مسہل و ملین ادویہ کی نوعیت عمل

شمیم ارشاد اعظمی

یونانی طریقہ کی بنیاد تین طریقوں پر ہے۔ اول مریض کا علاج غذا سے کیا جائے اور مختلف قسم کی تدابیر (اسہال، ادرار، قے، فصد، ارسال علق، حجامہ)، اگر اس سے مریض کو افاقہ نہ ہوتو مفرد دواؤں سے علاج کیا جائے، اس کے بعد مرکب ادویہ استعمال کی جائیں۔ اگر کسی مرض میں مندرجہ بالا تمام طریقے غیر مفید ہوں تو جراحت کے ذریعہ مرض کا علاج کیا جائے۔ اطباء نے مادی امراض میں استفراغ کے لئے مختلف قسم کی تدابیر اختیار کئے ہیں، جیسے اسہال، ادرار، عمل عرق، ارسال علق، فصد وغیرہ، لیکن اس میں سب سے مفید اور اہم تدبیر اسہال کی ہے۔ چنانچہ اطبا نے نہ صرف یہ کہ عمل اسہال کی وکالت ہے بلکہ عملی طور سے بھی اسے انجام دیا ہے۔ اسہال کے ذریعہ ردی اخلاط اور رطوبت فاسدہ کے اخراج سے نہ صرف امراض کا ازالہ ہوتا ہے بلکہ اگر مناسب طریقوں اور شرطوں کے ساتھ اسہال کرایا جائے تو یہ حفظ صحت میں معاون ومددگار بھی ہوتاہے۔

ادویہ مسہلہ و ملینہ کا استعمال دیگر طبوں میں بھی مذکور ہے لیکن جس شرح و بسط اور فنی لوازمات کے ساتھ طب یو نانی میں اس کا تذکرہ ہے، دیگر طبوں میں نہیں ملتا ہے۔ جیسے طب جدید میں بھی مسہلات و ملینات کا ذکر ہے لیکن طب یو نانی کے مقابلہ میں یہ نظریہ بہت محدود ہے۔ طب جدید میں مسہلات و ملینات کا ذکر طب یو نانی کی تعلیم کے ہی ارد گردگھومتا نظر آتا ہے۔ اورا سی وجہ سے بہت حد تک اس سے مماثلت بھی رکھتا ہے۔ طب جدید میں مسہلات کا استعمال قبض کے علاج اور کچھ تدابیر جیسے ما قبل جراحی، امعاء کی صفائی اور تفتیشات تک محدود ہے، لیکن طب یونانی میں ادویہ مسہلہ کا استعمال علاج و معالجہ کے ایک بڑے حصے پر محیط ہے۔ طب جدید نے اس قسم کی  ادویہ کو Laxative (ملین) کے نام سے ذکر کیا ہے البتہ خفت و شدت کے لحاظ سے اسے دو علاحدہ حصوں میں بیان کیا گیا ہے۔ جس دوا کا عمل خفیف ہوتا ہے اسے laxative  (ملین) اور جس کا عمل شدید ہوتا ہے اسے Purgative  (مسہل ) کہاگیا ہے۔ لیکن تمام ملینات و مسہلات کو طب جدید نے چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ (۱) بعض ادویہ امعاء میں جاکر پھو ل جاتی ہیں جس سے آنتوں میں کھینچاؤ پیدا ہوتا ہے اور وزن کے ذریعہ مادہ نیچے کی جانب آتاہے۔ طب یونانی میں اس طرح کی ادویہ ملین کے باب میں مذکور ہیں جیسے اسبغول، بارتنگ و غیرہ۔ (۲) کچھ دوائیں مادہ براز کو نرم کرتی ہیں جس سے وہ اخراج کے قابل ہوجاتا ہے۔ (۳)کچھ ادویہ امعاء میں تحریک پہونچا کر مادہ کو خارج کرتی ہیں، اس صورت میں نہ صرف امعاء کی حرکت بڑھتی ہے بلکہ ایسی صورت میں کافی مقدار میں مائیت کا اجتماع ہوتا ہے۔ طب یونانی میں اس طرح کی ادویہ اپنی حدت اور سوزش کی وجہ فعل اسہال انجام دیتی ہیں جیسے فرفیون وغیرہ۔ (۳) کچھ دوائیں  ولوجی دباؤ(Osmotic pressure) کے ذریعہ امعاء میں مائیت کے اجتماع کا سبب ہوتی ہیں۔

