شاہ جی کو رعنا ایوب سے تو ڈر لگتا ہے مگر اسدالدین  اویسی سے نہیں لگتا؟

ڈاکٹر سلیم خان

بی جے پی کا یہ دعویٰ  کہ اس کو مسلمانوں کی ضرورت نہیں ہے ’انگور نہیں ملے تو کھٹے‘  کے مترادف ہے  کیونکہ  دوسروں سے اپنی ضرورت  پورا کروانے کا اختیار کسی کو نہیں ہے۔ مسلما ن چونکہ بی جے پی کو نہ  اب ووٹ دیتے ہیں  اور نہ  اس کی منفی  سوچ کے سبب آئندہ ہی   دیں گے اس لیے کمل والوں  کے پاس  کھسیانی بلی کی طرح  کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔ بی جے پی کے رہنماوں سے جب یہ  پوچھا  جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ٹکٹ کیوں نہیں دیتے تو ان کی جانب سے یہ  جواب  نہیں ملتا کہ مسلمان اچھے نہیں ہیں  بلکہ وہ کہتے ہیں  اگرانہیں  ٹکٹ دیاجائے تب  بھی تو وہ  ان کے نشان پر  کامیاب نہیں ہوں گے۔ یہ ایک سچائی ہے کیونکہ قومِ مسلم  کمل دھاری ہندو یا مسلمان  میں تفریق و امتیاز نہیں کرتی اور دونوں مسترد کردیتی ہے  اس لیے کسی ہندو  کارکن کو ناراض  کرکے  مسلم کو ٹکٹ دینے سے کیا حاصل ؟ یہ نہایت معقول دلیل ہے اس لیے مسلمانوں کو یہ شکایت کرنے کے بجائے کہ  بی جے پی کا مسلم رکن پارلیمان یا اسمبلی اور وزیر کیوں نہیں ہے اس بات پر فخر کرنا چاہیے کہ ہم  میں  کالی بھیڑ نہیں یا نہیں کے برابر ہے ۔

بی جے پی کے نام نہاد چانکیہ اور مرکزی وزیر داخلہ نے ابھی حال میں  نیوز 18؍ کو ایک طویل انٹرویو میں مسلم نمائندگی کے حوالے سے یہی کہا  کہ یہ کوئی سیاسی مجبوری نہیں بلکہ سیاسی اخلاقیات کا مسئلہ ہے۔امیت شاہ کے زبان سے اخلاق کا لفظ کچھ عجیب تو لگا لیکن جب انہوں نے وضاحت کی تو ساری خوش فہمی دور ہوگئی۔ ایک  گھاگ بنیا کی مانند وہ    بولے’’الیکشن میں یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ ووٹ کون دیتا ہے‘‘۔ مطلب صاف ہے جو ووٹ نہ دے اسے ٹکٹ کیوں دیں ؟ اور پھر مجبوری کا انکار کرنے والے مرکزی وزیر نے بلاتکلف  اپنی مجبوری کا اظہار فرمادیا۔ انہوں نے کہا، ’’ایک پارٹی ہونے کے ناطے الیکشن جیتنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ حکومت آئین کی بنیاد پر چلتی ہے اور حکومت کو عوام منتخب کرتی ہے۔ فیصلہ ووٹروں کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور سیاسی نمائندگی بھی اسی سے وابستہ ہے۔‘‘امیت شاہ کا یہ   اعتراف سیکولر جمہوری نظام کی اس کمزوری کو بے نقاب کرتا ہے جو اقلیت حاشیے پر بھیجتی ہے۔

وزیر داخلہ نے  آگے چل کر   لیپا پوتی کے لیےمسلمانوں کے تعلق سے   یہ بھی کہا کہ :’’ حکومت اور ایک ذمہ دار سیاسی جماعت ہونے کی حیثیت سے جو رشتہ (مسلمانوں سے)  ہونا چاہیے وہی رشتہ ہے۔ الیکشن جیتنے کے بعد اگر ان کی فلاح و بہبود میں کوئی تفریق ہو تب الزام لگایا جاسکتا ہے‘‘۔ وزیر داخلہ کے اس کھوکھلے دعویٰ کا پول کھولنے کے لیے   پچھلے آٹھ سالوں میں  امت ِمسلمہ کے ساتھ ہونے والے  بھید بھاو پر عالمی سطح  کی  تنقید کافی  ہے۔مسلمانوں کے خلاف مودی سرکار کے بغض و عناد کی تازہ مثال رعنا ایوب  پر سرکاری کارروائی ہے۔ ایک نامی گرامی  صحافی  پر  ‘ہندو آئی ٹی سیل‘ نامی غیر معروف  این جی او نے کورونا وبا سے متاثرین کی مدد کے لیے  جمع کی جانے والی رقم  میں خرد برد کا الزام لگاتی ہے اور اس کے بعد  بدنامِ زمانہ حکومتی ادارے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ  حرکت میں آجاتاہےنیز رعنا ایوب کے  بینک میں جمع 1.77 کروڑ روپے کا اثاثہ منجمد کر دیا جاتا ہے۔ نواب ملک کی مانند  رعنا ایوب  پر بھی منی لانڈرنگ اور دیگر الزامات  لگائے جاتے  ہیں۔

