حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے

تحریر: شمشاد حسین فلاحی … ترتیب: عبدالعزیز

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے عہدۂ صدارت سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا غیر ملکی دورہ مملکت سعودی عرب کا کیا۔ اس دورے کے اعلان کے ساتھ ہی دنیا کی نگاہیں اس کی حصولیابیوں اور نتائج کو دیکھنے کیلئے بے چین تھیں ۔ چناں چہ اسے دونوں ملکوں ہی نہیں بلکہ پورے خطہ کیلئے نتائج و اثرات کے اعتبار سے بہت ’’کامیاب‘‘ دورہ کہا جانا چاہئے۔

اس دورہ میں صدر امریکہ نے بڑے ’اہم اور عظیم‘ کام انجام دیئے۔ ان میں دو کام ایسے ہیں جو طویل مدتی اثرات رکھنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے فوری نتائج بھی دینا شروع کر دیئے ہیں ۔ اس دورے میں امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تاریخ کا سب سے بڑا اسلحہ کی خرید و فروخت کا معاہدہ طے پایا، جس کی قیمت 350 بلین ڈالر ہے۔ اس طرح امریکی خزانے کو ایک بڑا مالی نفع حاصل ہوگیا اور یہ اگلے دسیوں سال تک چلے گا۔ اسی طرح دوسرا فوری اثر یہ ہوا کہ خلیجی ممالک نے اپنی ہی ساتھی اور GCC کے ممبر ملک قطر کو الگ تھلگ کردیا۔ انھوں نے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کرلئے، فضائی سرحدیں اس کی پروازوں کیلئے ممنوع کر دیں اور یہاں کے شہریوں کو اپنے اپنے ملکوں سے نکل جانے کے احکامات صادر کر دیئے۔ خادم الحرمین اور اماراتی اتحاد اس مہم کی قیادت میں پیش پیش ہے اور مصری ڈکٹیٹر سیسی، خانی جنگی کا شکار یمن اور شیعہ آبادی کی مخالفتوں کا سامنا کر رہا بحرین بھی اس میں شامل ہیں جبکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ لیبیا اور مالدیپ بھی اب سعودی عرب اور امارات کا ہاتھ تھام چکے ہیں ۔

اس طرح کی بھی خبریں ہیں کہ سعودی عرب میں موجود یا زیارت کیلئے پہنچنے والے قطری شہریوں کو حرم شریف میں داخل ہونے سے بھی روک دیا گیا، حالانکہ اس خبر کی اگلے ہی روز سعودی عرب کی جانب سے تردید کر دی گئی، مگر تردید کرنے سے حقیقت تو تبدیل نہیں ہوجاتی، البتہ کچھ سیاسی فائدہ ضرور حاصل ہوجاتا ہے۔ قطر کے بائیکاٹ اور اس پر پڑوسی ممالک کی جانب سے ہر طرح کی پابندیوں کو امریکی صدر نے دورۂ ریاض کے اثرات بتاتے ہوئے اس پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ان کا اظہارِ اطمینان یقینا بجا ہے کہ وہ جس کام کیلئے آئے تھے اور جس مہم پر آئے تھے وہ اچھی طرح سے مکمل ہورہی ہے۔

خلیجی ممالک  کے ذریعے قطر کے بائیکاٹ کے ساتھ ہی جہاں عرب اتحاد کے پرخچے اڑگئے وہیں عرب ممالک کی موثر اور فعال تنظیم OCC کی اہمیت اور اس کے اثر و رسوخ کو بھی سفید کپڑے میں لپٹ جانا پڑا بلکہ سعودی عرب اور امارات کے بارے میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے غلام ہیں ، اس کے علاوہ کچھ نہیں اور یہ بھی کہ خادم الحرمین کا ڈھونگ رچا کر سعودی حکمراں مسلم دنیا کو بے وقوف بنا رہے ہیں اور اصل میں تو یہ اسرائیل اور امریکہ ہی کی خدمت میں لگے ہیں ۔

خلیجی ممالک کے ذریعے قطر کو نشانہ بنانے کے پیچھے کیا اسباب ہیں اس کا جائزہ بھی ضروری ہے، مگر یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ اس قطر دشمنی میں خلیجی ممالک کی حیثیت محض ایک مہرے کی ہے جبکہ اس کے پیچھے اصل اسباب و وجوہات وہ ہیں جو امریکہ اور اسرائیل کیلئے ہمیشہ پریشانی کا سبب رہی ہیں ۔

اس سلسلے میں ایک بات تو یہ ہے کہ قطر وہ ملک ہے جو امریکہ کے اسلحے کی منڈی سے اسلحے خریدنے میں دلچسپی نہیں دکھاتا رہا ہے۔ اس طرح امریکہ کا ایک پوٹینشیل خریدار اسے آنکھیں دکھائے تو نہ صرف اس کے مفاد پر زد پڑتی ہے بلکہ تکبر کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے۔