طب جدید میں تمام مسہلات کی نوعیت عمل یہ ہوتی ہے کہ وہ براز میں مائیت کی مقدار بڑھا دیتی ہیں اور یہ عمل مندرجہ ذیل طریقوں سے انجام پاتا ہے۔

 (۱) ولوجی عمل:اس کی وجہ سے امعاء میں پانی اور نمکیات کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔

 (۲) کچھ ادویہ امعاء کی غشاء مخاطی پر عمل کرکے نمک اور پانی کے انجذاب کو روک دیتی ہیں۔

 (۳)  کچھ ادویہ امعاء کی حرکت کو بڑھا دیتی ہیں جس سے نمکیات اور مائیت کے انجذاب کے لئے خاطر خواہ وقت نہیں مل پاتا۔

طب یونانی میں مسہلات کا دائرہ عمل طب جدید کے بالمقابل بہت وسیع ہے۔ طب یو نا نی میں ادویہ کے عمل کا معمولی فرق س   ایک  نئی  اصطلاح کا سبب ہوتا ہے۔ جیسے بالاذلاق، بالعصر، بالتحلیل و غیرہ۔ اس کے علاوہ طب یو نا نی میں مسہل کا عمل امعاء تک محدود نہیں ہے بلکہ پورے جسم پر محیط ہے اور یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک انسجہ سے ردی اخلاط کا اخراج نہ ہوجائے جبکہ طب جدید مین یہ عمل صرف قنا ت غذائی تک ہی محدود ہے۔

محمد بن زکریا رازی کتاب المنصوری میں لکھتے ہیں۔ ’’ اسہال کے ذریعہ جسم کو ان ردی اخلاط سے پاک کیا جاتا ہے جو غذا میں بے ترتیبی، عدم پر ہیز یا جسم کے غیر معتدل ہونے کی وجہ سے پیدا ہوگئے ہوں۔ لہذا وقتاً فوقتاً مسہل ادویہ کا استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اس طریقہ سے تکلیف دہ اثرات کا استفراغ ہوجاتا ہے۔ ‘‘ ابن رشد لکھتے ہیں کہ دوائے مسہل کے ذریعہ استفراغ کے چند مواقع ہیں۔ ایک یہ کہ اخلاط صرف اپنی کیفیت میں غیر معتدل ہو جائیں جسے ’ ردائت اخلاط‘ کہا جاتا ہے دوسرا یہ کہ جب دونوں چیزیں ایک ساتھ ہوں یعنی اخلاط اپنی کیفیت و کمیت دونوں میں غیر معتدل ہوجائے۔

 وہ دوائیں جو اسہال لاتی ہیں طب یو نا نی میں اصطلاحاً انہیں ادویہ مسہلہ کہا جاتا ہے۔ مسہل دوا جب معدہ میں پہونچتی ہے تو اعضاء سے اخلاط کو معدہ اور آنتوں کی طرف کھینچ لاتی ہے پھر ان کو براز کے راستے بدن سے خارج کرتی ہے۔ عمل، تاثیر اور قوت کے اعتبار سے ادویہ مسہلہ کی مختلف قسمیں ہیں۔ کچھ ایسی ہیں جن کے اندر قوت زیادہ ہوتی ہے تو ان کا عمل بھی شدید ہوتا ہے جیسے تربد، خربق سیاہ، سقمونیا، شحم حنظل، صبر، غاریقون وغیرہ اور کچھ ادویہ مسہلہ ایسی بھی ہیں جن کے اندر قوت خفیف ہوتی ہے لہذا ان کا عمل بھی خفیف ہوتا ہے جیسے آلو بخارا، بنفشہ وغیرہ۔ تاثیرکے لحاظ سے بھی انہیں مختلف خانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جیسے مسہل بالتلئین ( ترنجبین، شیر خشت وغیرہ)، مسہل بالازلاق (آلو بخارا، سپستاں، تخم خطمی)، مسہل بالجلا (بورۂ ارمنی)، مسہل بالعصر ( ہلیلہ جات، شربت ورد ) مسہل بالاذابت (ترنجبین) وغیرہ۔