رعنا ایوب نے اس  مذموم حرکت  کو  انہیں بدنام کرنے کی منصوبہ بند سازش کا حصہ قرار دیا  ہے۔مودی سرکار کو یہ توقع نہیں تھی کہ  اس زیادتی کے بعد ملک کے طول و عرض سے  صحافیوں کی متعدد تنظیمیں رعنا ایوب کے ساتھ یکجہتی کی خاطر میدان عمل میں کود پڑیں گی اور  ان کو ہراساں کرنے کی حکومتی کارروائیوں پر اپنا احتجاج درج کرائیں گی ۔  مودی سرکار کو نہیں معلوم کہ رعنا ایوب فی الحال امریکہ میں مقیم ہیں اور عالمی شہریت یافتہ  اخبارات میں ان کے مضامین شائع ہوتے ہیں ۔ ٹائم میگزین نے شاہین باغ کی دبنگ دادی بلقیس بانو کا تعارف کرانے کی خاطر انہیں کا انتخاب کیا تھا اس لیے یہ  معاملہ صرف قومی سطح تک محدود نہیں رہا بلکہ حکومت ہند کی عالمی بدنامی کا سبب بن گیا۔ صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم ‘کمیٹی فار پروٹیکشن آف جرنلسٹس‘ نے رعنا ایوب کی حمایت کرتے ہوئے یہ انکشاف بھی کیا کہ ہندوستان میں  گزشتہ سال  کم از کم چار صحافیوں کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے کےسبب  قتل کر دیا گیا  نیز  کم از کم آٹھ صحافی  جیل صعوبت برداشت کررہے ہیں۔ ویسے لکھیم پور کھیری ریاستی وزیر داخلہ کے بیٹے آشیش مشرا نے ایک صحافی کو اپنی گاڑی سے کچلنے کا کارنامہ بھی انجام دے چکا ہے۔   جو سرکار اکثریتی فرقہ کے صحافیوں کا گلا گھونٹتی ہے اس سے اقلیتی طبقہ کاصحافی   عدل و مساوات کی توقع کیسے کرسکتاہے؟ اس تبصرے میں رعنا ایوب کے ملک کو خیرباد کہہ دینے کا راز بھی پوشیدہ ہے۔

مودی سرکار کی رسوائی میں چار چاند لگاتے ہوئےبین الاقومی شہرت یافتہ اخبار واشنگٹن پوسٹ نے گزشتہ دنوں  ‘ ہندوستان  میں آزاد پریس حملے کی زد میں‘ کے عنوان سے ایک  پورے صفحے کا مضمون شائع کرکے لکھا کہ ، ”رعنا ایوب کو تقریبا ً ہر روز تشدد اور قتل کر دیے جانے کے خطرات کا سامنا ہے۔‘‘ اس تحریر  میں یہ بھی درج تھا  کہ رعنا ایوب کو تعصب پر مبنی تفتیش کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور آن لائن ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ان کے فلاحی کاموں کی وجہ سے ان کا بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیا گیا ہے۔واشنگٹن پوسٹ نے ”وی اسٹینڈ ود رعنا‘‘ ہیش ٹیگ کے ساتھ لکھا، ”صحافیوں کو قانونی کارروائیوں اور بدنام کرنے کے لیے چلائی جانے والی مہم سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ یہ ایک جانب حکومت ہند کو پھٹکار تو دوسری طرف رعنا ایوب کےلیے  خراجِ عقیدت  ہے۔ ایسی منفرد حمایت اب تک شاید ہی کسی ہندوستانی صحافی کا مقدر بنی ہو۔ ایک طرف ہندوستان کا گودی میڈیا اخلاقی پستیوں کی انتہا کوپہنچ گیا ہے اور ہر انصاف پسند شہری اس کو برا بھلا کہہ رہا ہے اور دوسری جانب رعنا ایوب جیسی حوصلہ مند صحافیہ کو حاصل ہونے والا یہ  قابلِ قدر اعزاز ہے۔