قطر وہ ملک ہے جو اپنی خارجہ پالیسی میں بیرونی دباؤ کو قبول نہیں کرتا اور اپنی آزادانہ خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس بات کا کھل کر وہاں کے وزیر خارجہ نے پیرس میں ایک انٹرویو کے درمیان کیا تھا۔

 قطر پر یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ ایران کا سپورٹ کرتا ہے اور اس سے اچھے تعلقات رکھتا ہے، جبکہ عالمی طاقتوں کی پالیسیوں کے مطابق ایران غیر مقبول ممالک کی فہرست میں آتا ہے۔

قطر کے خلاف جو چارج شیٹ پیش کی جاتی ہے اس میں اس بات کو بڑی اہمیت حاصل ہے کہ یہ حماس، اخوان المسلمون اور حزب اللہ کو دہشت گرد گروپ نہیں مانتا۔ اس طرح وہ عالمی طاقتوں کی نظر میں سزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔

مغربی دنیا میں جس طرح سیاسی پناہ کیلئے لندن معروف ہے اور ساری دنیا سے سیاسی پناہ کے طالب لندن میں پناہ گاہ ڈھونڈتے ہیں اسی طرح ’اسلامی‘ کا لیبل رکھنے والے ان گروپوں کیلئے جن کو دنیا ناپسند کرتی ہے قطر کو ایک پناہ گاہ کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ جو اسلام مخالف طاقتوں کو کسی طرح قبول نہیں ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ حماس کے سیاسی رہنما خالد مشعل اس وقت قطر ہی میں مقیم ہیں اور معروف اسلامی اسکالر اور عالم اسلام کی فعال و معتبر شخصیت ڈاکٹر یوسف القرضاوی بھی قطر ہی میں مقیم ہیں جنھیں اخوان المسلمون کا عالمی رہنما تصور کرایا جاتا ہے اور دہشت گردانہ سوچ کا فکری رہنما گردانا جاتا ہے۔

آخر الذکر بات وہ ہے جس کیلئے عالمی طاقتیں کسی بھی طرح قطر کو معاف کرنے کی روادار نہ تھیں اور کچھ اب سامنے آیا ہے اس کیلئے کافی پہلے سے وہ کوشاں تھیں ۔ ان کی خوش قسمتی اور عرب و اسلامک دنیا کی بدقسمتی کہ وہ اپنی چالوں میں کامیاب رہیں اور قطر کو سیاسی، معاشی اور سفارتی سطح پر کمزور کرنے کیلئے غلامانہ ذہنیت کی حامل اور خود اپنا مفاد فراموش کر دینے والی، عرب مسلم، مملکتوں کو استعمال کرنے میں کامیاب ہوگئیں ۔

یہ جو کچھ بھی ہوا ہے، ہورہا ہے اور مستقبل میں ہوگا ایک بڑے منصوبہ کا حصہ ہے اور اس میں سعودی عرب کا اہم ترین رول اب تو کھل کر سامنے آگیا ہے جبکہ دورۂ ٹرمپ سے پہلے سعودی عرب کے ایک وزیر قطر کا ’مرسی جیسا حشر کر دیں بگے‘ کی دھمکی دے کر اس حقیقت کو تسلیم کرچکے تھے کہ مصر میں تین سال پہلے جو جمہوریت کا مثلہ ہوا اور ہزاروں بے گناہ انسانوں کا قتل عام ہوا، بڑی اکثریت سے منتخب عوامی نمائندوں کو فوجی حکومت نے جیل کے اندر کر دیا، اخوان کی قیادت ہی نہیں بلکہ اس سے کسی طرح کی وابستگی رکھنے والوں تک کو جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا اس پورے قتل و خون اور ظلم و ستم میں ان ’خدام‘ کا رول تھا اور آج بھی ہے۔

اس پورے سلسلۂ واقعات کے پیچھے اسرائیل کا تحفظ مقصود ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سعودی عرب سے ڈیل کے بعد امریکہ نے اسرائیل کو اسلحے کے میدان میں تعاون کیلئے 38بلین ڈالر کی تاریخی امداد کا اعلان کر دیا۔ جبکہ بالواسطہ طور پر بھی اس پوری سیاست کے ذریعے GCC کی سیاسی حیثیت اور اثر و رسوخ ختم ہوجائے گا اور باہم دگر لڑکر خود کمزور ہوجائیں گے اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو وہ اس لائق کبھی نہ ہوسکیں گے کہ اسرائیل کی طرف نظر اٹھاکر دیکھ سکیں ۔ امریکہ اب اس طرف سے اطمینان کرلینا چاہتا ہے کہ اس خطہ میں اس کیلئے کسی طرح کا کوئی مسئلہ مستقبل میں کھڑا نہ ہو اور اگر کسی کو تعزیر کرنے کی ضرورت محسوس ہو بھی تو اسے خود یہ کام نہ کرنا پڑے جس طرح وہ یمن میں حوثی طاقتوں کے خلاف خود عربوں کے ہی اتحاد کو استعمال کر رہا ہے۔ اس طرح اسے دوہرا فائدہ ہے۔ ایک طرف تو براہ راست جنگ کی صورت میں ہونے والے اخراجات اور زحمتوں سے وہ محفوظ ہے، دوسرے یہ ممالک دفاعی سامان کی خریداری کے مارکیٹ کی حیثیت سے ترقی کریں گے۔

