روہنگیا!

ڈاکٹر خالد مبشر

روہنگیا!

تم اس طرح مارے گئے

کاٹے گئے

میں چپ رہا

روہنگیا !بولو نہ کچھ

تم کو بھی کیوں چپ لگ گئی

کیوں اس طرح روٹھے ہو تم

بولو مرے روہنگیا!

میں کیا کروں روہنگیا!

مجھ سے میرے ابا بھی اب ناراض ہیں

ان کی لحد سے ہرگھڑی آواز آتی ہے مجھے

بیٹے! تمہیں کچھ کم سنی کی یاد بھی آتی نہیں ؟

بیٹے !تمہیں کچھ ابن قاسم بن کے جینے کی وصیت بھی نہیں ہے یاد کیا؟

بیٹے !تمہیں سترہ برس کے اس محمد ابن قاسم کی قسم

جس کو بہن کی عفت وعصمت نے للکارا تو اس نے وقت کی جبار قوت کو مٹاکر دم لیا

روہنگیا !تم اس طرح مارے گئے

کاٹے گئے

میں چپ رہا

میں کیا کروں روہنگیا!

اب تو مرے دادا میاں کی روح بھی شرمندہ ہے

میری ولادت پر مرے دادا نے خالد نام رکھاکس قدر ارمان سے اور شوق سے

سنتے ہوتم

خالد ہوں میں روہنگیا

پھر بھی مگر خاموش ہوں

مجھ میں بھلا خالد کی کچھ خو بو کہاں

روہنگیا !

تم مرگئے ، تم کٹ گئے

روہنگیا مائوں کی اور بہنوں کی عصمت لٹ گئی

میں چپ رہا

غیرت ہی میری مرگئی

روہنگیا!

 خالد نہیں ،بزدل ہوں میں

بزدل نہیں ، مردہ ہوں میں

روہنگیا!آئو جنازہ پڑھ بھی لو

مردہ ہوں میں ، مردہ ہوں میں ،مردہ ہوں میں

تبصرے بند ہیں۔