سیرتِ رسول  کی کرنیں

تحریر: حافظ محمد ادریس … ترتیب: عبدالعزیز

 صدق و سچائی: انسانی اخلاق و کردار کا تعین انسان کے گفتار و معاملات سے ہوتا ہے۔ جو انسان ہمیشہ سچ بولتا ہے، وہ فاتح اور کامیاب رہتا ہے۔ وقتی مشکلات کے باوجود صدق و سچائی، انسان کو نجات و عافیت کی منزل پہ لے جاتی ہے۔ جھوٹا آدمی وقتی طور پر کچھ فوائد حاصل کر بھی لے تو اس کا جھوٹ بالآخر اسے ہلاکت کے گڑھے میں لے ڈوبتا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’اَلصِّدْقُ یُنْجِیْ وَالکَذِبُ یُہْلِکُ‘‘ یعنی صدق نجات کا ذریعہ اور جھوٹ باعث ہلاکت ہے‘‘۔

  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر لحاظ سے انسان کامل تھے۔ آپؐ کی حیات طیبہ سراسر نور و ہدایت اور حسن وجمال کا مرقع تھی۔ آپؐ نے زندگی بھر کبھی جھوٹ نہیں بولا، حالانکہ جس معاشرے میں آپؐ نے آنکھ کھولی، اس کی بنیاد ہی جھوٹ، غلط بیانی اور دھوکہ دہی پر تھی۔ جھوٹ کو اگر چہ عیب جانا جاتا تھا مگر اس کا چلن اس قدر عام تھا کہ معیوب ہونے کے باوجود اسے انسان کی ذہانت و فطانت اور ہوشیاری و پُر کاری تصور کیا جانے لگا تھا۔ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے معاشرے میں آنکھ کھولنے کے باوجود اپنے دامن کو ہمیشہ اس آلودگی سے پاک صاف رکھا۔ بچپن اور لڑکپن میں بھی آپؐ کی یہ صفت اتنی معروف اور نمایاں ہوکر ضیا پاش ہوئی کہ معاشرے کا کوئی فرد نہ اس سے بے خبر رہا، نہ کبھی اس کا انکار اور نفی کرسکا۔ پوری قوم کے درمیان آپؐ عنفوانِ شباب ہی میں الصادق (یعنی سچا اور راست گو) کے لقب سے معروف ہوگئے تھے۔ آپؐ کی اس صفت کی بدولت بدترین مخالفتوں کے ادوار میں بھی آپؐ کا ستارہ چمکتا رہا۔

 چالیس سال کی عمر تک آپؐ پوری قوم کے درمیان بلا استثناء، سب سے معزز و محترم شخصیت تھے۔ جب آپؐ نے چالیس سال کی عمر میں اللہ کی طرف سے حکم ملنے پر اعلان نبوت کیا تو حالاک یکسر بدل گئے۔ پوری قوم آپؐ کی مخالفت میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ ہر قسم کا حربہ آپؐ کے خلاف استعمال کیا جانے لگا۔ کلفارہ جان کے دشمن بن گئے لیکن اس سارے عرصے میں آپؐ کی صداقت کا انکار کوئی نہ کرسکا۔ کوہ صفا کے مشہور خطبے میں آپؐ نے اپنا اصلی خطاب شروع کرنے سے پہلے لوگوں سے گواہی لی:’’ ہَلْ وَجَدْتُّمُوْنِیْ صَادِقاً اَمْ کَاذِباً‘‘  (کیا تم لوگوں نے مجھے سچا پایا ہے یا جھوٹا) تو مجمع بہ یک زبان پکار اٹھا کہ ہم نے آپ کو ہمیشہ راست گو پایا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اس گواہی کے باوجود اسی مجلس میں ابو لہب اور دیگر لوگوں نے بعد میں دعوتِ حق سے انکار کیا، رسول اللہ کو جھٹلایا اور نت نئے الزامات تراشے لیکن داعیِ حقؐ کے بارے میں ان کی وہ پہلی گواہی قولِ فیصل بن کر تاریخ کا حصہ بن گئی اور لوگوں کے ذہن میں ہمیشہ پیوست رہی۔ (تفصیل کیلئے دیکھئے ’تفہیم القرآن، ج 3، سورۃ الشعراء، حاشیہ 135)

