طبی سہولیات سے کیوں محروم ہے پنچایت چھکڑی بن کی عوام؟
شہراز میر
(منڈی، پونچھ)
عالمی یوم صحت کے موقع پر وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ آج ہماری توجہ نہ صرف صحت پر ہے بلکہ یکساں طور پر تندرستی پر بھی ہے۔ اس لئے فٹ انڈیا کی مہم کا بھی آغاز کیا،آیوشمان بھارت جیسے مشن کو جاری کیا۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ ہم ہندوستان میں ایک ایسا ہیلتھ انفراسٹرکچر بنانا چاہتے ہیں جو صرف بڑے شہروں تک ہی محدود نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ مرکزی حکومت کویڈ۔19کے بعد سے خاص طور سے ون ارتھ ون ہیلتھ کی مہم بھی چلا رہی ہے۔ اس بات میں دورائے نہیں ہے کہ مرکز کی جانب سے شعبہ صحت کو بہتر بنانے کے لئے کروڑوں روپے کا ہر سال بجٹ پیش کیا جاتا ہے۔لیکن اس کے باوجود زمینی سطح پر ملک میں طبی نظام بہتر نہیں ہو سکا۔ ملک کے دیگر حصوں کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر میں بھی ہنوز شعبہ صحت کا فقدان ہے۔ اگر چہ صرف ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کی ہی بات کی جائے تو یہاں کی عوام فعال شعبہ صحت کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے پریشانی سے دوچار ہے۔ پنچایت چھکڑی بن تحصیل کمپلکس سے قریب9 کلومیٹر اور ضلع ہیڈ کوارٹر پونچھ سے 30کلومیٹر دور ایک پسماندہ علاقہ ہے۔ جہاں کے لوگوں کو دوا خریدنے کی خاطر شہر کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ یہاں پر ڈسپنسری موجود ہے لیکن ادویات میسر نہیں ہے۔اس سلسلہ میں مقامی لوگوں نے بتایا کہ جب محکمہ صحت کی طرف سے ڈسپنسری منظور ہوئی تو عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔لیکن اس کے باوجود بھی مقامی لوگوں کو دیگر اسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے ان علاقوں کے مریضوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
موسم سرما کے دوران اس علاقے میں بھاری برف باری ہوتی ہے اگر اس دوران یہاں کسی مریض کی حالت نازک بن جاتی ہے تو اس کو چارپائی پر لاد کر ہسپتال لے جانا پڑتا ہے جو کہ اس دور میں سخت مشکل کام ہے۔اس تعلق سے اپنے علاقے کی پریشانی کو بیان کرتے ہوئے ایک مقامی سخی محمد، عمر ستر سال نے بتایا کہ میرا یہ آبائی گاؤں جو چاروں طرف سے جنگل سے ڈھکا ہوا ہے۔اکثر اوقات یہاں پر جنگلی جانوروں کے حملہ کا خوف رہتا ہے کیوں کہ یہاں پر جنگلی جانور دن دھاڑے انسانوں پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دو سال قبل ریچھ نے مستری شاہ محمد اور مقصود پر حملہ کیا تھا۔مقصود 22 سال کا نوجوان تھا۔ طبی مرکز قریب نہ ہونے کی وجہ سے وہ نوجوان سڑک تک پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ بیٹھا۔اگر اس ڈسپنسری میں طبی سہولیات موجود ہوتی تو ممکن تھا کہ اس کی جان بچ جاتی۔اس طرح کے کئی حادثات رونما ہوتے ہیں اور لوگوں کی جانیں اسی طرح ضائع ہوتی ہیں۔ گاؤں میں تعمیر ڈسپنسری میں تعینات نرس’پرم جوت‘ سیجب اس تعلق سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ میں پونچھ آجوٹ کی رہائشی ہوں۔ جہاں سے 35کلو میٹر گاڑی کا سفر طے کرنے کے بعد یہاں پر 2گھنٹے کا پیدل سفر کرکے اس پہاڑی علاقے میں اپنی ڈیوٹی کو انجام دینے آتی ہوں۔ ایک عورت ذات ہوں،مجھے گھر کے بھی کام کاج کرنے ہوتے ہیں۔مجھے یہاں پہنچنے میں دوپہر کے ایک بج جاتے ہیں۔مجھے شام کو گھر بھی جانا ضروری ہے۔یہاں پر یہ چاروں طرف سے جنگل سے ڈھکا ہوا رقبہ میرے لیے بڑا خوفناک ہے۔گرمیوں میں ہمیں جنگلی جانوروں کا ڈر ہوتا ہے اور سردیوں میں برف ہماری کمر تک آتی ہے تو اکثر سردیوں میں لوگ سرد موسم کی وجہ سے بیمار ہوتے ہیں تو اس ٹائم میرا وہاں پر پہنچنا ناممکن ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا جب دوائی لانی پڑتی ہے تو ہمیں اس کے لئے چارج صرف منڈی سے لوہیل بیلا تک کا ملتا ہے آگے ہمیں اپنی جیب سے مزدور کو ایک ہزار روپیہ دیکر یہاں پر دوائی کو پہنچانا بھی پڑتا ہے۔
