کیا ہے ’صدی کی ڈیل‘؟

تنویر آفاقی

ایک عرب تجزیہ نگار عبدالرحمن یوسف نے ’صدی کی ڈیل‘ کا تعارف اس طرح کرایا ہے:

’’اس ڈیل کا خلاصہ یہ ہے کہ ملتِ عرب کی کایا پلٹ ہو جائے گی، لیکن جو ملت دسیوں سال سے اس حال میں ہو کہ اس پر فوجی انقلابات مسلط ہوتے چلے آرہے ہوں، اس کے لیے حالات کی یہ کایا پلٹ کوئی عجیب بات نہیں ہوگی۔

اس ڈیل کے بعد ہمیشہ سے قائم چلے آ رہے سوالات کے جوابات تبدیل ہو جائیں گے۔ مثلاً ’’دشمن کون ہے؟‘‘ اس کا جواب (اسرائیل کے بجائے) مزاحمت کرنے والے فلسطینی قرار پائیں گے۔ ’’حلیف کون ہیں ‘‘ اس کا جواب ’’امن پسند‘‘، ’’ جمہوریت کے علم بردار‘‘، ’’صلح جو‘‘ اسرائیلی قرار پائیں گے جو (فلسطینی مزاحمت کے مقابل) اپنا دفاع کر نے پر ’’مجبور‘‘ ہیں۔

’’فلسطین کیاہے‘‘؟ اس کا جواب ہوگا ’’غزہ، ساتھ میں سیناء کاوہ تھوڑا بہت علاقہ جو اسے میسر آ ئے گا۔

’’اسرائیل کیا ہے‘‘؟ اس کا جواب ہوگا وہ علاقہ جسے اسرائیل اپنے لیے پسند کر لے۔ یعنی ان سوالات کے جوابات صہیونی خواہش کے مطابق بدل دیے جائیں گے۔ ‘‘ اس کے بعد تجزیہ نگار یوسف لکھتا ہے: ’’اس طرح ہمارے (اہل فلسطین) کے حالات بد سے بدترین ہو جائیں گے۔ اور یہ بدترین حالات ان ضمیر فروش عرب حکام کی وجہ سے پیدا ہوں گے جو دنیا کے نقشے پر اپنے وجود کو باقی رکھنے کی قیمت چکا رہے ہیں۔ ‘‘

’’صدی کی ڈیل‘‘ کے اس مختصر تمہیدی تعارف کے بعد ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس کا تعارف مزید وضاحت کے ساتھ پیش کیا جائے۔

’صدی کی ڈیل‘ ( Deal of the Century) دراصل فلسطینی قضیے کو حل کرنے کا ایک منصوبہ ہے جسے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پیش کیا ہے۔ اس منصوبے کی رو سے  فلسطین کی نئے سرے سے حد بندی کرکے جدید فلسطین تشکیل دیا جائے گا جو (الفلسطین الجدیدۃ) کے نام سے ہوگا۔ اس کی جزئیات و تفصیلات کا اعلان اگرچہ اسرائیلی انتخابات کے بعد ہوناتھا لیکن اب اس کا اعلان آئندہ جون بحرین کے دارالحکومت منامہ میں منعقدہونے والی کانفرنس میں کیا جائے گا۔ البتہ وقفے وقفے سے اس کی بعض شقیں اب بھی لیک ہوتی رہتی ہیں یا کی جاتی رہتی ہیں جو میڈیا اور عوام کے درمیان بحث و تشویش کا موضوع بنی رہتی ہیں۔ فلسطینی صدر عباس محمود کا خیال ہے کہ یہ منصوبہ دراصل ٹرمپ کے داماد ’کوشنر‘ اور مشرق وسطی کے ایلچی ’جیسن گرین بلاٹ‘ کا تیار کیا ہواہے، بلکہ یہ منصوبہ اصلاً اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا تھا۔ نیتن یاہو نے یہ منصوبہ امریکہ کو بیچ دیا ہے اور اب امریکہ اسے فلسطینیوں اور عربوں کے ہاتھوں فروخت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ‘‘

