اسلام کا قانون صحافت: تحفظِ انسان اور انسانیت کا ضامن

ڈاکٹر سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی

        اپنے افکار و خیالات احساسات و جذبات اور ما فی الضمیر سے دوسروں کو واقف کروانا اور دوسروں کے حالات و کوائف سے آگاہ رہنا انسان کی بنیادی خواہش ہوتی ہے جس کی تکمیل صحافت کا بنیادی مقصد ہوتا ہے۔ کسی بھی چیز سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے اس کا استعمال اصول و ضوابط کے تحت کیا جائے، صحافت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اسلامی تعلیمات میں انسانی زندگی کے تمام شعبہ ہائے حیات بشمول صحافت کے لیے رہبری کا سبق موجود ہے جو ایک طرف فطرت انسانی کے عین مطابق اور عقل سلیم کے نزدیک ہر اعتبار سے قابل تسلیم ہے تو دوسری طرف انسان کو قلبی، ذہنی، فکری، اعتقادی اور روحانی تاریکیوں سے بچاتا ہے۔ اسلامی قوانین میں حدود و قیود کی رعایت اور اصول و ضوابط کی پاسداری و پابندی کو بڑی اہمیت دی گئی ہے جو تحفظ انسان اور انسانیت کی ضامن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام حزب اختلاف کے افکار و خیالات کا احترام کرنے اور مخالفین سے بہترین انداز میں بات چیت کرنے کی تلقین کرتا ہے لیکن آج کل جو ٹی وی پر جو مباحث ہوتے ہیں انہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ہم کسی اکھاڑے میں لڑنے والوں کا مشاہدہ کررہے ہیں جس سے انسان اور انسانیت شرمسار ہورہی ہے۔

 پچھلے زمانے پر ٹی وی پر سائنس اور ٹکنالوجی، فن وثقافت، تعلیم، کھیل، ماحولیات، سیاسیات، حکومتی اسکیمات و اعلانات، طرز زندگی سے متعلق مختلف پروگرام نشر کیے جاتے تھے لیکن آج ایسے لگتا ہے کہ مطبوعہ (پرنٹ) و برقی (الکٹرانک) میڈیا کی اکثریت فلاح عامہ و قومی مفادات سے سے متعلق معلومات فراہم کرنے یا واقعات کے حقائق و معاشرتی اقدار کی ترجمانی کرنے، تعمیر قوم و وطن کی غرض سے صحیح اطلاعات پہنچانے، فرد و فکر کی حریت کو یقینی بنانے کے بجائے مخصوص سرمایہ داروں، اہل اقتدار کو خوش کرنے کے لیے چنندہ موضوعات پر بحث و مباحثہ کرواکر ٹی۔ وی سیٹ کے گرد جمع ہونے والی عوام الناس کا قیمتی وقت ضائع کررہی ہے جس کی وجہ سے معاشرہ اور طرز معاشرت میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی سطح سے لیکر عالمی سطح تک صحافت جیسے مقدس پیشہ کو Lapdog Media یا Lapdog Journalism کا نام دیا جارہا ہے کیونکہ موجودہ دور میں صحافت ایک مشن کے بجائے صنعت کا درجہ اختیار کرگئی ہے اور صحافتی ضابطہ اخلاق کتابوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو ایسے متعصب اور مفاد پرست صحافیوں پر ’’لھو الحدیث‘‘ کے قرآنی الفاظ صد فیصد منطبق ہوتے ہیں چونکہ یہ بھی اپنے حقیر مفادات کی تکمیل میں اس قدر مشغول و مصروف ہوگیے ہیں کہ وہ عوامی فلاح و بہبود سے تعلق رکھنے والی تلخ حقیقتوں اور سنگین ذمہ داریوں سے یکسر غافل ہوچکے ہیں۔

مسلمانوں کو بتایا گیا کہ شرفاء کی کردارکشی اور فواحش و منکرات کو فروغ دینے والی زرد صحافت دنیا میں وبال اور عقبی میں مواخذہ کا سبب بنتی ہے چونکہ اللہ تعالی انسان کے تمام اقوال و افعال، حرکات و سکنات، افکار و خیالات حتی کہ نیتوں سے بھی واقف ہے۔ اسی لیے دین اسلام اہل قلم سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ کسی حاکم یا اہل ثروت سے متاثر ہوئے بغیر عوام کے حق میں اور ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں۔ ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنے کو افضل ترین جہاد کہا گیا ہے۔ کاش آج کی صحافت اس بنیادی اصول پر کاربند ہوتی تو اسے Lapdog Journalism کے نام کی ذلت نہ اٹھانی پڑتی اور نہ ہی مصلحت بینی کے سبب حالات سے سمجھوتہ کرنے والے صحافیوں کو عوام کے غیض و غضب کا شکار ہونا پڑتا۔

مسلمانوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے عوام اور ملک کو بچانے کے لیے متعصب اور فتنہ پردازی جیسے ناتلافی جرم کا ارتکاب کرنے والی صحافت اور بعض سفلۂ مزاج صحافیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرناہمارا مذہبی فریضہ ہے چونکہ قرآن مجید نے مسلمانوں کو ظلم و ستم برداشت کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ علاوہ ازیں دین اسلام مسلمانوں کو لسانی، قومی، صوبائی اور جغرافیائی عصبیتوں سے منع فرمایا ہے اور یہاں تک کہا گیا کہ جو عصبیت کی دعوت دے وہ ہم میں سے نہیں۔ صحافت انسانی زندگی کا ایک انتہائی اہم، سنجیدہ، حساس اور مقدس پیشہ ہے جس کا بنیادی مقصد انسانی خدمت اور عوام کی ذہنی تربیت ہے۔

کوئی ذی شعور انسان اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ معاشرے سے برائیوں اور خرابیوں کو ختم کرنے، اقوام کی دوریاں مٹانے، افکار کو منظم کرنے، پست ہمت قوموں کو بلندیٔ فکر اور انسانی ذہن کو نئے افکار دینے میں صحافت کا اہم کردار ہوتا ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب صحافت اصول و آداب اور اعلی اخلاقی اقدار پر موقوف ہو ورنہ بے تکان اور بے لگام صحافت معاشرے کو بے شمار قسم کی برائیوں میں مبتلا کرنے، طبقاتی کشمکش کا شکار بنانے، ذہنی غلامی میں جکڑنے، فرقہ وارانہ آگ، مذہبی منافرت اور ثقافتی یلغارمیں جھونکنے کا اہم ذریعہ بن جاتا ہے چونکہ صحافت عمارتوں کی حدود اربعہ اور علاقوں کی قیود سے آزاد ہوتی ہے اسی لیے عوام الناس کے ذہنوں اور رویوں پر اس کے اثرات بہت جلد مرتب ہوتے ہیں اور اس کی اثر انگیزی ہر عہد میں مسلم رہی ہے۔ یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو سب سے زیادہ خطرہ متعصب میڈیا سے لاحق ہے جبکہ قرآن مجید اوراحادیث نبویہؐ سے مستخرج و مستنبط اسلام کے قانون صحافت میں کسی قوم کی تذلیل و تحقیر، تضحیک ودل آزاری کرنے، زبان طعن دراز کرنے، ناگوارالقاب سے پکارنے اوران کے باہمی تعلقات کو بگاڑنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے جس سے معاشرہ فتنہ و فساد کی نذر ہوجاتا ہو۔

 انسانی معاشرہ کو آج ایسی ہی صاف ستھری اور پاک و شفاف صحافت کی اشد ضرورت ہے۔ تاریخ انسانی شاہد ہے صحافت کی قوت متحرکہ کے باعث ہی دنیا میں سیاسی، مذہبی، ثقافتی، علمی، تہذیبی اور تمدنی انقلابات مختلف ادوار میں رونما ہوئے ہیں اسی لیے صحافت کو سلطنت و حکومت کا اہم ستون قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جہاں صحافت کے مثبت کردار سے انقلابات رونما ہوئے ہیں وہیں صحافت کے منفی کردار سے تباہیاں بھی آئی ہیں۔ میڈیا جس کی پشت پناہی کردے وہ بام عروج پر پہنچ جاتا ہے اگرچہ اس میں کوئی صلاحیت و قابلیت نہ ہو اسی طرح میڈیا جس کا دشمن بن جائے اسے بیچ چوراہے پر ذلیل و رسوا بھی کردیتا ہے اگرچہ وہ انتہائی شریف النفس کیوں نہ ہو۔ موجودہ دور میں اصول و آدابِ صحافت سے بے اعتناء اور حکومتی اداروں اور اہل کاروں سے مراعات و خوشنودی حاصل کرنے والے میڈیا کا متعصبانہ، جانبدارانہ اور غیر ذمہ دارانہ رویہ اس کی بین دلیل ہے۔

 انسانی معاشرہ کو صحافت اور صحافی کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے دین اسلام نے صحافی کے لیے متقی، ثقہ، قابل اعتماد اور صاحب کردار ہونے کی شرط لگائی ہے۔ اگر دنیا آج اس اصول پر کاربند ہوتی تو اسے عدیم النظیر ترقی حاصل کرنے کے باوجود جنگ کے سایے میں زندگی گزارنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ جو صحافی اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو ایمانداری کے ساتھ نبھاتا ہے وہ اللہ تعالی کا محبوب بندہ بن جاتا ہے اور جو صحافی اپنے قلم کا غلط استعمال کرتے ہوئے ہوسِ زر، زن اور زمین میں منہمک رہتا ہے یا اپنے مخصوص سیاسی و مذہبی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی دنیا و آخرت دونوں تباہ و تاراج ہوجاتے ہیں۔ دنیا پرستی اور تعصب نے صحافت اور صحافتی اصول کو اس قدر پامال کردیا ہے کہ مظلوم انسان اور انسانیت میں اتنی طاقت باقی نہ رہی کہ وہ متعصب صحافت کے بنائے ہوئے جیل خانے کی مضبوط آہنی دیواروں سے  باہر آسکے ایسے عالم میں مسلمانوں پرلازم ہے کہ وہ نہ صرف دنیا کو اسلام کے صحافتی اصول سے واقف کروائیں جو تحفظ انسان اور انسانیت کے ضامن ہیں بلکہ خود اس پر مستقل مزاجی اور مجتہدانہ مساعی کے ساتھ عمل کرتے ہوئے غیر مسلم ابلاغ کاروں کے لیے نمونہ عمل بنیں تاکہ انسانی معاشرے سے مادہ پرست ذہنیت، رشوت، فحاشی، حیاء سوز واقعات، جنسی جرائم، ثقافتی یلغار، لوٹ کھسوٹ، اور سماجی برائیوں کا خاتمہ ہوسکے۔ اسلام کے صحافتی اصول اور خد و خال میں سچی، مصدق اور موفق خبروں کی ترسیل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس سے انسان ذہنی و معاشرتی لحاظ سے مہذب و متمدن بنتا ہے۔