اسی گاؤں کے ایک اور نوجوان محمد رشید بتایا کہ ہمیں اس ترقی یافتہ دور میں چار پائی اور گھوڑوں کا استعمال بیماروں کے لئے کرنا پڑتا ہے اور شدید خطرات سے کھیل کر دوائی خریدنے کے لئے جانا پڑتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس دور میں بھی یہاں عورتیں زچگی کے لئے پریشان ہوتی ہیں۔ عورت ذات گھوڑے پر سواری کرنے پر مجبور ہے۔یہ گاؤں حاملہ عورتوں کیلئے ایک قیامت ہے کیونکہ اکثر عورتیں راستے میں ہی دم توڑ بیٹھتی ہیں کیوں کہ یہ ایک نازک مسئلہ ہوتا ہے لیکن محکمہ صحت عدم توجہی کا شکار ہے۔ اسی گاؤں کے ایک اوربزرگ لال دین نے کہا کہ موسم سرما کے دوران اس علاقے میں بھاری برف باری ہوتی ہے اور اگر اس دوران یہاں کسی مریض کی حالت نازک ہوتی ہے تو اس کو چارپائی پر لاد کر ہسپتال لے جانا پڑتا ہے۔یہ موسم ہمارے مریض کے لیے ایک موت کی تکلیف سے کم نہیں کیوں کہ بھاری برف باری ہونے سے راستے نظر نہیں آتے ہیں اور مریض کے اوپر بھی برف پڑتی رہتی ہے جو کہ بیماری اور تکلیف میں اضافہ کر دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چند سال قبل ایک مریض کو ہسپتال کی طرف لے جا رہے تھے راستے میں برف شروع ہوئی تو برف مریض کے اوپر پڑی جس کے بعد وہ مریض زندگی جیسی نعمت سے ہاتھ دھو بیٹھا۔اس دوران شاید ہی کسی مریض کو مشکل سے ہسپتال تک پہنچانے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔
لوگوں کی بہتر صحت کے لئے وزیراعظم نے ایوشمان بھارت کارڈ اسکیم کو جاری کیا۔ جس میں مریض کو ایک سال کے اندر پانچ لاکھ تک مفت علاج دستیاب ہے۔لیکن راجوری کے مقامی باشندہ نور حسین جو پیشے سے ایک مزدور شخص ہیں انہوں نے بتایا کہ مجھے اس کارڈکا کوئی فائیدہ نہیں ہوا۔ میری اہلیہ بیمار تھی میں اس کو چیک کروانے کے لیے راجوری کے سرکار ی ہسپتال لے گیا جہاں پر انہوں نے سات دن تک ایڈمیٹ رکھی اور ساتویں دن جموں ریفر کیا۔میں نے وہاں سے فوری ٹیمپو کیا تو پانچ ہزار کرایہ دے کر وہاں سے جموں بخشی نگر سرکاری ہسپتال میں لے گیا۔جہاں سرجنوں نے بتایا کہ اس کا آپریشن کرنا پڑئگا کیونکہ اس کے پیتے میں پتھری ہے اور بچے دانی بھی خراب ہے۔ایسے میں چار بوتل خون کی ضرورت ہیں۔تو میں نے ایوشمان بھارت کارڈ اور بی پی ایل کارڈ بتایا تو انہوں نے کہا یہ نہیں چلے گا۔حالانکہ انہوں نے اس کی وجہ نہیں بتائی۔جس کے بعد مجھے بارہ ہزارروپہ میں خون کی ایک بوتل خریدنی پڑی۔انہوں نے کہا کہ میں ایک مزدور شخص ہوں خون کی چار بوتلوں کا 48 ہزار روپیہ بنتا ہے لیکن میں کہاں سے لاؤں؟ میرے پاس تو اتنے پیسے نہیں۔
دراصل حکومت کی جانب سے عوام کے حق میں بہت ساری اسکیمیں چلائی جاتی ہیں۔ غریب عوام کے لیے سرکار جتنی بھی اسکیمیں لاگو کرتی ہیں اس کا زمینی سطح پرعوام کو پوری طرح فائدہ نہیں ملتا ہے۔ایسے میں یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ اسکیم کو عام لوگوں تک بہتر طریقہ سے پہنچانے کے لئے ایک مکمل پالیسی بنائی جائے تاکہ عام لوگوں کے ساتھ ساتھ پنچایت چھکڑی بن کی عوام کو بھی فائدہ حاصل ہوسکے۔(چرخہ فیچرس)

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