صدی کی ڈیل کی مزید تفصیلات

اس منصوبے پر گفتگو کا آغاز ۲۰۱۷ء میں ہو گیا تھا۔ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے چند ماہ بعد ہی امریکی اخبارات نے یہ خبر دینی شروع کر دی تھی کہ ٹرمپ انتظامیہ کے پاس ’یوشع بن آریہ‘ کا ایک منصوبہ ہے۔ یوشع بن آریہ القدس (یروشلم)کی ہیبریو (عبرانی)یونیورسٹی کا سابق سربراہ ہے، جسے جغرافیا کے میدان میں خدمات کے لیے اسرائیل ایوارڈ سے نواز چکا ہے۔ اس نے یہ منصوبہ ۲۰۰۳ء میں تیار کیا تھا کہ غزہ کی حدود بڑھا کرالعریش تک کر دی جائیں۔ جیورا آئی لینڈ (Giora Eiland)منصوبہ ۲۰۰۴ء بھی امریکہ کے پاس ہے، جس میں مصر سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ سیناء کے ۶۰۰ کلو میٹر اسکوائر کے علاقے سے فلسطینی آبادکاری کے لیے دست بردار ہو جائے۔ اس کے عوض اسے ۲۰۰ کلو میٹر اسکوائر کا علاقہ صحراء نقب (Negev Desert)میں دیا جائے گا اور اقتصادی نوازشیں اس پرمستزاد ہوں گی۔

اس ڈیل کے سلسلے میں کچھ باتیں تو وہ ہیں جو بعض سرکاری اہل کاروں کی طرف سے سامنے آتی رہی ہیں یا آ رہی ہیں۔ ان میں سے بعض چیزیں اگرچہ ایسی ہیں کہ جب تک اس ڈیل کا پورا نقشہ سامنے نہیں آجاتا اصل حقیقت واضح ہونا مشکل ہے۔ کبھی کہا گیا کہ یہ ڈیل کسی فلسطینی حکومت کے قیام کا موقع ہی نہیں رہنے دے گی۔ کبھی کہا گیا کہ فلسطینی حکومت قائم کرنے کی اجازت ہوگی اور مصر اس کے لیے سیناء میں بعض اراضی فراہم کرے گا۔ تاہم اب تک سامنے آنے والی باتوں کی روشنی میں چند باتیں جو صاف ہو کر نظر آنے لگی ہیں  وہ اس طرح ہیں :

۱۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی طرف سے شہر القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا جائے گا۔

۲۔ اسرائیل، تنظیم آزادی فلسطین اور حماس کے درمیان سہ فریقی معاہدے پر دستخط کرائے جائیں گے اور نئی فلسطینی حکومت قائم کی جاے گی جس کا نام ’’جدید فلسطین‘‘  ہوگا۔ یہ نئی حکومت مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر مشتمل ہوگی جہاں کوئی یہودی کالونی نہیں ہوگی۔ قریہ ابودیس، جس کو ایک دیوار کے ذریعے القدس سے جدا کر دیا گیا ہے، فلسطین کا دارالحکومت ہوگا۔ شہر القدس کا مشرقی حصہ خالی کر کے اس کے بعض اجزا کو مغربی کنارے میں شامل کر دیا جائے گا۔ بیت المقدس کی تقسیم عمل میں نہیں آئے گی۔ وہاں اسرائیلی اور فلسطینی دونوں کو آنے کی اجازت ہوگی۔ البتہ عرب آبادی کو جدید فلسطین میں منتقل کر دیا جائے گا، وہ اسرائیل میں نہیں رہ پائیں گے۔ شہر القدس کے تمام امور کی ذمہ دار یہودی القدس (یروشلم)میونسپلٹی کی ہوگی، سوائے تعلیم کے۔ اس کا انتظام جدید فلسطین کے ہاتھ میں ہوگا اور جدید فلسطین ہی یہودی القدس میونسپلٹی کو ارنونا اور پانی کا ٹیکس ادا کرے گا۔

۳۔ فلسطینی فریق کو ان متعدد اسرائیلی کالونیوں کو یہودیوں کے زیرانتظام باقی رکھنے پر اتفاق کرنا ہوگا جن کے بارے میں اقوام متحدہ کا یہ مطالبہ ہے کہ وہاں تعمیر روک دی جائے۔

