غیر مسلموں میں  دعوت: چند تجربات!

تحریر : صوفی محمد اکرم ۔ ترتیب:عبدالعزیز

عام طور پر دعوتِ دین کے حوالے سے ہم مسلمانوں کا سوچتے ہیں ، غیر مسلموں کا نہیں ۔ روز مرہ زندگی میں بارہا ایسے مواقع سامنے آتے ہیں جو غیر مسلموں میں دعوت کا ذریعہ بن سکتے ہیں ۔ ہمارے یہاں ہندو اور عیسائی ایک بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں ۔ شہادتِ حق اور دعوتِ دین کا تقاضا ہے کہ مسلمان ان غیر مسلموں میں دعوت کا فریضہ احسن انداز میں انجام دیں تاکہ اپنی ذمہ داری سے بھی عہدہ بر آہوسکیں اور کل خدا کے ہاں بھی سرخرو ہوں ۔

  غیر مسلموں میں دعوت کے ضمن میں ، میں نے کچھ کام کیا، اس حوالے سے چند تجربات غور و فکر اور تحریک و عمل کیلئے پیش ہیں ۔

 ٭ روز مرہ زندگی میں سفر سے ہر ایک کو کسی نہ کسی طرح واسطہ رہتا ہے۔ دورانِ سفر فریضۂ دعوت کی ادائیگی کے مواقع میسر آتے ہیں ۔ مجھے بھی ایک ایسا موقع میسر آیا۔ ایک مرتبہ مجھے اسلام آباد سے لاہور بذریعہ بس آنا تھا۔ میرے ساتھ بس میں ایک ہندو فیملی بھی سوار ہوئی۔ میں نے غنیمت جانتے ہوئے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے نوجوان سے بات چیت شروع کی، معلوم ہوا کہ وہ نواب شاہ سے تعلق رکھتے ہیں اور لاہور سیر کی غرض سے جارہے ہیں ۔ نوجوان کا نام راج کمار تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ آپ لاہور کی سیر کیلئے جارہے ہیں تو ہمارے گھر بھی ٹھہریں ۔ اتفاق سے ہماری بس علی الصبح چار بجے لاہور پہنچی۔ میں نے اس کے والد صاحب کو دعوت دی کہ رات گئے آپ کہاں جائیں گے، آپ میرے شہر کی سیر کرنا چاہتے ہیں ، میرے مہمان ہیں ، لہٰذا میرے ہاں ٹھہریں ۔ انھوں نے پہلے تو پس و پیش کی، پھر کہنے لگے کہ اگر بچے راضی ہیں تو ٹھیک ہے۔ میں نے وہیں سے آواز دی: راج کماربیٹا؛ آپ ہمارے گھر ٹھہریں گے ؟ اس نے ہامی بھرلی، چنانچہ مرد و خواتین تمام فیملی سمیت رات گئے ہم گھر پہنچے گئے۔

 ہم نے ان کی خوب خاطر مدارات کی۔ میرے پیش نظر یہ بات بھی تھی کہ غیر مسلموں کی دل جوئی اور تالیف قلب کا بھی حکم ہے تاکہ ان کے دل میں اسلام کیلئے نرم گوشہ پیدا ہوسکے۔ پھر انھیں گھر کے قریب واقع ماڈل ٹاؤن پارک کی سیر کروائی۔ انھوں نے شاہی قلعے کے نزدیک گرودوارہ جانے کی خواہش کا اظہار بھی کیا ۔ میں نے کہاکہ وہ تو سکھوں کا ہے۔ اس پر انھوں نے کہاکہ ہندو بھی وہاں جاتے ہیں ۔ چنانچہ میں نے وہاں جانے کا انتظام بھی کر دیا۔