افعال و تاثیر کے علاوہ ادویہ مسہلہ کوا خلاط کے اعتبار سے بھی تقسیم کیا جاتاہے۔ جیسے ادویہ مسہلہ صفراویہ، ادویہ مسہلہ سوداویہ ادور ادویہ مسہلہ بلغمیہ وغیرہ۔ محمد بن زکریارازی نے اپنی کتاب ’کتاب المرشد ‘میں انہیں اس طرح بیان کیا ہے۔

ادویہ مسہلہ صفرا:ہلیلہ زرد، صبر اور سقمونیا قوی مسہل ہیں۔ اجاص، بنفشہ، لبلاب، نچوڑا ہو ارمان حامض بھی اپنے چھلکے اور شحم کے ساتھ سکون اور لینت کے ساتھ مسہل صفراء ہیں۔

 ادویہ مسہل سودا :خربق اسود سب سے قوی ہے اس کے بعدگل ارمنی، افتیمون، غاریقون، ہلیلہ سیاہ اور بسفائج وغیرہ۔

 ادویہ مسہل بلغم: شحم حنظل سب سے قوی ہے۔ قثاء الحمار، قنطوریون دقیق، تربد، بزر الانجرہ، مغز قرطم وغیرہ

مسہل مائیت ادویہ: مازریون سب سے قوی ہے۔ فربیون، شبرم، ایرسا و قاقلی وغیرہ

ابن زہر نے کتاب التیسیر میں انہیں ادویہ مخرج سوداء و ادویہ مخرج بلغم کا نام دیاہے۔ لکھتے ہیں :

ادویہ مخرج سوداء: افتیمون، حجر لاجورد، خربق سیاہ اور بسفائج اخراج سوداء کے لئے مخصوص ادویہ ہیں۔

ادویہ مخرج بلغم : شحم حنظل، صبر زرد، تخم قرطم، مقل اور تخم انجرہ اخراج بلغم کی مخصوص ادویہ ہیں

حکیم نجم الغنی نے ادویہ مسہلہ کی خفت و شدت کے لحاظ سے تقسیم کی ہے۔ اس میں جو زیادہ قوی ہیں اور اصلاح و تدبیر کی محتاج ہیں اسے وہ دوائے ’’مسہل ذو الخاصیت‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ متوسط درجہ کی ادویہ مسہلہ جو قوی تو ہوتی ہیں مگر اصلاح کی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی ہے اسے’’ دوائے مسہل‘‘ کہتے ہیں۔ تیسری قسم وہ ہے جس سے کسی قسم کا کوئی ضرر نہیں پیدا ہوتا ہے۔ اس کا نام ’’ملائم مسہل‘‘ رکھا ہے۔ یہ کیفیت، مادہ اور صورت تینوں سے عمل کرتی ہے۔ وہ  لکھتے ہیں۔

