عالمِ انسانیت فتنہ دجالیت کی زد میں

شہباز رشید بہورو

احادیثِ صحیحہ میں دجال کے متعلق واضح پیشن گوئیاں موجود ہیں۔ ان پیشن گوئیوں کا خلاصہ یہ ہے کہ المسیح الدجال دجل، دھوکہ، فریب، جھوٹ  اور شیطانی قوتوں کا پیکر ایک یہودی شخص ہوگا جس کا خروج قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی ہوگی اور اس کا خروج قیامت کے قریب ہوگا۔ دجال ایک آنکھ کا کانا اور اس کے ماتھے پر کافر مرقوم ہوگا اور آخر کار مقام لد پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں مقتول ہوگا۔خیر دجال کی شخصی صفات کیا ہیں؟ وہ اس وقت کہاں ہے اور کب اس کا خروج ہوگا؟ وہ ہمارے مضمون کا حصہ نہیں البتہ دجال کی آمد سے پہلے جو دنیا میں دجالی  ہنگامہ برپا ہوگا اس کا مختصر سا خاکہ پیش کرنی کی کوشش کرتے ہیں۔

دجال پوری دنیا کو فتنہ و فساد، شر و ہنگامہ سے بھر دے گا۔ دجال شیطان کے تیروں میں سے آخری تیر ہو گا جو وہ انسانوں کو راہِ راست سے ہٹانے کے لئے استعمال کرے گا لیکن شیطان اپنے اس آخری معرکے میں ذلیل و رسوا ہو کر رہے گا۔شیطان اپنے اس آخری مہیب ترین ہتھیار کی نمائش کے لئے اپنے انسان نما ساتھیوں کے ساتھ سٹیج تیار کر رہا ہے۔یہ سٹیج چھوٹے بڑے فتنوں کے سنگم کا نام ہے۔ دجال کے خروج سے پہلے جو فتنوں کی بارش عالم انسانیت پر ہوگی ان کا ایک مجموعی  نام فتنہ اکبر رکھا جائے تو کوئی غیر مناسب بات نہیں ہے کیونکہ دجال اکبر کا فتنہ انسانیت کی تاریخ میں سب سے بدترین فتنہ ہوگا اور اس فتنے کو دنیامیں ہونے والے ہر فتنے کا موجب اور منبع مانا جاتا ہے.اس فتنےکو برپا کرنے کے لئے شیطان اور اس کے ساتھی دنیا میں بے شمار فتنوں کا آغاز کرکے ان کو پائے تکمیل تک پہنچانے کی حتی الوسع کوشش کر رہے ہیں۔دجال اکبر کے فتنے سے ہر نبی نے اپنی امت کو ڈرایا ہےترمذی و ابوداود میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”حضرت نوح علیہ السلام کے بعد جو نبی بھی آیا اس نے اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا ہے اور میں بھی تمہیں اس سے ڈراتا ہوں‘‘۔دجال کے فتنہ اکبر سے پہلے فتنوں کی بارش ہوگی جسے ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان کیا ہے

’’بے شک میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے گھروں کی جگہوں میں فتنے ایسے گر یں گے جیسے بارش کے قطرات گرتے ہیں‘‘۔