  بات چیت کے دوران میں نے راج کمار سے پوچھا کہ بیٹا تمہارا مستقبل کے بارے میں کیا ارادہ ہے؟ اس نے کہاکہ ابھی تو پڑھ رہا ہوں ، بعد میں دیکھوں گا۔ پھر میں نے پوچھا کہ بیٹا! زندگی کے بارے میں کیا سوچا ہے؟ کبھی مقصد زندگی پربھی تم نے غور کیا؟ تو اس نے کہا کہ اس طرح تو میں نے نہیں سوچا۔ تب میں نے اس کو بتایا کہ اس کائنات کا مالک خدا تعالیٰ ہے جسے تم بھگوان کہتے ہو۔ ہم سب اس کے بندے ہیں اور اپنی زندگی گزارنے کیلئے ہمیں اس سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔ نبی اور اوتار اور الہامی کتابیں اس نے اسی غرض سے بھیجی ہیں ۔ میری گفتگو سن کر اس کے والد صاحب نے بھی کہاکہ آپ نے اچھی توجہ دلائی ہے۔ ہم نے تو اس طرح سے نہیں سوچا تھا۔ اس وقت میرے پاس سید مودودیؒ کی کتاب ’خطبات‘ موجود تھی۔ میں نے کہاکہ ان باتوں کو مزید اچھے انداز میں جاننے کیلئے آپ اس کا مطالعہ کریں ۔ پھر ہم نے مل کر خطبات کے چند اوراق کا اجتماعی طور پر مطالعہ بھی کیا اور انھوں نے اسے پسند بھی کیا۔

 میری کوشش رہی کہ کسی نہ کسی طرح ان سے قربت حاصل کی جائے اور جب وہ متوجہ ہوں تو انھیں اسلام کی دعوت دی جائے۔ اس طرح ایک ہندو خاندان کو جو محض اتفاق سے میرے قریب ہوا، میں نے دین کی دعوت پہنچانے کی کوشش کی اور انھیں مطالعے کیلئے کتب بھی دیں ، لیکن ایسی کتب کی کمی محسوس ہوئی جو غیر مسلموں کیلئے دعوت کے پیش نظر لکھی گئی ہوں ۔

٭ ایک بار چند رفقاء نے ایک درس قرآن میں شرکت کی دعوت دی۔ جب میں درس میں شرکت کیلئے پہنچا تو باہر کھڑے چند لوگوں پر میری نظر پڑی جو مجھے عیسائی لگے۔ میں نے سوچا کہ انھیں بھی درس قرآن کی دعوت دینی چاہئے، چنانچہ ان کے قریب گیا، ان سے ہاتھ ملایا، ان کو گلے لگایا اور کہاکہ تم میرے باپ کے بیٹے ہو (میری مراد حضرت آدمؑ تھے جن کی تمام انسان اولاد ہیں )، میرے بھائی ہو۔ آؤ تمہارے اور ہمارے خدا کا کلام سنیں کہ خدا نے ہمارے لئے کیا رہنمائی دی ہے۔ وہ بہت متاثر ہوئے اور چلنے پر راضی ہوگئے۔

 جب ہم درس قرآن میں شرکت کیلئے گھر میں داخل ہونے لگے تو میزبان نے آہستگی سے مجھے کہاکہ آپ کن لوگوں کو ساتھ لے کر آئے ہیں ؟ یہ تو عیسائی ہیں ۔ میں نے اسے کہاکہ کیا یہ خدا کے بندے نہیں ؟ کیا ان کا حق نہیں کہ ان تک دین کی دعوت پہنچائی جائے؟ وہ میری بات سمجھ گئے۔