’’  اگر قوت مسہلہ قوی ہے یعنی نہایت سخت دست آور ہے اور واسطے گھٹانے قوت اور شدت تاثیر کے اصلاح یا تدبیر یا تشویہ کی محتاج ہے تو اس کو دوائے مسہل ذوالخا صیت کہتے ہیں۔ جیسے: جمالگوٹہ، سقمونیا اور کٹکی وغیرہ۔  اگر متوسط ہے یعنی سخت دست آورہے مگر نہایت سخت نہیں ہے تو اس کو دوائے مسہل کہتے ہیں۔ دوائے مسہل ہر فعل  میں دوائے مسہل ذوالخاصیت سے کم ہے اور زیادہ اصلاح کی محتاج نہیں ہے جیسے: سنا اور نسوت  وغیرہ۔ سنا کو  گل سرخ کے ساتھ کھانا  اور نسوت و ہڑ کو روغن بادام میں چرب کر نا کافی ہے۔ اور اگر ضعیف ہے یعنی ملائم مسہل ہے تو اکثر اس کی تاثیر کیفیت، مادہ اور صورت تینوں سے ہوتی ہے۔ اس میں قوت نفوذ بہت نہیں ہوتی لیکن قوت جالیہ سے خالی نہیں ہوتی۔ اس قسم کی دواؤں کے استعمال سے نہ آنتوں میں سوزش اور نہ بدن میں کسی طرح جلن ہوتی ہے۔ ان میں بعض بالکل اصلاح کی محتاج نہیں ہوتیں ترنجبین، شیر خشت، املی، آلو بخارا اور بعض تھوڑی اصلاح کی محتاج ہوتی ہیں جیسے املتاس کو مغز روغن یا روغن گل سے چکنا کر کے دینا چاہئے تاکہ سطح امعاء میں چپک  کر زخم نہ ڈالے اور پیچش نہ پیدا کرے۔ ‘‘

خزائن الادویہ کی مذکورہ عبارت سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ ادویہ مسہلہ کیفیت، مادہ اور صورت تینوں سے عمل کرتی ہیں۔ لیکن۔ ملا سدیدی نے شرح میں قانون میں لکھا ہے کہ دوائے مسہل صورت نوعیہ اور کیفیت سے جو اس کی معین ہوتی ہے دست لاتی ہے اور دواء ملین صورت نوعیہ کے فعل کی محتاج نہیں ہوتی جیسے لعاب اسبغول اور آلو بخارا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مسہل ادویہ صورت نوعیہ سے ہی عمل کرتی ہیں۔ اس میں کیفیت معین تو ہوسکتی ہے مگر وہ عمل اسہال نہیں کر سکتی ہے۔

ادویہ مسہلہ کی نوعیت کے بارے میں اطباء کے تین مذاہب پائے جاتے ہیں۔ ذیل میں انہیں تفصیل سے بیان کیا جا رہا ہے۔

(۱) جمہور کا مذہب یہ ہے کہ دوا اپنی خاصیت اور اور اپنی کشش سے کسی خاص خلط کو جذب کرتی ہے، خواہ وہ خلط غلیظ ہو یارقیق۔ جیسے سقمونیا کی قوت جاذبہ اسی خلط کو جذب کرتی ہے جس کے ساتھ اسے خصوصیت ہے یعنی صفرا۔ اسی طرح تربدبلغم کو جذ ب کرتی ہے، افسنتین سوداء کو۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر مسہل دوا کے اندر ایک مخصوص قوت جا ذبہ ہوتی ہے جو اسی خلط کو جذب کرتی ہے جس کے ساتھ اسے خصوصیت و تعلق حاصل ہے۔ اطبا نے مثال دی ہے کہ مقناطیس کی قوت جاذبہ لوہے کو وزنی ہونے کے باوجود اپنی طر ف کھینچ لیتی ہے جبکہ روئی جیسی ہلکی پھلکی چیز کو اس لئے نہیں کھینچ پاتی کہ اس سے اس کا تعلق خاص نہیں ہے۔

