ڈاکٹر عمیر انس
مترجم: سعد احمد
ہندوستان میں کسی شخص یا کسی ادارہ کے لئے لفظ ”مسلم“ آج ایک انتہائی حساس پیمانہ بن چکا ہے۔ اس تعلق سے ہمارا قومی تصور ایک ایسے چیمبر کے طور سے ابھر رہا ہے جہاں لفظ پاکستان، جناح، اسلام، مسلم، دہشت گردی، کشمیر، مدرسہ، سعودی عربیہ، دبئی، طالبان، جہاد، مغل، تاج محل، بنگلہ دیشی، روہنگیا ایک ہی معانی اور ایک ہی ومفہوم کی گونج پیداکرتےہیں۔ جوہندومخالف یا قوم مخالف سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پچھلےدنوں جب ہمارے نائب صدرجمہوریہ جناب حامد انصاری جوکہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں، کو جب علی گڑھ یونی ورسٹی کورٹ کی طرف سے یونی ورسٹی کے ہال آف فیم کے لیے بلایا گیا تو انہیں یونیورسٹی کی بلڈنگ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ ہندو واہنی تنظیم نے ان کے جتھے پر حملہ کیا۔ نوجوان طلبہ کثیر تعداد میں زخمی ہوئے اور رپورٹس کے مطابق لوکل ایڈمنسٹریشن نےان پرناتوقدغن لگانے کی کوشش کی اورناان کی اس بہیمانہ حرکت پرکان دھرا۔
مفاد پرستوں کی جماعتوں سے جوجھنا علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے وجود کا جزو لاینفک ہے۔ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی کی بنیاد سرسید احمد خان نے ۱۸۷۵ میں ایک قومی تحریک کی شکل میں رکھی، جسے برٹش راج نے انیس سو بیس تک قبولیت کا درجہ نہیں دیا اس کے برعکس بنارس ہندو یونی ورسٹی کو۱۹۱۵میں ہی قبولیت کا درجہ مل گیا بلکہ برطانیہ نے علیگڑھ کی MAO کے حصول کی کوششوں کو ہی مسترد کردیا آیا۔ برطانیہ کوظاہری طور سے یہ باور کرانا تھا کہ وہ دونوں یونی ورسٹیوں کے ساتھ مساوی سلوک کر رہی ہے۔ یونی ورسٹی کی بنیاد 467.6 ایکڑ زمین پر رکھی گئی ہے۔ اس کے اندر ہاسٹل ہیں جن کے نام ملک کے اہم لیڈروں کے نام پر رکھے گئے ہیں مثلا بی آر امبیڈکر، سروجنی نائیڈو، دلائی لاما، اور بہت سے معروف مسلم، غیر مسلم، شیعہ، سنی، بائیں بازو والے، نیشنلسٹ اور گلوبلسٹ کے نام پہ بھی رکھے گئے ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی آبادیات مخالف تحریکات کا مرکز رہی ہے۔ یونی ورسٹی ایک زمانے تک باالخصوص مشرقی اتر پردیش میں مارکسٹ نظریات کو مہمیز عطا کرتی رہی۔ یونی ورسٹی علماء کے بغض کا عتاب بھی جھیلتی رہی جیسا کہ بہت سے علماء نے سر سید احمد خان کے خلاف فتوی جاری کیا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ سر سید ان کی نگاہ میں حد سے زیادہ ماڈرن تھے۔ یونی ورسٹی کی فکر کا یہ کردار انتہائی مثبت اور متنوع رویّوں کا حامل ہے۔ یونی ورسٹی کے اس خاصۂ کو کئی اداریاتی نظام کے ذریعہ محفوظ کرنے کی کوشش کی بھی گئی جو بعد میں قومیت کی علم بردار کے حیثیت سے یونی ورسٹی کورٹ کےممبر کی شکل میں نمودارہوئے گئے۔ اس فہرست میں بڑے ناموں میں سے موہن داس کرم چند گاندھی، جواہر لال نہرو، مدرٹریسا، دلائی لامہ اور محمد علی جناح کے نام ہیں۔ ناموں کی یہ فہرست اس تنوع کی طرف اشارہ کرتی ہے جو درحقیقت علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کا بھی خاصہ ہے۔ اس ضمن میں مفادپر مبنی رویّے جو سیاست پر حاوی ہیں انہیں ہوا دینا یا انہیں زمین فراہم کرنا ایک الگ ہی مسئلہ کھڑا کر سکتا ہے.