اخوان اور حماس جن دو بڑی اسلامی تنظیموں سے تعلق کی سزا قطر کو دی جارہی ہے وہ اصل میں وہی طاقتیں ہیں جو کسی بھی وقت کسی بھی صورت میں اسرائیل کو چیلنج کرسکتی تھیں ، اس لئے ان دونوں طاقتوں کو مکمل طور پر ختم کرنے کیلئے یہ لازم ہے کہ ان کو سیاسی پناہ سے محروم کر دیا جائے۔ اخوان المسلمون اور حماس پر دہشت گردی کا الزام لگانے کو آنکھ بند کرکے قبول کرنے والے عرب ممالک یہ بھول جاتے ہیں کہ گریٹر اسرائیل کی تشکیل میں اب تک یہی طاقتیں رکاوٹ بنی رہی ہیں اور اگریہ رکاوٹیں نہ رہتیں تو یہ ساٹھ سال جو عرب ممالک نے سکون کی نیند سو کر گزارے ہیں ، انھیں میسر نہ آئے ہوتے اوروہ بھی فلسطین کے بے گھر لوگوں کی طرح دنیا بھر میں پناہ تلاش کر رہے ہوتے اس لئے کہ گریٹر اسرائیل کی حدیں مصر سے عراق تک اور شام سے حجاز تک کے علاقے کو نگلنے کا خواب دیکھے ہوئے ہیں ۔

سر زمین حجاز و حرم کو اسرائیلی توسیع پسندی کا چیلنج ہے اور خادم الحرمین اپنے حواریوں اور ہم خیالوں کے ساتھ ان طاقتوں کو جو اس راہ میں رکاوٹ ہیں دہشت گرد کہہ کر مطعون و ملعون قرار دے رہی ہیں ۔ یہ ملت ابراہیمی سے اعراض اور اس دین حنیف سے بغاوت ہے جس کا مرکز خانہ کعبہ کی صورت میں انھیں دیا گیا ہے اور یہ کون کرسکتا ہے اس کے بارے میں قرآن کہتا ہے:

’’کون ہے جو ملت ابراہیم سے نفرت کرے سوائے اس کے جس نے خود کو جہالت وحماقت میں مبتلا کرلیا ہو‘‘۔ (البقرۃ: 130)

حرم کی تولیت و نگرانی اور حجاج کی خدمت کا کام ظلم کو نیکی میں تبدیل نہیں کرسکتانہ یہ امت کے دفاع اور اس کے مفاد کے تحفظ کا بدل اور قائم مقام ہوسکتا ہے۔ نہ یہ ذمے داری کسی کو حق کی حمایت سے بے نیاز اور باطل کی طرف داری پر کفارہ بن سکتی ہے۔ نہ ہی یہ ذمہ داری جس کو مرتبہ تصور کیا جاتا ہے، کسی کو حق کی حمایت سے بے نیاز اور اللہ کے راستے میں جدوجہد کرنے سے بری نہیں کرسکتی، یہ روش تو ان لوگوں جیسی ہے جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے:

’’کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے جیسا ٹھہرا لیا ہے۔ اللہ کے نزدیک یہ دونوں برابر نہیں ہیں ‘‘۔

اس وقت حق اور باطل کے درمیان جنگ اپنے شباب پر ہے اور اللہ تعالیٰ یہ دیکھ رہا ہے اور دنیا بھی کہ کون حق کے ساتھ کھڑا ہے اور کون باطل کی حمایت میں سرگردان ہے۔ پس جو حق و باطل میں امتیاز ختم کر دے گا یا حق کی حمایت کو چھوڑ دے گا یا حق کی حمایت کے مقابلے میں باطل کا ساتھ دے گا وہ خود اپنی تباہی کا سامان کرے گا، خواہ خادم الحرمین ہو یا ہندستان کی سر زمین پر بسنے والا کوئی انسان۔ امت کیلئے بھی اور خود عرب حکمرانوں خصوصاً سعودی عرب کیلئے زیادہ مناسب اور شایانِ شان یہ بات تھی کہ وہ امت اور امت کے معمولی حصے کا بھی بوقت ضرورت دفاع کرتے اور اگر ایسا نہ کرپاتے تو کم از کم دشمنوں کی صفوں میں تو نہ کھڑے ہوتے۔ اس عمل سے انھیں اسلامی دنیا کی نفرت اور اپنے اقتدار کیلئے چیلنجز کے علاوہ اور کچھ حاصل ہوپانا شوار ہے۔

تبصرے بند ہیں۔