مسلمانوں کا زوال اور اس کے اسباب

شہباز رشید بہورو

ایک انسان کی انفرادی زندگی کے دائرہ کار میں کامیابی اور ناکامی کی اصطلاحات کو کافی اہمیت حاصل ہے۔ایک انسان کی انفرادی شخصیت کو چار چاند تب لگتے ہیں جب وہ کسی کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے اور مایوسی اور پریشانی اسے تب ڈھانکتی ہے جب ناکامی کے مسلسل تھپیڑے لگتے ہیں ۔اس کی کامیابی اور ناکامی دونوں کی پشت پرکچھ اسباب کارفرما ہوتے ہیں۔اسی  طرح قوموں کی اجتماعی زندگی کے دائرہ کار میں عروج و زوال کی اصطلاحات کافی اہمیت حاصل ہے۔قوموں کے عروج میں بھی کئی عوامل مل کر اسباب کی شکل اختیار کرتے ہیں اور زوال میں بھی مساوی عمل کارفرما ہوتا ہے۔دنیا کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو شخصیات کے ساتھ ساتھ مختلف اقوام نے اپنی اپنی عظمت و سطوت کا سکہ پو رے عالم سے منوایا ہے اور ساتھ ساتھ میں عبرت کے طور پر بھی اپنے زوال کا نشان تاریخ کے صفحات پررقم کروایا ۔بابلی، یونانی، ایرانی، رومی و دیگر اقوام عروج و زوال کے عمل سے ہو کر گذرے ہیں ۔ان کے عروج و زوال کے اس غیر معمولی گردش نےانسانی فطرت میں ودیعت شوقِ تحقیق و تدقیق  کو انسان پر اپنا دماغ ،زبان اور قلم استعمال کرنے پر شدت سے ابھار کر اسے مختلف علوم کا موجد بنایا۔ان علوم کی مدد سے انسان نے ایک غیر معمولی نظم کےتحت تاریخ میں برپا ہوئی تبدیلیوں پر تجزیہ نگاری شروع کی، اسباب کا پتہ لگایا، واقعات کی ترتیب ڈھونڈی اور نتائج کی عکاسی کی۔ان قوموں کی تاریخ میں صرف فاتح و مفتوح کے مابین تصادم آرائیوں کو علمی جامہ پہنا کر تاریخ کی عمارت میں جا کر لٹکایا گیا ہے ۔ان اقوام کے عروج و زوال کے اسباب ایک عام عقلِ انسان کی رو سے وہی نظر آتے ہیں جو دکھتے ہیں۔

دنیا کی تاریخ میں ایک ایسی قوم بھی ابھری جس نے قومیت کے ذخائر کو ملت کے مادے میں تبدیل کیا، حسب و نسب کے تفاخر کو راست روی کے سامنے دفن کیا، برائی کے شجرِ خبیثہ کو اکھاڑ کر  اس کی جگہ نیکی کے شجرِ برگ و بار کو گاڑ دیا، اور راست روی کی بنیاد پر ایک ایسی ریاست قائم کی جس کی طرف بُری آنکھ سے دیکھنےوالے کی آنکھیں خیرہ ہو کر رہ جاتی اور خلوص سے دیکھنے والا اسی کا باشندہ بن جاتا۔مدینہ کی چھوٹی سی ریاست نے سُرعت کے ساتھ پھیل کر مراکش سے لیکر ہند اور یمن سے لیکر فرانس کی سرحدوں تک اپنی عظمت کا ڈنکا بجوایا اورجس کی فتوحات کا سلسلہ کبھی رکتا نہیں تھا،علامہ اقبال کے بقول

دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے

بحر ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے 

مشرق کی طرف اس سرعتِ پھیلاو نے اپنی موجوں کو قاسمی لہروں کے ساتھ ہندوستان کی دیوار سے ٹکرا کر دیوارِ ہند کو زمیں بوس کرکے المِ اسلام کو گاڑ کر بر صغیر ہند کی تاریخ کے دہانے کو ہی بدل دیا۔ مسلمانوں کی اس ٹھوس اور پر خلوص بنیاد نے مسلم حکومت کی آنے والے ایک ہزار سال تک کی تاریخ کو مسلمانوں کے نام کر دیا۔مختلف خاندانوں نےآکر اپنے نام چمکایے،بادشاہوں نے آکر بادشاہتیں کی، محلات تعمیر کیے، قیصر وکسری کی یادوں کو تازہ کرکے اپنے اسلاف کی تاریخ کو بھلا کر ان کے نام داغ دار کرکے اپنی تہذیب کو اغیار کی تہذیب میں ضم کرنے کی کو شیشیں کیں محمد بن قاسم کے بعد مسلمان تین سو سال تک سندھ تک محدود رہے اس کے بعد محمو د غزنوی و غوری نے آکر مسلم حکومت کو پھیلایا پھر اس کے بعد غلاماں،خلجی،تغلق،سید،لودھی،سوری،اور آخر پر مغل خاندان نے آکر ہند کا انتظام سسنبھالا۔بابر نے عظیم مغل حکومت قائم کی جس نے ہند میں مسلم اقتدار کو اس کی آخری بلندی پر پہنچادیا۔ اس سلسلہ کی آخری عظیم کڑی اورنگ زیب تھا۔اس عالی ہمت حکمران کے ساتھ ہی باہر سے آنے والے مسلم حکمرانوں کے اقتدار کا سورج گہناگیا۔آخر پر ہند میں مسلمانوں کے زوال کا سہرا مغلوں پر چھڑتا ہے۔ہندوستان کو جن جن مسلمان حکمرانوں نے اپنی حکومت سے سینچا ان کی فتوحات صرف زمینی سطح تک محدود تھیں انہوں نے لوگوں کے قلوب فتح نہیں کیے تھے۔جب تک ان کے ہاتھ میں تلوار رہی ان کا اقتدار یہاں کے باشندوں کے لیے قابلِ قبول رہا جب سیف اپنی آپسی نااتفاقی اور جھگڑوں کی وجہ سے گِھر گئی تو یہاں کے باشندوں کے ساتھ ساتھ بیرونی طاقتوں کے لیے بھی وہ نا قابلِ برداشت ہوئے۔

مسلمانوں کےعروج وزوال کے اسباب ہر دور میں یکساں ہیں۔بر صغیر میں مسلمانوں کو جو عروج حاصل تھا وہ سب صحرائے عرب کے جاں بازوں کا مرہونِ منت ہے۔وہ سب کچھ ان کی ٹھوس اور منظم بنیادوں کا نتیجہ تھا،وہ سب ان کی کشمکش کا نتیجہ تھا،ان کے متقیانہ خلوص کا عکس تھا۔مسلمانوں کے عروج میں جو عوامل شامل تھے ان کی غیر موجودگی نے ہی مسلمانوں کے زوال کے اسباب کا خمیر تیار کیا ۔برصغیر میں مسلمانوں کے زوال کے اسباب ایک مؤرخ کی نگاہ میں وہیں ہیں جو اسے دیگر اقوام کے معاملے میں دکھتے ہیں ۔گرچہ ان اسباب کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن ایک ایسی قوم اور ملت کے لیے جو امتِ وسط اور امت خیر کے القاب سے ملقب ہو کر ایک عظیم زمہ داری کے مقام پر فائز کی جا چکی ہو اس کے زوال کے پیچھے عام اسباب کے مقابلے میں خاص اسباب ہوتے ہیں ۔جیسے اس کے عروج کے اسباب بھی مختلف و منفرد ہوتے ہیں اس لیے اس کے زوال کے اسباب بھی مختلف ومنفرد ہوتے ہیں ۔ان کے عروج میں یونانیوں، ایرانیوں ،رومیوں و دیگر اقوام کی عام اسبابِ کامیابی کے مقابلے میں ایک عجیب و غریب سبب ہے وہ ہے ایک کتاب قرآن مجید ۔یہ کتاب ایسی کتاب ہے  جو ہزارسال پر مشتمل ذہین و فہیم انسانوں کی علمی کاوشوں کو اپنی ایک ایت میں مکمل انداز میں سمو کر کے ایک معیار کھڑا کرتی ہے۔جس سے سرمو اختلاف انسانوں کی تباہی کا سبب بنتی ہے۔جب کسی قوم نے اس کو چھوڑا تو ہر طرف بدامنی نظر آنے لگی۔ وہ قوم بام عروج سے پستی میں جاگری۔ پیش خدمت ہے ”موسیو کاسٹن کار“ کا اخبار ”شگارو“ میں لکھا ہوا ایک فقرہ :”زمین سے اگرحکومت قرآن جاتی رہے تو دنیا کا امن و امان کبھی قائم نہ رہے۔ہرش فیلڈ کے الفاظ میں؛:

”قرآن کریم اثر ڈالنے، یقین دلانے کی طاقت، فصاحت و بلاغت، ترکیب و بندش کے الفاظ میں بے نظیر اور دنیائے سائنس کے شعبوں کی حیرت انگیز ترقی کا باعث ہے۔“

”گارڈن جائیلڈن“ اسی مضمون کو واضح اور مضبوط انداز میں بیان کرتے ہیں:

”قرآن نفسیات کی پہلی کتاب بھی ہے اور روحانیت کی آخری کتاب بھی۔ وہ دنیا اور آخرت کا ایسا امتزاج ہے، جو درحقیقت دنیا کے تمام مذاہب سے بے نیاز کردیتا ہے، قرآن کریم کو دوسری کتابوں پر یہ فوقیت حاصل ہے کہ اس میں سیاست اور اصول حکمرانی کا مفصل تذکرہ ہے۔

یہی کتاب مسلمانوں کے عروج کا باعث تھی اور اس سے دوری زوال کا سبب ہی نہیں عین زوال ہے ۔ ایک مشہور پاکستانی قلمکار خالد جامعی لکھتے ہیں:

“تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں نے اندلس میں زبردست مادی ترقی کی لیکن روحانی طور پر وہ غیر مسلموں کو متاثر نہ کر سکے لہٰذا ہمیشہ اقلیت میں رہے۔ اندلس یورپ میں اسلام کی اشاعت نہ کر سکا۔ خلافت عثمانیہ اور مغلیہ سلطنت نے اپنے زیر تسلط علاقوں میں اسلام کی دعوت کو عام کرنے اور دائرہ اسلام کو وسیع کرنے پر کوئی توجہ نہ دی۔ یہ تمام سلطنتیں مادی طور پر بہت مستحکم سلطنتیں رہیں۔ لیکن رعایا پر یہ روحانی برتری قائم نہ کر سکے۔ انہوں نے زمین مسخر کرلی، دل مسخر نہ کر سکے۔ دعوت سے اغماض ہی ان کی ناکامی کا سبب تھا”۔

بر صغیر میں اگر ایک مؤرخ کی حیثیت سے زوال کا جائزہ لیا جائے تو بے شمار اسباب ہیں، اگر اک سیاستدان کی حیثیت سے لیا جائے تو اسباب کا ایک نیا فیلڈ متعارف ہو جائے گا، یا ایک سماجیات کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے لیا جائے تو بے شمار اسباب نظر آئیں گے یا پھر دیگر شعبہ جات کے نقطہ نظر سے جائزہ لیا جائے تو وہی عام اسباب پایے جائیں گے جو دیگر اقوام کے متعلق ہوتے ہیں ۔لیکن ہند میں زوال مسلمان حکمرانوں اور عوام دونوں کا اسلام کے روحانی نظام کے نہ قایم ہونے کی وجہ سے ہوا ہے۔حد یہ ہے کہ سپین میں جس قوم نے ہماری عظمت و سطوت کے میناروں کو زمیں بوس کیا اسی قوم نے ہند میں بھی آکر ہماری رفعت و بلندی کے ترانوں کو خاموش کر دیا۔ہمارا عروج اسلام کی وجہ سے ہوا تھا اور ہمارا زوال اس سے دور رہنے سے ہوا۔ہند میں زوال کے مختلف اسباب میں ایک کلیدی سبب جو ہمارے زوال کا اصلی مظہر تھا اور آج بھی ہے وہ ہے قرآن سے دوری۔مسلمانوں کی زلت و رسوائی، زوال و گراوٹ کا سبب علامہ اقبالؒ نے ایک شعر میں بیان کیا ہے:

خوار از مہجوری قرآں شدی

شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شدی

اےمسلماں تیری زلت ورسوائی کا اصلی سبب یہ ہے کہ تو قرآن سے دور ہے اور بے تعلق ہو گیا ہہے، لیکن تو اپنی اس زبوں حالی پر الزام گردشِ زمانہ کو دے رہا ہے ۔غیر مسلم مؤرخین کی طرح جیسے وی ڈی مہاجن، آرایس شرما،رومیلہ تھاپر ،بیپن چندر وغیرہ نے بھی ہند میں مسلمانوں کے زوال کےبے شمار اسباب گنوائے ہیں لیکن حکماء امت کے نزدیک زوال کا سب سے بڑا سبب قرآن وحدیث سے دوری۔آج بھی امت اگر دیگر اقوام کے لیے رحمت بننا چاہتی ہے تو اسے قرآن سے رشتہ جوڑنا چاہیے۔

تبصرے بند ہیں۔