 حقوق انسانی کی پاسبانی اسلام کے صحافتی اصول کا جزو لاینفک ہے۔ ایک دور تھا جب صحافی صحافت کے اصول و آداب اور اخلاق کی بقا کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ ماضی قریب تک اخبار میں شائع ہونے والی یا ٹی۔ وی پر نشر ہونے والی خبروں کو دستاویزی حیثیت حاصل ہوجاتی تھی چونکہ اس وقت تک صحافتی ادارے صداقت و راست بازی جیسی خصوصیات کے حامل اور عوامی جذبات و احساسات کی عکاسی کرنے والے ہوا کرتے تھے لیکن جب سے پرنٹ و الکٹرانک میڈیا پر طاغوتی طاقتوں اور سرمایہ داروں کا غلبہ ہونے لگا ہے، تعصب کا رنگ چڑھنے لگا ہے صحافتی ادارے عوامی اعتماد سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔

عوام کا صحافت پر از سر نو اعتماد بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اسلام کے قانون صحافت پر عمل پیرا ہوجائیں تاکہ فلاحی ریاست اور جذبہ اخوت سے معمور معاشرہ تشکیل پاسکے۔ سائنس اور ٹکنالوجی کے باعث آج کے اس برق رفتار عہد میں ذرائع ابلاغ کو خوب فروغ حاصل ہوا تاہم صحافتی اصول و آداب اور اخلاقی اقدار کی پاسداری نہ کرنے کی وجہ سے نہ صرف صحافتی ونجی نشریاتی اداروں کا وقار بری طرح متاثر ہورہا ہے بلکہ معاشرے میں بے حسی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب صحافی طاغوتی طاقتوں اور سرمایہ داروں سے مرعوب و متوحش ہوکر صحافتی اصولوں پر مصلحت پسندی، مفاد پرستی اور خود غرضی کو ترجیح دیتا ہے۔ صحافت کا بنیادی کام امن، محبت، اتحاد اور یکجہتی کی فضاء کو نہ صرف فروغ دینا بلکہ برقرار رکھنا بھی ہے۔

یہ کہاوت زبان زد خاص و عام ہے کہ تلوار سے زیادہ طاقتور قلم ہوتا ہے۔ جس طرح تلوار کا غلط استعمال انسان کی مشکلات و مصائب میں اضافہ کا سبب بنتا ہے اسی طرح قلم کا جانبدارانہ، متعصبانہ اور غیر ذمہ دارانہ استعمال نہ صرف انسان بلکہ پوری انسانیت کے لیے ضرر رساں ثابت ہوتا ہے۔ آج وطن عزیز ہندوستان میں لوگ بے روزگاری، مہنگائی اور ادویات و آکیسجن کی قلت کے باعث موت کا شکار ہورہے ہیں اس میں حکومت کی غلط پالیسیوں سے زیادہ دخل متعصب میڈیا کا ہے جو سماجی، معاشی، تعلیمی، معاشرتی خرابیوں اور عوامی مفادات سے تعلق رکھنے والے موضوعات کو اٹھانے کے بجائے نفرت پھیلانے والے مباحث کروانے میں مصروف ہے۔ معصوم لوگوں پر غداری کے مقدمات دائر ہورہے ہیں۔

موجودہ دور میں حقیقت میں کسی پر ملک سے غداری کے مقدمات دائر ہونے چاہیے تو وہ متعصب میڈیا ہے جو صحافتی اصول و آداب، اخلاق اور ملک کی سا  لمیت کو کو بالائے طاق رکھ کر قرطاس و قلم کا غلط استعمال کرتے ہوئے حق کو باطل اور باطل کو حق کا رنگ چڑھاکر دنیا کے سامنے پیش کررہا ہے۔ قرآن مجید کی روشنی میں قرطاس و قلم کے ذریعہ انسان کو ہدایت دینا انسانی تخلیق کا مقصد ہے گویا اسلام پوری دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ قرطاس و قلم کے صحیح استعمال سے انسان اپنے مقصد تخلیق کو پاکر دنیا وعقبی میں سرخرو ہوسکتا ہے اور اگر اس سے رمق برابر بھی منحرف ہوئے تو دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی انسان کا مقدر بن جائے گا۔ اگر ہر صحافی قرطاس و قلم کی اس حقیقت کو سمجھ جائے تو دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گا۔

 آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآن ﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