دجالی فتنہ ایک مومن کے عقیدے پر زوردار وار سے لیکر اس کی عملی زندگی کے ہر شعبے میں اپنا حیرت انگیز اثر ظاہر کرے گا۔فکر اور عقیدے کو بگاڑنے کے لئے اس کے خروج سے پہلے دنیا میں ویسے بیہودہ اور غیر مفید افکار و نظریات پھیلائے گئے ہیں، جنہوں نے لوگوں کے اذہان کو شک و شبہات کی آماجگاہ بنا دیا۔ جس کی وجہ سے ان کی اصلی قوت فیصل جواب دے چکی ہے اور جس کے نتیجے میں وہ کوئی بھی صحیح فیصلہ فلاحِ انسانیت کے تئیں نہ اٹھا سکتے ہیں۔ان بیہودہ افکار کی بنیاد پر دنیا میں نظریاتی و عملی جنگ و جدال پیدا ہوا، جس جنگ و جدال سے دنیا کا امن جاتا رہا۔ان بیہودہ افکار کی بھر مار کا اندازہ انیسویں و بیسویں صدی میں انسان اچھی طرح کر چکا ہے اور انسان نے ان دو صدیوں میں کن کن افکار و نظریات کو اپنایا کہ انسانیت کا سر شرم کے مارے جھک جاتا ہے۔انسان کو بندر کی اولاد تک کہا گیا، ماں اور بچے کے مابین محبت کو جذبہ شہوت کا مظہر بتایا گیا، قانون کی دنیا میں انسان کو خدا سے اوپر کر دیا گیا، انسان کی بے لگام حریت پر اتنا زور دیا گیا کہ ہم جنس پرستی وجود میں آئی اور عورت کو ننگا کرکے اس کی کھال کو نکالنے کی کامیاب کوشش کی گئی، انسان اپنے خالق کے وجود پر دلائل طلب کرنے لگا وغیرہ وغیرہ۔ ان افکار و نظریات کے جال میں پھنس کر انسان اخلاقی توازن کھو بیٹھا وہ کسی بھی عملی معاملے میں صحیح اور متوازن طرز عمل کو متعین نہ کر سکا اور اسطرح سے گویا غیر متوازن جدید طرز زندگی قیامِ عمل میں آیا، جو جدید طرز دراصل مغربی طرز حیات ہے۔ڈاکٹر مراد ہوف مین نے اسی جدید دنیا کے متعلق لکھا ہے:

"مغربی دنیا کی فکر چند سیکولر پیغمبروں کی تعلیمات پر تعمیر ہوئی ہے۔مینول کانٹ (Immanuel Kant), کارل مارکس (Karl Marx)،ڈارون(Darwin)، فرائڈ(Freud)، نیٹشے(Netsche)، آئنسٹائن (Einstein)…. کانٹ کی تعلیمات کے مطابق افکارو و نظریات محض مادی احوال کی پیداور ہوتے ہیں۔ ڈارون نے یہ یقین پیدا کیا کہ انسانیت کی پیدائش اور ارتقاء ایک غیر منصوبہ بند اتفاقی واقعہ ہے۔فرائڈ ایک خوش کن پیغام کا علمبردار بن کر ظاہر ہوا اس نے کہا کہ انسان اپنے اعمال کا ذمہ دار اور جوابدہ نہیں ہے اسے اپنی ہر خواہش اور ہوس کی تکمیل کر لینا چاہئے۔ آئنسٹائن نے لوگوں کو قائل کیا کہ ہر چیز کسی نہ کسی چیز سے متعلق ہے”.

مغرب (West)میں دجال کے فتنہ اکبر کی نظریاتی سطح تیار ہوئی جس کی وجہ سے عام طور پر مغرب کے لوگ ذہنی تناو کا شکار رہتے ہیں اور ہر ایک کو ماہر نفسیات کی ضرورت لاحق رہتی ہے۔ خصوصاً مغرب کا سیاسی طبقہ اس نظریاتی کشمکش میں مبتلا ہو کر اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا۔ذہنی توازن کھو بیٹھنے کے بعد جو کارستانیاں مغرب کے سیاسی طبقہ نے کی اس سے پوری دنیا واقف ہے۔