(۲) دوسرا مذہب یہ ہے کہ مسہل دوا میں کسی خاص خلط کو جذب کر نے کی خاصیت اور کشش نہیں ہوتی، بلکہ ہر مسہل دوااپنے رقیق اخلاط کو خارج کر تی ہے، اس کے بعد درجہ بدرجہ غلیظ کو پھر اس سے زیادہ غلیظ کو۔ یہ خیال بقراط کا ہے۔ علی بن عباس مجوسی نے کامل الصناعہ میں  بقراط کی کتاب ’’ طبیعت الانسان ‘‘ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ’’ ہر ایک دوائے مسہل جب معدہ میں پہونچتی ہے اس کی شان سے یہ بات ہے کہ پہلے اس خلط کو جذب کرتی ہے جس کے جذب ہونے کی لیاقت اس دوا سے ہے پھر اگر اسے دوائیں بعد جذب ہونے اور خارج ہوجانے اسی خلط کے قوت کچھ باقی ہے ا ور اخلاط کو بھی جذب کرکے اسہال کے ذریعہ سے دفع کرے گی اور دیگر اخلاط کو دوبارہ جب ہی جذب کرے گی کہ رقیق اور لطیف ہو اس کی توضیح یہ ہے کہ مثلاً کسی دوا کی شان سے خلط صفراوی کا خارج کرنا ہے پہلے تا امکان اسی خلط کا اخراج کرے گی پھر اگر اس دوا میں قوت ایسی باقی ہے کہ اور بھی کسی چیز کا جذب کر سکتی ہے بلغم کو جذب کرے گی اگر بلغم بہ نسبت خلط سوداوی کے زیادہ تر رقیق اور لطیف ہو اور بعد اخراج بلغم کے بھی اگر دوا میں قوت باقی رہے سودا کو جذب کرے گی اور پھر سوداء کے جذب کرنے کے بعد  اگر اس میں قوت باقی ہے خون کو جذب کرے گی۔ اسی طرح اگر کسی دوا کی خاصیت اسہال بلغم کی ہے تو پہلے بلغم کو خارج کر بعد اس کے صفراء کو اس کے بعد سوداء کو اس کے بعد خون کو جذب کر کے خارج کر دے گی۔ ‘‘

برہان الدین نفیسی نے اس قول کو مسترد کر دیا ہے۔ لکھتے ہیں ’’ اگر یہ صحیح ہوتا تو مسہل دوا سے غلیظ مواد ہمیشہ رقیق مواد کے خارج ہو جانے کے بعد ہی جذ ب ہوتے حالانکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ سودا ء کی مسہل دوا پہلے سوداء ہی کو جذب کرتی ہے  اور دوسرے اخلاط کو ان کی رقت کے باوجود پہلے نہیں جذب کرتی۔ یہی حال بلغم کی مسہل دوا کا بھی ہے۔

(۳) جالینوس کا مذہب یہ ہے کہ ہر مسہل دوا اس خلط کو جذ ب کرتی ہے، جو اس دوا سے مشابہ ہوتی ہے۔ یعنی اپنے مشابہ اور ہم جنس خلط کو ـ’’ ہم جنس ہونے (مشاکلت) کی وجہ سے جذب کرتی ہے۔ جالینوس کے نزدیک ایسا اس لئے ہے کہ دوا جاذب اور خلط مجذوب دونوں جوہر کے لحاظ سے ایک دوسرے کے مشابہ اور ہم جنس ہوتی ہیں۔ اور دوا خلط کو اسی بنا پر جذب کرتی ہے۔ جالینوس نے یہ خیال اس بناء پر قائم کیا  ہے کہ غیر سمی مسہل دوا سے جب دست نہیں آتے اور وہ ہضم ہوجاتی ہے تو وہ مشابہ اور ہم جنس ہونے کی وجہ سے اسی خلط کو پیدا کر دیتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ خلط اس حالت میں بدن کے اندر زیادہ ہوجاتی ہے۔ یہاں مسہل دوا کے غیر سمی ہونے کی قید اس وجہ سے لگائی گئی ہے کہ سمی دوا سرے سے کوئی خلط ہی نہیں پیدا کرتی چہ جائیکہ وہ ایسی خلط پیدا کرسکے جسے جذب کرنا اس کی خا صیت ہے۔ نفیسی نے اس خیال کو مستردکرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو اس خلط کی اتنی ہی مقدار بڑھتی جتنی دوا اس خلط کی طرف مستحیل ہوتی، حالانکہ ایسا نہیں ہوتا  بلکہ دست نہ آنے سے جو خلط پیدا ہوتی ہے وہ بہت زیادہ ہوتی ہے اور اس کی مقدار بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اور بدن میں خلط کی یہ کثرت دست نہ آنے کے وقت اس لئے ہوجاتی ہے کہ  اس سے اس خلط کے اندرحرکت پیدا ہوجاتی ہے جسے مسہل دوا کے ذریعہ خارج کرنا مد نظر تھا۔ الغرض اس خلط کی کثرت اس لئے ہوجاتی ہے کہ حرکت کی حرارت سے اس میں تخلخل پیدا ہوجاتا ہے۔