    آخرت کے موضوع پر درس قرآن ہورہا تھا۔ آخر میں میں نے اعلان بھی کیا کہ آج ہمارے مسیحی بھائی بھی درس قرآن میں شریک ہیں اور یہ بات بڑی خوش آئند ہے۔ پھر ان سے بھی کہاکہ آپ بھی اپنے تاثرات بیان کریں کہ آپ نے اسے کیسا پایا؟ انھوں نے کہاکہ ہم نے اسے بہت مفید پایا۔ آخرت کا تصور اسلام اور عیسائیت دونوں میں پایا جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا کبھی ہم نے اس حوالے سے غور کیا کہ عیسائی جو اہل کتاب ہیں ، ان تک ہمیں دعوتِ دین پہنچانا ہے؟ انھیں جہنم کی آگ سے بچانے کیلئے ہم تڑپیں اور ان تک موثر انداز میں اسلام کی دعوت پہنچانے کی بھرپور کوشش کریں ۔ پاکستان میں ایک بڑی تعداد میں عیسائی بلدیاتی سطح پر صفائی اور سیوریج کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔ گھروں میں کام کرنے والے بہت سی خواتین کا تعلق بھی عیسائیت سے ہے، لیکن ہمارا ان کے ساتھ کیسا رویہ ہوتا ہے۔ اگر خدا نے کسی بہانے انھیں ہمارے قریب کر ہی دیا ہے تو بجائے اس کے کہ ہم ان سے حسن سلوک سے پیش آتے، ان کو عزت و احترام دیتے، ان کی تالیف قلب کا سامان کرتے اور ان کو کسی نہ کسی بہانے دعوتِ دین دیتے… ہم نے ان کو اپنے سے کاٹ کر رکھ دیا ہے یا ہندوؤں کی طرح انھیں شودر بنا کر رکھا ہے، جیسے وہ نیچ ذات کے ہوں ۔ کیا ہماری یہ روش اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے؟ کیا ہم خدا کے ہاں جواب دے سکیں گے کہ ہم نے ان تک تیرا پیغام پہنچا دیا ہے؟

٭ ایک بار میں اپنی کار میں سوار سڑک سے گزر رہا تھا کہ مجھے چند سکھ نوجوان نظر آئے۔میں نے سوچا کہ ان سے بات چیت کی جائے۔ چنانچہ میں نے ان کے نزدیک جاکر گاڑی روک دی اور ان سے کہاکہ آپ میرے شہر میں آئے ہیں ، لہٰذا میرے مہمان ہیں ۔ گاڑی میں تشریف رکھیں ۔ میں آپ کو وہاں چھوڑ دیتا ہوں جہاں آپ کو جانا ہے۔ پہلے تو انھوں نے انکار کیا اور جب میں بہت اصرار کیا تو کہنے لگے کہ ہمیں قریب ہی جانا ہے، آپ زحمت نہ کریں ، آپ کا شکریہ! میں نے کہاکہ چلئے قریب ہی سہی، بالآخر وہ میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئے۔

 میں نے ان سے پوچھا کہ لاہور اور بھارت میں آپ کو کچھ فرق نظر آیا تو وہ کہنے لگے کہ ایسا کوئی خاص فرق تو نہیں دیکھا۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کس لئے آئے ہیں ؟ وہ کہنے لگے کہ ہم تو سیر کیلئے آئے ہیں ۔ میں نے کہاکہ آپ نے یہ نہیں سنا: ’’جنے لاہور نئیں دیکھیا اوجمیا ای نئیں ‘‘ (جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا)۔ انھیں حیرت ہوئی۔ چنانچہ میں نے انھیں کہاکہ میں آپ کو لاہور کی سیر کرواتا ہوں ۔ اس پر وہ راضی ہوگئے۔ میں نے انھیں مختلف جگہوں پر گھمایا پھرایا اور حسب توفیق خاطر تواضع بھی کی۔اسی دوران میں نے انھیں مقصد زندگی کی طرف توجہ دلائی اور بابا گرو نانک کی تعلیمات کے حوالے سے خدائے واحد کی بندگی کی دعوت بھی دی۔

 جب وہ رخصت ہونے لگے تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا اب آپ نے لاہور اور بھارت میں کچھ فرق محسوس کیا؟ انھوں نے کہاکہ ہاں ، اب فرق محسوس ہوا ہے۔ زندگی میں پہلی بار کسی نے اس اپنائیت اور محبت کے ساتھ ہمیں مقصد زندگی سے آشنا کیا اور ایک خدا پر ایمان لانے کی دعوت دی ہے۔