مغرب میں جو معاشرتی بحران پیدا ہو چکا ہے اس کا مشاہدہ تو ہر وہ کوئی کرتا ہے جو وہاں جاتا ہے۔اس نسبت سے ایک واقعہ  ہندوستان کے نامور عالم دین مولانا سجاد نعمانی بیان کرتے ہیں۔ "کہ میں امریکہ میں دعوت کے سلسلے میں گیا ہوا تھا تو جب میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ گاڑی میں چل رہا تھا تو ہر چوراہے پر بوڑھے مرد و خواتین ہر گاڑی کو روکنے کے لئے ہاتھ دیتے ہوئے نظر آئے، میں نے اس معاملے کے بارے میں اپنے احباب سے استفسار کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ بوڑھے ماں باپ ہیں جنہیں ان کی اولاد نے old age homes میں ڈالا ہے جہاں یہ ایک عرصہ دراز سے اپنی اولاد کا چہرہ دیکھنے اور باتیں کرنے کو تڑپتے ہیں لیکن ان کی اولاد ملاقات کے لئے گاہ بگاہ ہی جاتی ہے۔ اس لئے یہ تنگ آکر چوراہے پر اپنی دل کی باتیں شئیر کرنے کےلئے ہر ایک کو پکڑتے ہیں تاکہ انہیں کچھ اطمینان حاصل ہو جائے "

دجالی فکر کی سطح مضبوط ہونے کے بعد دنیا نے ہر طرف لاشوں کے ڈھیر لگتے دیکھے، معصوموں کا قتل عام دیکھا، غریبوں پر ظلم و زیادتی دیکھی، مجبوروں پر قہر برستا دیکھا اور غیر اخلاقی اور غیر قانونی طور پر تیسری دنیا کے بیشتر ممالک کو شکنجہ استعماریت کا شکار پایا۔ مذکورہ سارے episodes دنیا کو مستقل طور پر بدامنی کی آماجگاہ بنا گئے ہیں۔ اسی دجالی فتنہ کا ایک خطرناک دھماکہ گیارہ ستمبر کے حملے کی شکل میں ہوا جس کے بعد دجالی طاقتوں نے مسلمان ممالک میں کیا کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے۔

گیارہ ستمبر کے مابعد کانقشہ عالم اسلام کے ایک جید عالم، تجزیہ نگار اور نابغہ شخصیت  ڈاکٹر سمیع اللہ ملک صاحب نے اپنے ایک حالیہ مضمون بعنوان "جدید دجال کا نیا جنجال” میں درد بھرے انداز میں لکھا ہے” کاش تاریخ کوگیارہ ستمبر2001ء کادن نہ دیکھناپڑتاجس کے نتیجے میں ملکوں کے ملک اجڑ گئے، شہرویران کردیئے گئے،بستیاں بربادہوگئیں،لاتعداد گھروں کاملیامیٹ کردیاگیا،لاکھوں انسانوں کو تہزیبی،معاشی وسیاسی بالادستی کی خاطربارودسے بھسم کردیاگیا،جوان لڑکیوں کواجتماعی تشدد وہوس کانشانہ بنادیاگیا،اولادکے سروں سے والدین کاسایہ چھین لیا گیا۔نوجوان نسل کوان کے ماں باپ کے سامنے چیتھڑوں میں تبدیل کردیاگیا،انسانیت کوعبرت کانشان بنادیاگیا،انسان توکیا حیوانات، نباتات اورجنگلات تک کوبھی جنگی جنون کی خاطرجلاکرراکھ کردیاگیا”.   گیارہ ستمبر کا حملہ دجال کا دنیا کو تیسری عالمگیر جنگ میں دھکیلنے کے لئے ایک بہترین موقعہ ہاتھ آیا۔ تیسری عالمگیر جنگ کا خطرہ ہر دم لاحق ہے کیونکہ دنیا کے ان ممالک کے پاس جوہری ہتھیار ہیں جو اب تک کی جدید تاریخ میں جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ یہ مجرم ممالک جوہری ہتھیاروں کو بڑی مقدار میں حاصل کرنے کے لئے سر توڑ محنت کر رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ دنیا ایک خطرناک معرکہ کی طرف رواں دواں ہے جسے ہمارے مشترکہ مذہبی لیٹریچر(اسلام اور اہل کتاب) میں "ہر مجدون "کہا گیا ہے، یہ تاریخ کی سب سے تباہ کن اور بد ترین لڑائی ہوگی۔ ہر مجدون (Armaggadon ) کا معرکہ خروج دجال کی سب سے بڑی علامت ہوگی۔یہ جنگ مسلمانوں اور اہل کتاب کے مابین ہوگی جس خطرے کا زکر سموئیل ہنٹنگٹن نے ان الفاظ میں کیا ہے :

