شعبہ عربی و فارسی الہ آباد یونیورسٹی میں دوروزہ بین الاقوامی سیمینار کاشاندار انعقاد

 زینت رضا

’’ تاریخ کی کتابوں میں درج حقائق کا جائزہ اگر معاصر سفرناموں کی روشنی میں لیا جائے تو بہت سے حقائق خود بخود سامنے آ جائیں گے۔ لہٰذاان پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے فرمایا کہ تکنیکی سہولیات کی فراہمی نے آج سفرنامہ کو مسافرنامے میں تبدیل کر دیا ہے۔ ‘‘  یہ جملے پروفیسر ارتضیٰ کریم کے تھے وہ شعبہ عربی و فارسی الہ آباد یونیورسٹی میں دوروزہ بین الاقوامی سیمینار،کے افتتاحی اجلاس میں صدارتی خطبہ دے رہے تھے۔

پروفیسر ارتضیٰ کریم نے خواہش ظاہرکی کہ اس سیمینار میں پڑھے جانے والے مقالات کتابی شکل میں شائع ہوں تاکہ زیادہ لوگ مستفید ہو سکیں ۔ انھوں نے مطالعہ کی عادت ڈالنے پر بھی زور دیا۔

پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کلیدی خطبہ پیش کیا ۔ جس میں انھوں نے سفرناموں پر مختلف جہات سے روشنی ڈالتے اس بات پر زور دیا کہ ان کی قرأت میں محتاط رہنے کی  ضرورت ہے کیوں کہ بعض اوقات ان میں جھوٹی اطلاعات بھی شامل ہوتی ہیں ۔ انھوں نے سفرنامہ ناصر خسرو،اخبار الہند والسین وغیرہ کا ذکر ان کی ادبی و سماجی اہمیت کے اعتبار سے بطور خاص کیا۔

  مہمان خصوصی آقای حجت اللہ عابدی نے سفرنامہ لکھنے والوں کی جاں فشانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان لوگوں کی تحریریں سفر کی صعوبتوں سے چھن کر نکلتی ہیں ۔ انھوں نے وہ اطلاع فراہم کی ہے جن کا انھوں نے بچشم خود مشاہدہ کیا ہے۔ لہٰذا ان پر اعتبار کی گنجائش زیادہ ہے۔ ہاں ایک بات اور ہے کہ ’جہاندیدہ بسیار گوید دروغ‘یعنی جس نے جتنی زیادہ دنیا دیکھی اتنا زیادہ وہ جھوٹ بولتا ہے۔ یہاں تحقیق کی گنجائش بڑھ جاتی ہے۔ انھوں نے اپنی تقریر فارسی زبان میں کی جس کا خلاصہ پروفیسر آذر می دخت صفوی نے اردو میں سامعین کے لئے پیش کیا۔

 پروفیسر کے۔ ایس۔ مشرا،ڈین فیکلٹی آف آرٹس نے اچھی اردو میں اپنی تقریر پیش کر سامعین کو حیرت میں ڈال دیا۔ انھوں نے کہا کہ سفرنامے آنکھوں دیکھی حقیقت ہیں ،اسی لئے وہ تاریخ سے الگ ہیں ۔ پروفیسر آذرمی دخت صفوی نے انیسویں صدی کے ایک سفرنامے کے حوالے سے دو تہذیبوں کی دلچسپ سماجی داستان بیان کی جس میں مصنف نے عورتوں کے مسائل پر بھی گفتگو کی ہے۔

 جلسہ کا آغاز شعبہ کے طالب علم محمد قاسم کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ اس کے بعد صدر شعبہ ڈاکٹر صالحہ رشید نے تمام مہمانوں کا استقبال کیا،جن میں صدر نشین حضرات کے علاوہ پورے ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیوں سے شرکت کر رہے مندوبین پروفیسر اقبال حسین ، ای۔ ایف۔ ایل ۔ یو۔ حیدرآباد، پروفیسر عائشہ رئیس ،برکت اللہ یونیورسٹی ، بھوپال، پروفیسر وجیہ الدین، ایم۔ ایس۔ یونیورسٹی بڑودہ، پروفیسرعراق رضا زیدی ،جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی، پروفیسر حبیب اللہ خان ،جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی، پروفیسر بلقیس فاطمہ حسینی، دہلی یونیورسٹی، پروفیسر عمر کمال الدین، لکھنئو یونیورسٹی ، پروفیسر مسعود عالم فلاحی، اردو عربی فارسی چشتی یونیورسٹی ، لکھنئو، پروفیسر عید محمد انصاری ، بی ۔ آر ۔ اے۔ یونیورسٹی ،مظفر پور، پروفیسر عابد حسین ، پٹنہ یونیورسٹی، ڈاکٹر حسنین اختر ،ڈاکٹر اکرم، ڈاکٹر زر نگار،ڈاکٹر مہتاب جہان،دہلی یونیورسٹی، ڈاکٹر فوزان احمد، جامعہ ملیہ اسلامیہ، ڈاکٹر عفت جے۔ این۔ یو۔ ڈاکٹر قمر عالم ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، ڈاکٹر سید غلام نبی، لکھنئو یونیورسٹی، ڈاکٹر اسلم جمشید پوری ،میرٹھ یونیور سٹی، ڈاکٹر افتخار احمد ،کلکتہ یونیورسٹی، ڈاکٹر محمود فیاض، ڈاکٹر جمیل الرحمٰن ،ذاکر حسین دہلی کالج،ڈاکٹر ممتاز احمد ،جمّوں یونیورسٹی،الہ آباد یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کے اساتذہ، طلبا اورشہر کی معزز شخصیات شامل رہیں ۔ پروفیسر عبد العلی نے موضوع کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ بعض اوقات سفرنامے اطلاع فراہم کرنے میں تاریخ سے سبقت لے جاتے ہیں ۔ اس ضمن میں انھوں نے سلیمان تاجر، ابن خرداز بہ، ابن حوقل وغیرہ کا نام لیا۔