علی بن عباس مجو س لکھتے ہیں کہ ادویہ مسہلہ سب کی سب ایک ہی قسم کی قوت سے اسہال طبیعت نہیں کرتی ہیں بلکہ بعض دوا بوجہ قبض کے اسہال کرتی ہیں جیسے ہلیلہ اور بعض ادویہ بوجہ جلا کے دست آور ہے جیسے شورہ، نمکین اور میٹھی چیزیں اور بعض ادویہ بوجہ حدت اور تیزی کے مسہل ہوتی ہیں جیسے فرفیون اور بعض ادویہ بسبب لزوجت اور چسپیدگی کے جیسے لبلاب یعنی عشق پیچاں اور بعض ادویہ بوجہ قوت جاذبہ کے کہ وہ قوت اپنی مشاکل اور مشابہ خلط بدن سے جذب کرتی ہے جیسے سقمونیا کہ خلط صفراوی کو تمام بدن سے جذب کرتی ہے جیسے حجر مقناطیس لوہے کو جذب کرتا ہے اسی طرح اور ادویہ بھی جو بذریعہ جذب کے دست آور ہیں وہ اسی خلط کی مسہل ہوتی ہیں جو ان کی مشاکل ہیں اسی طرح پر یعنی بطور جذب مقناطیس کے۔

ابن رشد نے مسہل ادویہ کی نوعیت عمل اور جذب اخلاط کے بارے میں بڑی تفصیل سے بحث کی ہے۔ ابن رشد کے مطابق مسہل ادویہ اپنی مخصوص حرارت سے اخلاط کو جذب کر کے عمل اسہال انجام دیتی ہیں۔ لکھتے ہیں :

’’ دواء مسہل جسم کے زیریں یا بالائی مقامات میں سے اسی خلط کو بذریعہ اسہال باہر کرتی ہے جو اس دوا کے ساتھ مخصوص ہے۔ مثلا ً کسی کے پیر میں نملہ ہوتو سقمونیا اس مقام پر کام کرے گی جہاں نملہ ہے، اسی بنا پر اندرون جسم کے خلط صفراوی کو باہر کی طرف حرکت دینے والی دوا کے علاوہ دوسری چیزیں نہیں ہو سکتی۔ یہ حرکت جذب کر نے سے ہوتی ہے۔ دواؤں میں کسی خاص خلط کو جذب کر نے کا ہی فعل نہیں ہوتا جیسے سقمونیا صفرا کو اور حجر لاجورد سوداء کو جذب کرتی ہے بلکہ بعض دوائیں مخصوص اعضاء سے بھی جذب کرتی ہیں۔ مثلا ً گوند گاڑھے بلغمی اخلاط کو اوتار و مفاصل سے جذ ب کرتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دوائیں جذب کے فعل کے ساتھ اخلاط کو ایک دوسرے سے جدا کر کے (عضو ماؤف کی طرف) بھیجنے کا فعل بھی انجام دیں، کیونکہ خون میں اکثر اخلاط بالقویٰ موجود ہوتے ہیں۔ غذا کے راستے سے جب اخلاط جذب ہوکر معدہ اور آنتوں کی طرف جاتے ہیں تو قوت دافعہ ان کو نکالنے کے لئے حر کت میں آجاتی ہے۔ ممکن ہے کہ جس عضو میں خلط ہو اس کی قوت دافعہ دوا کے فعل کی معاون ہو یعنی جب دوا اس خلط کو جذب کرنا شروع کرے تو عضو کی قوت دافعہ بھی اس کورفع کر نے لئے حرکت کرے۔ چنانچہ جب قوت دافعہ کا فعل زیادہ ہوتا ہے تو شدید استفراغ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جذب کا فعل رگوں کا منھ کھلنے سے ہوتا ہے اور رگوں کے منھ حرارت سے ہی کھلتے ہیں۔ اس بحث سے ثابت ہوا کہ مسہل دوائیں اپنی مخصوص حرارت سے اخلاط کو جذب کرتی ہیں۔ ‘‘