ہم ماضی میں آزادی کے تعلق سے اس کا مشاہدہ کر چکے ہیں اور آج کانگریس اور بی جے پی کے حوالے سے ہم پھر اسی نقطہ پر پہنچ رہے ہیں۔ سالوں سے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے مختلف ڈیپارٹمنٹ پہلے درجے کی ریسرچ میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہاں کے بہت سے لائق اور فائق طلبہ کو صرف اس لیے نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ شاید علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے وسطی نام میں لفظ ”مسلم“ ہے؟
یونی ورسٹی میں حالیہ اختلاف محمد علی جناح کی تصویر سے متعلق ہے، جو یونی ورسٹی کے ایک پرانے یونین ہال میں پچھلے 80 سالوں سے لٹک رہی ہے۔ یہ محض ایک ڈرامہ کے اور کیا ہو سکتا ہے؟ کیوں علی گڑھ کے ایم پی ستیش کمار گوتم چند سالوں سے تصویر کو ہٹوانا چاہتے ہیں؟ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ کیا اس لیے کہ مسٹر گوتم کو لگتا ہے کہ الیکشن قریب ہے اور ان کی سیٹ کے لیے دوسرے دعوے دار جس میں یو پی کے سابق چیف منسٹر کلیان سنگھ کے بیٹے بھی شامل ہیں کے پاس ان سے زیادہ طاقتور ہاتھ ہیں؟ اگر یہ افواہ صحیح ہے تو یہ بھی سچ ہو سکتا ہے کہ مسٹر گوتم اپنے علاقہ کو بچانے کے لیے ایسا کھڑاگ پھیلانا چاھتے ہیں جو کسی بڑے پاکستانی شخصیت سے جڑا ہو اور بعد کا تماشا خود ان کی سیاست کے مقاصد پورے کر دے۔
کیا جناح کی تصویر بی جے پی کے ليے ایک بہت بڑا سیاسی مسئلہ ہے؟مسٹر گوتم کو چاہيے کہ وہ ملک کے پی ایم اور مہاراشٹرا کے ایم پی سے کہیں کہ وہ ممبئی میں واقع جناح کے گھر کو بھی مسمار کریں؟
لفظ ”مسلم“ اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی
قومی آرکائیوز میں موجود جناح کی تمام تصویریں، اس کے علاوہ دوسرے سیاسی قائدین کی حتی کہ مہاتما گاندھی کی تصویر یں بھی ہٹائیں؟ کیاجناح کےنام پہ کھڑا کیا گیا فتنہ ایک ایسا سیاسی داو ٴپیچ ہے جہاں دکھنے کے ليے مسلم مخالف ہوناضروری ہے اور مسلم مخالف ہونا یعنی مزید ووٹ کا ملنا ہے؟ اے ایم یو یونین ہال جو کہ ۱۸۸۴ میں بنایا گیا ہندوستان کی پہلی یونینز میں سے ایک ہے۔ اس نے جناح کو ۶مارچ ۱۹۴۰مدعو کرنے سے پہلے بہت سے مجاہدین آزادی، علماء اور آبادیات مخالف رہنماوٴں کی ایسے وقت میں میزبانی کی جب مسلم لیگ اور کانگریس لیڈران کے درمیان دوریاں بڑھ رہی تھیں۔ دو ہفتہ میں لیگ کے ذریعہ لاہور میں پاکستان ریزولیشن پاس ہونا تھا مگر ساتھ ہی یہ بھی صاف ہو چکا تھا کہ ہندوستانی مسلمان مذہب کی بنیادوں پہ کسی کو جواب دہ نہیں، حالاں کہ وہ ایک ملک کو دوسرے ملک پہ ترجیح دیں۔
علی گڑھ سے تھوڑی دوری پہ دارالعلوم دیوبند )دیوبند( تھا جس نے جناح اور انکی سیاسی فکر کی مخالفت میں جان توڑ کوششیں کیں ساتھ ہی ملک کے تقسیم کے خلاف سینہ سپر رہا۔ یہ بات صاف ہے کہ اسلام سے متعلق سارے ابہامات اور تضادات دراصل بی جے پی کی کوششوں کو یکسر خارج کرتے ہیں۔ بہرحال اے ایم یو کی خطا یہ ہے کہ وہ ماضی سے زیادہ منضبط نظر آتا ہے بنسبت مابعد آزادی والے ہندوستان سے، عہد حاضر سے، بالخصوص مابعد لبرلائزیشن والے ہندوستان سے۔ باوجودیکہ اے ایم یو نے ِعلم کے میدان میں ہندوستان کی بے تحاشہ خدمت کی مگر آزادی کے بعد اپنے سیاسی پندار کو مزید مستحکم کر سکنے میں اور ہندوستانی مسلمانوں کو ایک مثبت، متبادل اور جامع تصور دے سکنے میں یونی ورسٹی تقریباً ناکام رہی۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ یونی ورسٹی کا سیاسی کلچر عالمی مسلم ایجنڈا کے ليے انتہائی حساس موضوع ہو جب کہ ایک غریب کے ليے جس کی روزی روٹی اور دوسرے بنیادی حقوق ہر روز بدلتے ہیں، اس کے ليے کوئی مسئلہ ہی نا ہو؟ اس ضمن میں یونی ورسٹی کا دوسرے ترقی پسند اداروں سے روابط بڑھانے میں ردوقدح بھی ایک بڑی وجہ ہے جو ایک طرف تو یونی ورسٹی کی ساکھ پر اثر انداز ہوا وہیں آج کے حالات کاذمہ دار بھی ہے۔ اے ایم یو کو اپنے وسطی نام پہ شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں مگر حقیقتاً اسے ”مسلم تصور“ کے قید سے بھی نکلنا ہے۔ لہٰذا یونی ورسٹی کو تصویروں اتارنے کی بھی ضرورت نہیں خواہ وہ محمد علی جناح ہی کی کیوں ناہو۔
یہ مضمون ڈاکٹر عمیر انس کے انگریزی مضمون Does AMU suffer because its middle name is ‘Muslim’? کا اردو ترجمہ ہے۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