  افتتاحی اجلاس کا خاتمہ صدر شعبہ کے اظہار تشکر پر ہوا۔ ظہرانے کے فوراً بعد تکنیکی سشن شروع ہو گئے۔ عربی کے سشن نیو اکیڈمک بلڈنگ کے ہال میں اور فارسی کے سشن شعبے میں چلائے گئے۔ جس میں عربی و فارسی کے علاوہ اردو اور انگریزی میں بھی مقالات پیش کئے گئے۔ عربی اجلاس کی تفصیل حسب ذیل ہے   ؎

 پہلی نشست کی صدارت  پروفیسر عبد العلی ،سابق چیر مین ،شعبہ اسلامک اسٹڈیز ،جامعہ ملیہ اسلامیہ،  اور نظامت ڈاکٹر محمود مرزا نے کی ۔ اس نشست میں پڑھے گئے چند اہم مقالات میں ؛پروفیسر اقبال حسین نے فیض فرح کا سفر نامہ کے موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ پیش کیا، دوسرا مقالہ پروفیسر حبیب اللہ خان نے سفر حج کو تاریخ کے اہم مصادر کے موضوع پر پیش کیا جب کہ ڈاکٹر حسنین اختر صاحب نے  عرب سیاحوں کی نظر میں ہندوستان کی تصویر کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا۔

 دوسرے دن کی پہلی نشست کی صدارت پروفیسر حبیب اللہ خان  جب کہ نظامت ڈاکٹر محمد نعیم صدیقی  نے کی اس نشست کے اہم مقالات میں ڈاکٹر فوزان احمد جنہوں نے عربی سفر نامے میں ہندوستان کی تصویر کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا جب کہ ڈاکٹر محمود مرزا نے شبلی نعمانی کے مصر وشام اور قسطنطنیہ کی تصویر ان کی کتاب کے آینہ میں پیش کی۔

عربی کے تیسرے تکنیکی سشن کی صدارت پروفیسر عائشہ کمال اور ڈاکٹر حسنین اختر نے انجام دی اور نظامت ڈاکٹر عبد الرحمٰن نے کی ۔ اس نشست کے اہم مقالات میں ڈاکٹر صدیقہ جابر جنھوں نے انڈونیشیا کا مفصل تعارف علی طنطاوی کی کتاب کے حوالے سے کیا، جب کہ ڈاکٹر زرنگار نے انیس منصور کے سفرنامے پر روشنی ڈالی ۔

چوتھے اجلاس کی صدارت پروفیسر مسعود عالم فلاحی اور ڈاکٹر فوزان احمد سنے کی  اور نظامت ڈاکٹر محمد نفیس نے انجام دی اس نشست میں مختلف یونیورسٹی سے آئے ریسرچ اسکالروں نے اپنے مقالے پیش کئے۔ عربی سشن میں کل چوبیس مقالے پڑھے گئے۔

 فارسی تکنیکی اجلاس دو پہلے دن ہوئے اور تین اجلاس دوسرے دن،جن میں کل ملا کر تیس مقالات پیش کئے گئے۔

 پہلے روز کی اول نشست جس کی صدارت پروفیسر آذرمی دخت صفوی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر قمر عالم نے انجام دیئے۔ اس نشست میں پروفیسر بلقیس فاطمہ حسینی ، پروفیسر عمر کمال الدین  اور پروفیسر عراق رضا زیدی وغیرہ نے اپنے ذی قیمت مقالات پیش کئے اور مختلف عہد میں لکھے گئے سفرناموں کے سلسلے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ صدارت فرما رہی ُروفیسر آذر می دخت صفوی نے تمام مقالے سننے کے بعد ان پر سیر حاصل گفتگو کی ۔