٭ ایک روز برانڈ رتھ روڈ سے گزرتے ہوئے ایک نوجوان نے مجھ سے رام گلی کا پتا پوچھا۔ میں نے اس سے کہاکہ یہاں تو کئی رام گلیاں ہیں ، تمھیں کہاں جانا ہے؟ کچھ پس و پیش کے بعد اس نے بتایا کہ اسے احمدی مرکز جانا ہے۔ وہ وہ قادیانی تھا۔ میں نے اسے پتا بتایا اور اس کا سامان اٹھا کر سر پر رکھا اور اس کے ساتھ چل پڑا۔ اس نے مجھے منع کیا تو میں نے کہاکہ یہ میرے رسولؐ کی سنت ہے۔ انھوں نے ایک بوڑھی عورت کا سامان اٹھاکر اس کے گھر پہنچایا تھا، اب مجھے یہ سنت پوری کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ چلتے چلتے میں نے اس سے پوچھا کہ تم پتا پوچھنے میں کیوں جھجک رہے تھے؟ اس نے کہاکہ لوگ ہمیں بری نظر سے دیکھتے ہیں ، اس لئے ہمیں جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ میں نے کہاکہ اگر تمہارا عقیدہ سچا ہے تو پھر جھوٹ کیوں بولتے ہو؟ پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ رہو۔ پھر میں نے پوچھا کہ تم احمدی کب ہوئے؟ اس نے کہاکہ میں تو پیدائشی احمدی ہوں ۔ میں نے کہاکہ مرزا غلام احمد بھی پیدائشی قادیانی نہیں تھا، تم کیسے ہوگئے؟ اپنے مذہب کو سوچ سمجھ کر قبول کرو۔ اس کے غور و فکر کیلئے میں نے چند اور باتیں بھی سامنے رکھیں ۔ اتنی دیر میں احمد مرکز آگیا تو میں نے اس کا سامان سر سے اتارا اور اسے کہاکہ وہ سامنے مرکز ہے۔ وہ مجھ سے بڑے تپاک سے ملا اور کہاکہ آپ جس محبت سے میرے ساتھ پیش آئے ہیں اور جس طرح میری رہنمائیکی ہے، آج تک کوئی مسلمان ایسا نہیں ملا۔ اس نے مجھ سے میرا پتا بھی لیا۔

چند روز بعد وہ میرے گھر آیا اور اس نے بتایا کہ میں نے جب اپنے بزرگوں سے قادیانیت کے بارے میں اطمینان کرنا چاہا تو وہ مجھے مطمئن نہ کرسکے۔ لہٰذا میں نے قادیانیت سے توبہ کرنے اور مسلمان ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں بہت خوش ہوا اور اسے قریبی مسجد کے امام صاحب کے پاس لے گیا اور اس نے کلمہ طیبہ پڑھ کر اسلام قبول کرلیا۔ پھر اسے مولانا مودودیؒ کی چند کتب بھی مطالعے کیلئے دیں کہ اسلام کا مطالعہ کرو تاکہ پورے اطمینان کے ساتھ اسلام کی راہ پر چل سکو۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس کے فضل و کرم سے مجھے یہ سعادت نصیب ہوئی۔

 ٭مجھے ایک تلخ تجربہ بھی ہوا۔ ایک عیسائی کو میں نے دعوت دی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں کو ہدایت کی تھی کہ میرے بعد ایک نبی آئے گا، تم اس کی پیروی کرنا اور اس پر ایمان لے آنا، لہٰذا اگر تم سچے عیسائی ہو تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ کہ یہی وہ نبیؐ ہیں جن کی آمد کی خبر حضرت عیسیٰؑ نے دی تھی۔ اس نے کہاکہ آپ کی بات صحیح ہے اور میں اسلام قبول بھی کرلوں مگر جب میں عیسائیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کا کردار دیکھتا ہوں تو سچ پوچھو تو مجھے اپنے عیسائی بھائی ہی بہتر لگتے ہیں ۔ وہ تو یہ بات کہہ چلا گیا مگر میں سوچتا رہ گیا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج ایک شخص مسلمانوں کے کردار کی وجہ سے اسلام قبول کرنے آمادہ نہیں ۔

تبصرے بند ہیں۔