مذکورہ تفصیل سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ مسہل دوائیں مختلف نوعیت عمل کی حامل ہوتی ہیں۔ ان میں کوئی بذریعہ تحلیل مواد کو خارض کرتی  ہیں تو کوئی عصر کے ذریعہ۔ اسی طرح کوئی تلئین اور سوزش کے ذریعہ تو کوئی عمل جلا اور تقطیع سے اسہال لاتی ہیں۔ ادویہ مسہلہ کی نوعیت عمل اور تاثیر کی چند مثالیں درج ذیل ہیں :

٭بعض مسہل دواؤں کا فعل بذریعہ تحلیل مواد ہوتا ہے یعنی وہ مادہ کا محلول بنا کر پھر اس کو خارج کرتی ہیں۔ چنانچہ تربد کی صورت نوعیہ کا عمل یہی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ جب تربد کے ساتھ زنجبیل ملا دی جائے تو اس کا فعل اسہال قوی ہو جاتا ہے کیونکہ زنجبیل غلیظ رطوبت کو رقیق کر نے کی بہت اچھی دوا ہے۔

٭بعض مسہل عصر کے ذریعہ فعل انجام دیتی ہیں۔ یعنی کسی عضو کو اتنی شدت سے نچوڑنا کہ اس میں سے رطوبت خارج ہوجائے۔ جیسے ہلیلہ جات

٭بعض ادویہ کی صورت نوعیہ تلئین کے ذریعہ فعل اسہال انجام دیتی ہے۔ یعنی وہ اعضاء کو نرم اور ڈھیلا کر دیتی ہے، اس لئے اس کے اندر جو مواد ہے اسے آسانی سے نکالاجا سکتا ہے۔ شیر خشت، خیار شنبر، بنفشہ وغیرہ

٭بعض ادویہ کی صورت نوعیہ حدت اور سوزش کے ذریعہ فعل اسہال انجام دیتی ہے۔ جیسے فرفیون

٭بعض ادویہ یہ عمل جلا اور تقطیع کے ذریعہ انجام دیتی ہیں جیسے شکر سرخ، گڑ اور بورہ

٭بعض ادویہ ی صورت نوعیہ رطوبت لزجہ کی وجہ سے فعل اسہال انجام دیتی ہیں جیسے لبلاب

٭کھاری اور نمکین مسہلات کی صورت نوعیہ جذب رطوبت کے ذریعہ فعل انجام دیتی ہیں۔

٭جس دوا کی صورت نوعیہ مسہل ہو وہ اگر کڑوی یا چرپری ہے تو اس کا فعل اسہال تحلیل سے ہوگا۔ اگر وہ بکھٹی ہے تو اس کا فعل اسہال عصر سے ہوگا۔ اگر وہ کھٹی ہے تو اس کا فعل اسہال تقطیع مواد اور ازلاق سے ہوگا۔ آلو بخارا ترش ہے اور اس کی صورت نوعیہ مسہل ہے اس لئے وہ فعل تقطیع و ازلاق کے ذریعہ مسہل ہے۔