  اس دن کی دوسری نشست میں صدارت پروفیسر شریف حسین قاسمی نے فرمائی اور نظامت ڈاکٹرسید غلام نبی نے انجام دی جس میں ڈاکٹر شبیب انور علوی ،ڈاکٹر تنویر حسن ،ڈاکٹر جمیل الرحمٰن اور رفعت مہدی رضوی وغیرہ نے مشرق و مغرب میں مرتب کئے جانے والے سفرناموں میں سے کئی اہم سفر ناموں کی طرف سامعین کی توجہ مبذول کرائی۔

  دوسرے دن فارسی کے تیسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر عید محمد انصاری اور نظامت ڈاکٹر افتخار احمد نے کی ۔ اس نشست میں پانچ اہم مقالے پیش کئے گئے۔ دوسرے روز کی اول نشست کی صدارت پروفیسر عید محمد انصاری اور نظامت  ڈاکٹر افتخار احمد نے کی اس نشست  کے اہم مقالہ خوانوں میں ڈاکٹر عابد حسین ، ڈاکٹر غلام نبی ،ڈاکٹر قمر عالم ، ڈاکٹر نیلوفر وغیرہ نے اپنے مقالات پیش کئے ، جن میں مقالہ نگاروں نے ہندوستان اور بیرونی ممالک میں ترتیب دئے جانے والے سفرناموں میں پیش کی گئی سیاسی ،سماجی، جغرافیائی حالات پر سیر حاصل گفتگو کی اور کئی اہم معلومات  بہم پہونچائیں جو تاریخی نکتہ نظر سے توجہ طلب ہیں ۔

چوتھی نشست میں ڈاکٹر عابد حسین نے بحیثیت صدر اور ڈاکٹر مہتاب جہاں نے نظامت کے فرائض کو انجام دیا، اس میں پروفیسر عبدالقادر جعفری،پروفیسراسلم جمشید پوری ، ڈاکٹر افتخار احمد نے اپنے مقالات پیش کئے اور خصوصی طور پر اس طرف توجہ مبذول کرائی کہ ہندوستان میں لکھے جانے والے فارسی سفر نامے ہمیشہ سے ہی محققین اور دانشوران ادب کی توجہ کا مرکز رہے ہیں اور ان ہی سفر ناموں کی وجہ سے قدیم زمانے کے ہندوستان اور اس کے مختلف علاقوں کے بارے میں اہم معلومات حاصل ہوتی ہیں ۔

 اس دوروزہ سیمینار کی آخری نشست کی صدارت ڈاکٹر جمیل الرحمٰن اور نظامت ڈاکٹر نیلوفر حفیظ نے کی ۔ اس میں ڈاکٹر مہتاب جہاں ،ڈاکٹر فرح ہاشم ،ڈاکٹر ثنا ابصار،ڈاکٹر عابدہ خاتون،غزالہ حفیظ،تحسین بانواور انور صفی وغیرہ نے اپنے اپنے مقالات پیش کئے۔ جن میں سفر ناموں کے مختلف پہلوئوں پر گفتگو کی گئی۔

تکنیکی اجلاس ختم ہو جانے کے بعد تمام شرکاء اختتامیہ جلسے میں شریک ہوئے۔ یہ جلسہ نیو اکیدمک بلاک کے ہال میں منعقد کیا گیا۔ پروفیسرشریف حسین قاسمی ، پروفیسر آذر می دخت صفوی ، پروفیسر حبیب اللہ خان ، ڈاکٹرصالحہ رشید،صدر شعبہ عربی و فارسی ڈائس پر موجود رہے جب کہ ڈاکٹر محمود مرزا نے اس جلسہ کی نظامت کی۔ اس میں سیمینار میں پڑھے جانے والے مقالات پر تمام شرکاء کے ساتھ گفتگو ہوئی۔ مندوبین نے اپنی رائے پیش کیں ساتھ ہی طلباء کے سوالوں پر غور کیا گیا۔ کو پیش کیا۔ اس جلسہ میں ڈاکٹر اسلم جمشید پوری ،ڈاکٹر مہتاب جہان اور صبا ابصار کے مقالوں پر ان کی مختلف نوعیت کا ہونے کے سبب پسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔ مختلف ممالک کے سفر نامہ نویسوں کے حوالے سے دلچسپ باتیں نکل کر آئیں جن میں ہوین سانگ کا بھی ذکر کیا گیا ۔ اس سشن میں کئی سوالات بھی قائم ہوئے،مثلاًسفرنامہ ادب کی صنف میں شامل ہے؟سفرناموں میں سفرناہ نگارکی موجودگی کس حد تک ہو؟ وغیرہ۔ اس جلسہ میں بھی کثیر تعداد میں طلبا  اور دیگر حضرات شامل رہے۔

تبصرے بند ہیں۔