیا لیکن شک کی نظر روس کی طرف اس لئے جاتی ہے کیوں کہ ترکی کے تعلقات شام کے مسئلہ کی وجہ سے روس کے ساتھ کافی خراب ہوگئے تھے اور ترکی نے روس کا ایک فوجی طیارہ بھی مار گرایا تھا۔ تاہم احمد داؤد اوگلو کے استعفی کے بعد ترکی نے اپنی خارجہ پالیسی میں کافی تبدیلیاں کیں اور وہ تمام ممالک جن کے ساتھ اس کے باہمی تعلقات چند سالوں میں کافی متأثر ہو گئے تھے‘ دوبارہ سے ان تعلقات کی بحالی کے لئے ترکی لگاتار کوششیں کر رہا ہے۔ خواہ مرمرہ کشتی والے واقعہ کے بعد اسرائیل کے ساتھ دوبارہ سے بہتر تعلقات کی استواری کا معاملہ ہو یا روس کے تئیں اپنے رویے کو نرم کرنے کی بات ہو۔ طیب اردوگان کی صدارت میں ترکی ایک پراگماتی (Pragmatic) خارجہ پالیسی کی راہ پر گامزن ہے جس کے لئے خود ترکی کے حامی افراد بھی کافی ناخوش نظر آتے ہیں اور حزب النہضہ کی اس حکومت کو شدید تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بالخصوص شام میں قتل و خوں ریزی کا ذمہ داربشار الأسدکے لئے چھ مہینے کی مہلت اور ترکی کا اس سلسلے میں اتفاق ناقابل فہم قدم رہا لیکن ترکی نے اپنے موقف کا دفاع اس بنیاد پر کیا کہ لگاتار کرد ا ور داعش دہشت گردی کا نشانہ بننے والا ملک زیادہ دنوں تک زمینی حقائق کو نظر انداز نہیں کر سکتا اور ملک کے امن وامان کا تحفظ اس کی اولین ذمہ داری ہے۔ معاملہ چاہے کچھ بھی ہو لیکن ترکی کا یہ کردار واقعتا قابل تعریف کہ شام میں جاری مسلسل خوں ریزی اور روز مرہ کی ناقابل برداشت تشدد کا نشانہ بننے والے لوگوں کے لئے ترکی ہی ایک پناہ گاہ ہے۔ اس خطے میں اردن ایک دوسرا ملک ہے جہاں شام کے بدحال لوگ بڑی تعداد میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ خود یورپی ممالک بھی اس معاملے میں ترکی پر منحصر ہیں کہ پناہ گزینوں کا سیلاب روکا جاسکے اور ان کی لگاتار کمزور ہوتی معیشت پر مزید بار نہ پڑنے پائے۔ ترکی نے نہایت وسعت قلبی کے ساتھ شام کے متأثرین کی مدد کی ہے۔ خود داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کے خلاف امریکہ کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگ ممکن نہیں ہو سکتی اگر ترکی اپنا کلیدی کردار ادا نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل ماسکو میں موجود امریکہ کے وزیر خارجہ جون کیری نے فوراً ترکی کی جمہوری حکومت کی حمایت کا اعلان کیا۔ باراک اوباما کے ایڈمنسٹریشن نے بھی ترکی کی تمام سیاسی پارٹیوں سے اپیل کی کہ ایسے وقت میں عوام کے ذریعہ منتخب حکومت کی وہ بھرپور حمایت کریں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون لگاتار اس معاملہ پر نظر رکھے رہے کیوں کہ پوری دنیا آج اس حقیقت سے واقف ہے کہ انتشار کا شکار یہ خطہ ترکی کے تعاون کا سب سے زیادہ محتاج ہے۔ فوجی انقلاب کی یہ ناکام کوشش واضح کرتی ہے کہ جو عناصر اس میں شامل ہیں و ہ در اصل ترکی ہی نہیں‘ بلکہ پورے خطے کوایک نئے سنگین مسئلے سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے وقت میں جب کہ ترکی اقتصادی اعتبار سے بھی مسائل میں گھرا ہواہے اور دہشت گرد عناصر کے نشانے پر ہے‘ فوج کے بعض افراد کے ذریعہ اس طرح کی کوششیں نہایت حیرت انگیز ہیں۔ دراصل اندر سے کھوکھلا کرنے کی ایک ایسی گھناؤنی حرکت ہے جو کسی بھی طرح سے ناقابل قبول ہے۔
صدر طیب اردوگان نے واضح طور پر میڈیا کے ذریعہ عالمی معاشرے کو باخبر کردیا ہے کہ وہ افراد جو اس سازش کا حصہ ہیں بخشے نہیں جائیں گے اور انھیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ آنے والے دن ترکی کے لئے آسان نہیں ہوں گے۔ فوجی انقلاب کی اس ناکام کوشش نے جہاں ایک طرف ترکی معاشرے کو چوکنا کر دیا ہے وہیں دوسری طرف طیب اردوگان کے ہاتھ میں ایک ایسا پروانہ تھما دیا ہے جس کے استعمال سے وہ اپنے مخالفین کا منہ بند کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ دیگر سیاسی پارٹیوں کے لئے بھی اب اتنا آسان نہیں ہوگا کہ وہ صدر طیب اردوگان کے سیاسی قد کو چھوٹا کرسکیں‘ کیوں کہ اپنے مخالفین کو فوجی انقلاب کی سازش کا حصہ قرار دے کر وہ عوامی ہمدردی حاصل کرنے میں خاصی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ اس بات کا خاص خیال رکھا جانا چاہیئے کہ جمہوری ستونوں کو مضبوط بنانے کے بجائے وچ ہنٹنگ(Witch Hunting) کا دور شروع نہ ہوجائے‘ کیوں کہ یہ ترکی کے عوام کے حق میں نہیں ہوگا۔ ساتھ ہی یہ کوشش کی جانی چاہئیے کہ اس سازش کے ذمہ داروں کو بے نقاب کیا جائے اورقانونی طریقے سے ان کو کیفر کردار تک پہونچایا جائے ۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