  قریش مکہ میں آپؐ کا سب سے بڑا مخالف ابو جہل سمجھا جاتا ہے۔ وہ بھی آکو جھوٹا کہنے کی ہمت نہ کرسکا۔ ایک مرتبہ عرب کی ایک دوسری معروف شخصیت اخنس بن شریق نے ابوجہل سے پوچھا کہ تم جو (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو جھٹلاتے ہوئے تو کیا واقعی اسے جھوٹا سمجھتے ہو؟ جواب میں اس نے کہا بخدا، میں نہیں سمجھتا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) جھوٹ بولتا ہے، لیکن تمھیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ بنو ہاشم میں سے ہے اور ہم بنو مخزوم ہیں ۔ ہم ہمیشہ سے ان کے روایتی حریف اور مد مقابل ہیں ۔ مہمان نوازی سے لے کر جنگ آرائی اور جود و سخا سے لے کر شعر و خطابت تک ہر میدان میں ہم نے ان کا مقابلہ کیا ہے، اب اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو ہم اسے نبی مان کر اپنی برتری سے دست بردار ہوجائیں ۔ بخدا، ایسا نہیں ہوسکتا۔

 اللہ رب العالمین نے اسی واقعے کی جانب قرآن مجید میں کئی مقامات پر اشارہ کرکے آنحضورؐ کو حوصلہ دیا ہے۔ ارشاد باری ہے ’’اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم )! ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ، ان سے تمھیں رنج ہوتا ہے لیکن یہ لوگ تمھیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم در اصل اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں ‘‘ (سورۃ الانعام6:آیت 33)۔ حضرت علیؓ نے ایک روایت میں آنحضور ؐ کے ساتھ ابو جہل کے ایک براہ بھی ذکر کیا ہے، جس میں اس نے کہا تھا: ’’یا محمد انا لا نکذبک ولکن نکذب ماجئت بہ‘‘۔ اے محمدؐ! ہم تمھیں جھوٹا نہیں کہتے، البتہ تم جو چیز [قرآن]ہمارے پاس لائے ہو، ہم اسے جھٹلاتے ہیں ‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج 1، سورۃ الانعام، حاشیہ 21 میں تفصیل ملا حظہ فرمائیں )۔

آپؐ کے حق میں صداقت و امانت کی گواہی محض ابو جہل ہی نے نہیں دی بلکہ پوری قوم اس کی گواہ تھی۔ آپؐ کے بد ترین دشمنوں میں جن لوگوں کے نام آتے ہیں ، ان میں عتبہ بن ربیعہ اور نضر بن حارث، دو معروف، زیرک اور با اثر سردار تھے۔ عتبہ نے دارالندوہ میں اپنی تقاریر میں کئی مرتبہ اس بات کا اظہار کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) جھوٹا آدمی نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اس نے یہ بھی کہا کہ جو کلام وہ پیش کرتا ہے، اس جیسا کلام کسی انسان کے بس میں نہیں ۔

نضر بن حارث، وہ شخص ہے کہ جس نے اسلام کا راستہ روکنے کیلئے گانے بجانے اور رقص و موسیقی کی محفلیں منعقد کیں ، رستم و سہراب کے قصے کہانیوں پر مشتمل واقعات و اشعار کے ذریعے محفلیں سجائیں اور قرآن کی آواز کو لوگوں کے کانوں تک پہنچنے سے روکنے کیلئے شیطانی کلچر کے ذریعہ شور و ہنگامہ کھڑا کیا، اس نے بھی ایک مرتبہ قریش کی مجلس میں خطاب کرتے ہوئے برملا کہاکہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم سب سے زیادہ سچا انسان ہے، نہ وہ ساحر ہے نہ کاہن، نہ شاعر ہے نہ مجنون، اس کا مقابلہ کرنے کیلئے کوئی تدبیر سوچنی چاہئے، محض الزامات سے بات نہیں بنے گی۔ گویا یہ ایسا اعتراف تھا جو بدترین مخالف کی زبان سے برملا کیا گیا۔ (رحمۃ للعالمین، ج 1، ص59-60، مطبوعہ شیخ غلام علی اینڈ سنز)

 نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو جو ہدایات دیں ، ان میں راست بازی سب سے نمایاں ہے۔ خود آپؐ چونکہ اس کی بہترین مثال تھے، اس لئے اللہ رب العالمین نے آپ کو ایسا رعب عطا فرمایا تھا کہ بدترین دشمن بھی آپؐ کے سامنے آنکھیں جھکانے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ سیرت کا مشہور واقعہ ہے کہ ابو جہل نے کسی سے اونٹ خدیدے تھے اور طے شدہ سودے کے مطابق وہ ان کی قیمت ادا کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہا تھا۔ لوگوں نے ازراہِ مذاق اس شخص نے کہا کہ اپنی داد رسی کیلئے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس چلے جاؤ ۔

 کفا کا خیال تھا کہ ابو جہل آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو خوب جلی کٹی سنائے گا لیکن چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ جب آنحضورؐ اس اجنبی کو ساتھ لے کر رئیس قریش کے پاس پہنچے اور فرمایا کہ اس کی رقم اسے ادا کردو تو ابو جہل نے بلا حیت و حجت اس کی پوری رقم ادا کردی۔ سنت رسولؐ کے مطابق ہمیشہ سچ بولنے والے بندوں کو بھی اللہ کی طرف سے ایک خاص برہان حاصل ہوجاتی ہے، جو بدترین مخالفین پر بھی ان کا رعب اور دھاک قائم کردیتی ہے۔ (سیرت ابن ہشام، ج 1میں تفصیلات موجود ہیں )

  صدق و سچائی ایک اعلیٰ صفت ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، سیدھی اور سچی بات کیا کرو، اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے، بس وہی عظیم کامیابی کا مستحق ہے‘‘۔ (سورۃ الاحزاب، 33:آیات 70-71)

 ایک دوسرے مقام پر تمام اہل ایمان کو تقویٰ کی تلقین فرماتے ہوئے حکم دیا گیا: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کے ساتھی بن جاؤ‘‘۔ (سورۃ التوبہ9: آیت 119)

 ہم اس نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی امت ہیں ، جس نے سچائی کی تعلیم دی اور سچا بن کر ہر دوست اور دشمن سے اپنا سکہ منوایا۔ کسی کلمہ گو کیلئے جھوٹ بولنا ہر گز جائز نہیں ۔ سچ بولنا اور اس پر قائم رہنا شیوۂ ایمانی بھی ہے اور سچے رسولؐ کا سچا پیرو کار ہونے کا ثبوت بھی۔ آئیے ہم عہد کریں کہ ہمیشہ سچ بولیں گے۔ اس سے قبل ہم سے جو کوتاہیاں ہوئیں ، آئیے ہم سب اس پر اللہ سے توبہ کریں ۔ خود سچ پر قائم رہنے کے ساتھ ساتھ اپنے تمام اہل و عیال و وابستگان کو بھی اس کی تعلیم دینا، اس کی برکات سے آگاہ کرنا اور جھوٹ کی تباہ کاریوں سے متعارف کراکے اس سے اجتناب پر آمادہ و کار بند کرنا ہمارا فرض ہے۔ ان شاء اللہ ہمیں اس کے نتیجے میں خیر اور بھلائی ملے گی اور اللہ ہمیں ہر نقصان سے پناہ دے گا۔(جاری)

تبصرے بند ہیں۔