مدثراحمد
علامہ اقبال نے دنیاکی آخری خلافت خلافتِ عثمانیہ کے زوال کو لیکر بے حد افسردہ تھے، اس لئے انہوں نے بیشتر موقعوں پر سلطنت عثمانیہ کے تعلق سے اپنے اشعار درج کئے تھے۔ آج اُمت مسلمہ پھر ایک دفعہ اپنے آپ میں بد حال ہوتی جارہی ہے اور اس قوم میں نہ تاریخ کا احساس باقی رہانہ ہی اُن کے حال کے تعلق سے انہیں کوئی پرواہ ہے، مستقبل کے تعلق سے ہم مسلمانوں کے پاس کسی بھی طرح کی منصوبہ بندی نہیں ہے اس وجہ سے آج مسلمان پوری طرح سے بدحالی کاشکار ہورہے ہیں۔ تاریخ کے صفحات اُلٹ کر دیکھیں تو مسلمانوں کے زوال کے اسباب غیروں سے زیادہ خود اپنی لاپرواہیاں رہی ہیں۔
پچھلے کچھ دنوں سے ہندوستان بھر میں یہ خبریں سننے میں آرہی ہیں کہ اسلامک انویسٹمنٹ کے نام پر کروڑوں روپیوں کے گھوٹالے ہورہے ہیں اور ان گھوٹالوں میں مسلمان ہی مسلمانوں کو لوٹ رہے ہیں لیکن تعجب کی بات ہے کہ جس ملک میں مسلمانوں کو دیگر قوموں کے مقابلے میں نہایت غریب قوم ماناجاتاہے، پسماندہ طبقے میں شمار کیاجاتاہے وہی قوم کروڑوں روپیوں کے نقصان سے متاثر ہورہی ہے، سب سے بڑی بات یہ بھی ہے کہ قوم مسلم اسلامک انویسٹمنٹ کے نام پر لٹ رہی ہے اور مسلمان آسانی کے ساتھ فائدہ حاصل کرنے کیلئے دین کے حدودکو پامال کرتے ہوئے اپنے طریقے سے دینی قوانین کو تیار کرنے لگے ہیں۔ شرح سود کو فائدے کا نام دیا جارہا ہے، نقصان کو جھیلنے کیلئے تیارنہیں ہیں، باوجود اس بات کی بات دعویداری کی جارہی ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم اسلامک کمپنیوں میں اپنا سرمایہ لگا رہے ہیں۔ اندازے کے مطابق پچھلے ایک سال میں بنگلورومیں ہی مرگنال، ایمبیڈینٹ، اجمیرا اور ہیرا گولڈجیسی کمپنیاں مسلمانوں کے ہزاروں کروڑوں روپیوں کولوٹ کر فرار ہوچکی ہیں، مگر ہماری قوم اب بھی دھوکے میں رہ کر مختلف کمپنیوں میں سرمایہ داری کرنے کیلئے ایک پیر پر کھڑی ہوئی ہے۔
ہزاروں کروڑوں روپیوں کو لوٹنا کوئی معمولی بات نہیں ہے اس سے نہ صرف امت مسلمہ کی اقتصادی و معاشی حالت کمزور ہوئی ہے بلکہ کچھ مخصوص طبقوں کو فائدہ بھی پہنچایاگیا ہے، مثلاً ایمبیڈینٹ کمپنی نےمسلمانوں کے کروڑوں روپیوں کو جناردھن ریڈی جیسے سرمایہ داروں کے پاس پہنچائے جس سے جناردھن ریڈی کو فائدہ اور ایمبیڈینٹ کمپنی ہزاروں سرمایہ داروں کو نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ افسوس ہوتا ہے اُمت مسلمہ کی سوچ پر کہ جب کوئی اچھا کام کرنے کیلئے قدم اٹھاتا ہے اور اس اچھے کام کو انجام دینے کیلئے دوسروں سے مالی مدد مانگتا ہے اور اس مالی مددکے عوض میں منافع دینے کیلئے تیار ہوتا ہے تو اس پر کوئی بھروسہ نہیں کرتا، جب کہ راتوں رات پیدا ہونےوالی کمپنیوں کے دکھاوئے اور پبلیسٹی پر ہزاروں لاکھوں روپیوں کا سرمایہ لگا دیتے ہیں۔ نہ اس کمپنی والے باپ کوجانتے ہیں اور نہ ہی اس کی کوئی پہچان ہوتی ہے۔ محض چند سکوں کی خاطر لوگ اپنی زندگی بھرکی کمائیاں دھوکہ دینے والی کمپنیوں میں سرمایہ لگاتے ہیں اور کچھ ہی دنوں میں خود دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ پچھلے ایک سال تقریباً15 ہزار کروڑ روپیوں کے غبن کی بات سامنے آئی ہے اور یہ پیسہ کبھی کسی کو واپس نہیں ملے گا، یہ طئے شدہ بات ہے۔
اُمت مسلمہ اگر اپنے محنت کی کمائی کو اپنے ہی علاقوں میں منجمد یعنی اکٹھا کرکے چھوٹے پیمانے پر صحیح کسی نہ کسی کاروبار کو شروع کرنے کا سلسلہ قائم کرتی ہے تو اس سے نہ صرف وہ منافع حاصل کرسکتے ہیں بلکہ مستقبل کیلئے ان کے پاس ایک مضبوط کاروباری نظام ہوگا۔ پچھلے دنوں جو کچھ 15 ہزار کروڑ روپیوں دبائے گئے ہیں، ان 15 ہزار کروڑروپیوں میں ایک یونیورسٹی قائم کی جاسکتی ہے، مسلمانوں کا اپنا میڈیا ہائوز بنایا جاسکتا تھا، ریاست میں کم ازکم150 اسپتال مختلف علاقوں میں بنائے جاسکتے تھے، یہاں تک کہ بڑی بڑی کمپنیاں جیسی ریلائنس، باش، ایچ سی ایل، وپرو جیسی کمپنیوں کا قیام کیا جاسکتا تھا، جس سے لاکھوں روپیوں کا آمدنی بنتے بلکہ امت مسلمہ کے ہزاروں نوجوانوں کوروزگار بھی مل جاتا۔ لیکن یہاں پیسے لینے والے دینے والے دونوں ہی لالچی ہیں اور اسلام کے نام پر اسلامی قوانین کوپامال کرتے ہوئے اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مارہے ہیں۔
اس لین دین کے معاملے میں نہ صرف کروڑوں روپیوں کے گھوٹالے ہورہے ہیں بلکہ سینکڑوں لوگ خودکشی کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ جو لوگ دھوکے باز اسلامک انویسمنٹ کمپنیوں میں سرمایہ لگائے ہیں ان کی حالت پایلس کے مریض کے جیسی ہے جو برداشت بھی نہیں کرسکتے اور دکھا بھی نہیں سکتے۔ آج امت مسلمہ کو چاہیے کہ وہ شارٹ کٹ راستوں پر چلنے کے بجائے طویل راستے پر ہی چلیں، اس میں انہیں دیرہی سے صحیح منافع ضرورملے گا۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