"This centuries-old military interaction between the West and Islam is unlikely to decline. It could become more virulent. "

جدید دور میں ممالک کے مابین جو بھی سیاسی و معاشی تنازعات ہیں وہ مستقبل میں ممکنہ عالمگیر جنگ کا مواد تیار کر رہے ہیں۔ نارتھ کوریا اور امریکہ کی آپسی دھمکیاں، چین کا مسلم اقلیت پر ظلم، برما کا روہنگیا کی نسل کشی، مشرقی وسطیٰ کا سارا جنگی دنگل، پاکستان اور بھارت کی مسئلہ کشمیر کو لیکر معرکہ آرائیاں، افغانستان کا بدلتا ہو منظر، اسرائیل کا استعماری پھیلاو پوری دنیا کے امن کو تار تار کرنے کے در پر ہے۔یہ فتنہ دجالیت کا سیاسی پہلو ہے جو لامحالہ دنیا کو ایک خطرناک جنگ میں دھکیل دینے والا ہے۔دجال صرف مسلمانوں کا دشمن نہیں ہے بلکہ وہ پوری عالم انسانیت کا دشمن ہے۔دجال اہل کتاب کو بھی فریب دے گا جس کی آمد کا وہ بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں اور مسلمانوں کا دشمن ہونا تو ایک واضح تاریخی لیٹریری حقیقت ہے۔فتنہ دجالیت کے ایجنٹ پوری دنیا کے حاکم بنے بیٹھے ہیں جو پوری طرح سے دجالی روح کو زندگی کے ہر شعبہ جات میں پھونکنا چاہتے ہیں۔ دجالی روح کو پھونکنے کا دور جدید میں موئثر ترین ذریعہ دجالی میڈیا ہے۔

بقول حافظ ابن حظیفہ "فتنہ ٔ دجال اکبر کے ماقبل کے فتنوں کا سب سے بڑا اثر یہ ہوگا کہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ، امین کو خائن اورخائن کو امین دکھایا جائے گا۔ اس میں سب بڑا کردار انسانی آنکھوں پر کیا جانے والاوہ عالمگیر اور عظیم ترین ’’سحر‘‘ہوگا جس کا ظاہر ی اور باطنی اثر یہ ہوگاکہ حق باطل نظر آئے گا اور باطل کو حق دکھایا جائے گا، تباہی و بربادی کے راستے کو کامیابی اور نجات کے راستے کو بربادی دکھایا جائے گا(مسند احمد:ج۳ص۲۲۰) گویا کہ آگ کو پانی اور پانی کو آگ دکھایا جائے گا:” یہ کام بڑے منصوبہ بند طریقے سے آج کا میڈیا کر رہا ہے۔میڈیا نے عوام الناس کو مسحور کر کے رکھا ہے۔ آج کے دور میں میڈیا کو ہی حق و باطل کا معیار تسلیم کیا جاتا ہے جس کو میڈیا سچ کہے وہی سچ ہے اور جس کو میڈیا جھوٹ کہے وہی جھوٹ ہے، کسی کو بھی میڈیا کے بیانیے سے اختلاف کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ میڈیا نے گویا عوام کو اپنا غلام بنا کے رکھا ہے اور پوری دنیا کا میڈیا دجالی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے، اس طرح سے دجالی طاقتیں عوام الناس کو اپنے شکنجے میں کسی ہوئی ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