رعنا ایوب کو  ملنے والی عزت و توقیر بہ آسانی سے کسی کا مقدر نہیں بنتی ۔ انہوں نے اپنی جان پر کھیل کر  گجرات فسادات اور فرضی اِنکاونٹرس  کے حوالے سے آٹھ ماہ کا ایک اسٹنگ آپریشن  کیا اور  مشاہدات  کو شواہد سمیت  اپنی مشہور تصنیف  ‘گجرات فائلز‘ شائع کردیا۔ اس کتاب میں نریندر مودی اور امیت شاہ کی فرقہ پرستی کو پوری طرح بے نقاب کردیا گیاہے ۔ یہی وجہ  ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق  کی کونسل نے  اپنے ایک بیان میں  رعنا ایوب کی  ‘عدالتی ہراسانی ‘کو فوراً بند کرنے کا مطالبہ کرکے مودی سرکار کو کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ  ”ایک تحقیقی صحافی اور انسانی حقوق کی کارکن رعنا ایوب دائیں بازو کے ہندو قوم پرست تنظیموں کی طرف سے آن لائن حملوں اور دھمکیوں کا نشانہ بن رہی ہیں۔ ان پر یہ حملے ملک میں مسلم اقلیتوں کو متاثر کرنے والے موضوعات پر قلم اٹھانے، کورونا وبا سے نمٹنے میں ناکامی پر حکومت پر نکتہ چینی کرنے اور حال ہی میں حجاب پر پابندی جیسے معاملات پر  تبصرہ کرنےکی وجہ سے ہو رہے ہیں۔انہیں جان سے مار دینے تک کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔‘‘   اقوام متحدہ کی طرف سے جاری ہونے والا یہ بیان امیت شاہ کو آئینہ دکھانے کے لیے کافی ہے۔

مسلمانوں کے حوالے سے امیت شاہ بھی   کنفیوژن  میں مبتلاء ہیں اس لیے ان سے  نت نئی  حماقتیں سرزد ہوتی رہتی ہیں۔  پہلے تو انہوں  ایم آئی ایم کے صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی پر حملہ کروایا تاکہ مسلمان ان کی جانب مائل ہوں اور ووٹ تقسیم ہوجائے ۔  ایوان پارلیمان میں اویسی کو زیڈ پلس سیکیورٹی پیشکش کردی تاکہ ان کی اہمیت میں اضافہ ہوجائے لیکن اسے ٹھکرا دیا گیا اور وہ بھی  قومی میڈیا میں تعریف و توصیف کا سبب بنا حالانکہ ان کو حاصل  وائی پلس سیکیورٹی  اور زیڈ پلس  میں بہت بڑا فرق نہیں ہے۔ اسدالدین  اویسی پر حملے نے مسلمانوں کے اندر عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ کیا اوروہ  بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی خاطر سماجوادی پارٹی کی جانب مائل ہوگئے کیونکہ وہی اس کام کو کرنے کی صلاحیت اپنے اندر رکھتی ہے۔

امیت شاہ نے اس داوں کی ناکامی  کے  بعد  بی ایس پی کو بڑے پیمانے پر مسلمان امیدواروں کو ٹکٹ دینے کا مشورہ دیا تاکہ  پچھلی مرتبہ کی طرح مسلمان ووٹ ہاتھی اور سائیکل میں بنٹ جائے لیکن  مایاوتی ڈھیلی  ڈھالی تشہیری مہم مسلمانوں کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ یہ دیکھ کر امیت شاہ نے از خود مایا وتی کی تعریف کرکے اپنے پیر پر کلہاڑی مار لی۔  مسلم سماج میں پہلے ہی یہ  افواہ گردش کر رہی تھی کہ بی ایس پی دراصل بی جے پی کی بی  ٹیم ہے۔ اتفاق سے دونوں کے نام پہلا حرف ’بی ‘ ہے اس  لیے انتخاب کے بعد اگر ضرورت پڑے تو مایا وتی  بی بی  کمل کی جانب جھک جائیں گی۔ اس طرح بی جے پی خلاف  ہاتھی پر لگنے والی مہر کمل کے کھاتے میں  چلی جائے گی ۔  ایسے میں امیت شاہ کو چاہیے تھا کہ اس خیال کی تردید کے لیے مایاوتی کی پرزور مخالفت کرتے لیکن الٹا انہوں نے مایا وتی کی تعریف کرکے مسلمانوں کو ہاتھی سے برگشتہ کردیا ۔  بی جے پی کے ذریعہ  سماجوادی پارٹی کی  مخالفت میں  روزافزوں  شدت نے  بھی بغض معاویہ  میں مسلمان رائے دہندگان کو سائیکل  کا حامی بنادیا ہے۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے یوپی کے مسلمانوں نے سائیکل پر بی جے پی کی ارتھی  کوشمشان گھاٹ تک پہنچانے ارادہ کرلیا ہے۔ اس کوشش میں  ان کی  کامیابی  کا پتہ10؍ مارچ کو ہی  چلے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