مسہل و ملین میں فرق

ابن زہر نے ادویہ ملینہ اور ادویہ مسہلہ میں تفریق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عمل تلئین میں کسی معلوم خلط کو اخراج نہیں ہوتا جبکہ مسہل ادویہ معلوم خلط کو جذب کر کے بدن سے خارج کرتی ہیں :

’’ہر دو میں یہ فرق ہے کہ ادویہ ملنیہ کسی خلط معلوم کا اخراج نہیں کرتیں البتہ وہ صرف فضلہ کو اور اس کے ساتھ جو بھی خلط اس کو مل جاتی ہے  بدن سے نکال دیتی ہے، لیکن یہ اخراج بطور عرض ہے۔ البتہ مسہل خلط معلوم کو بذریعہ عمل جذبدن انسانی سے خارج کرتا ہے اور اس کے لئے مخصوص ادویہ ہیں جو مخصوص خلط کو خارج کیا کرتی ہیں۔ ‘‘

ملا سدیدی نے شرح میں قانون میں لکھا ہے کہ دوائے مسہل صورت نوعیہ اور کیفیت سے جو اس کی معین ہوتی ہے دست لاتی ہے اور دواء ملین صورت نوعیہ کے فعل کی محتاج نہیں ہوتی جیسے لعاب اسبغول اور آلو بخارا۔

ادویہ مسہلہ کی اصلاح و قوت کے بیان میں

ادویہ مسہلہ میں بہت ساری دوائیں ایسی ہیں جن کی قوت شدید ہوتی ہے اور وہ اصلاح کی محتاج ہوتی ہیں۔ اگر ان کی اصلاح نہ کی جائے تو باعث مضرت ہوتی ہیں۔ لہذا انہیں مدبر کر کے استعمال کیا جانا چاہئے۔ بعض ایسی دوائیں بھی ہیں جن کے اندر بہت شدت نہیں ہوتی ہے اس لئے ان کی اصلاح کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔

کتابیات

خزائن الادویہ، حکیم نجم الغنی، ادارہ کتاب الشفاء، نئی دہلی، سن ندارد، صفحہ:۴۶

کامل الصناعہ، جلد دوم [اول](اردو ترجمہ)، علی بن عباس مجوسی، سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن، نئی دہلی، ۲۰۱۰، صفحہ:۳۰۲، ۳۰۴، ۳۰۷۔ ۳۱۸

کتاب التیسر (اردو ترجمہ) ابن زہر، سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن، نئی دہلی۱۹۸۶ء، صفحہ:۵۶

 کتاب الکلیات (اردو ترجمہ)، ابن رشد، سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن، نئی دہلی، ۱۹۸۷ء، صفحہ:۲۲۸، ۳۸۴

کتاب المختارات فی الطب، جلد اول، (اردو ترجمہ) ابن ہبل  بغدادی، سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن، نئی دہلی، ۲۰۰۳، صفحہ:۲۸۰، ۲۸۶

 کتاب المرشد(اردو ترجمہ : محمد رضی الاسلام ندوی)، محمد بن زکریا رازی، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی، ۱۹۹۴ء، صفحہ :۵۸۔ ۵۹

 کتاب المنصوری، (اردو ترجمہ) محمد بن زکریا رازی، سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن، نئی دہلی ۱۹۹۱ء، صفحہ:۱۵۹، ۱۴۔ ۳۱۲

 کلیات نفیسی، (اردو ترجمہ)برہان الدین نفیس، ادارہ مطبوعات سلیمانی، لاہور، بدون تاریخ، صفحہ:۴۹۵

 مقدمہ علم الادویہ، احتشام الحق قریشی، جواہر آفسیٹ پریس، نئی دہلی، ۱۹۹۵ء، صفحہ:۲۲۶۔ ۲۲۷

تبصرے بند ہیں۔