۴۔ مغربی کنارے کو تین علاقو ں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ سیاسی اسٹریکچر غزہ میں ہو گا۔ ابودیس اور القدس کے درمیان ایک پل تعمیر کیا جائے گا جسے عبور کر کے مسلمان مسجد اقصی میں نماز کے لیے آ سکیں گے۔

۵۔ فلسطینی پناہ گزینوں سے وطن واپسی کا حق چھین لیا جائے گا۔ یعنی انھیں دوبارہ اپنے وطن میں واپس آنے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ امریکہ کی کوشش یہ ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کو عرب ممالک، بالخصوص، اردن اور مصر میں بسایا جائے۔ اس کے عوض ان دونو ں ممالک کو اقتصادی امداد فراہم کی جائے گی۔ چنانچہ ٹرمپ کے بعض اقدامات سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے۔ مثلاً امریکہ نے فسلطینیوں کو مدد فرام کرنے والی ایجنسی ’اونروا‘ کو دی جانے والی امداد کی مقدار گھٹا کر نصف کر دی ہے۔ اونروا (UNRWA-United Nations Relief and Works Agency for Palestine)اقوام متحدہ کا ایک ادارہ ہے جو اردن، شام، لبنان، مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں آباد فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد کرتا ہے۔

۶۔ جدید فلسطینی حکومت کی تشکیل اور اس کا انفراسٹرکچر کھڑا کرنے کے لیے خلیجی ممالک تقریباً ۱۰ ملین ڈالر پیش کریں گے۔ مصر ’جدید فلسطین‘ کو ایک ہوائی اڈہ بنانے، فیکٹریاں قائم کرنے اور تجارتی و زراعتی لین دین کے لیے قطعہ اراضی فراہم کرے گا۔ اس اراضی میں فلسطینیوں کو رہائش اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ غزہ کے اندر ایک ہوائی اڈہ، بحری بندرگاہ قائم کی جائے گی۔ اس کے علاوہ فلسطینیوں کی آبادکاری، زراعت، انڈسٹری اور نئے شہر کی تعمیر بھی شامل ہے۔

۷۔ یہودیوں کو عربوں کے مکانات خریدنے کی اجازت تو نہیں ہوگی، لیکن عربوں کو بھی یہودیوں کے مکانات خریدنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ شہر القدس میں دوسر ے علاقے شامل نہیں کیے جائیں گے۔

۸۔ ’’جدیدفلسطین‘‘ کو اپنی فوج، اپنے ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ صرف ان ہتھیاروں کو رکھنے کی اجازت ہوگی جو پولیس کے پاس ہوتے ہیں۔

۸۔ مصر’’ جدید فلسطین‘‘ کو جو اراضی فراہم کرے گا اس میں فلسطینیوں کو آباد ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وہ صرف ہوائی اڈے، فیکٹریاں وغیرہ قائم کرنے کے لیے ہوگی۔

۹۔ اراضی کا حجم اور سائز اور اس کی قیمت وہی ہوگی جس پر فریقین (اسرائیل اور فلسطین) کے درمیان ڈیل کی توثیق کرنے والے ممالک کی وساطت سے اتفاق ہو جائے گا۔ ڈیل توثیق کرنے والے ممالک سے مراد امریکہ، یوروپی اتحاد اور وہ خلیجی ممالک ہیں جو تیل پیدا کرتے ہیں۔

۱۰۔ اسرائیل اورجدید فلسطین کے درمیان اس معاہدے پر دستخط اس شرط پر ہوں گے کہ کسی بھی طرح کے خارجی حملوں سے جدید فلسطین کا دفاع اسرائیل کی ذمہ داری ہوگی، بشرطے کہ جدید فلسطین اسرائیل کو اس دفاع کی قیمت ادا کرے۔ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان بھی اس بات پر معاملات طے پائیں گے کہ حمایت و دفاع کے بدلے میں عرب ممالک اسرائیل کو کیا قیمت ادا کریں گے۔

حصہ داری کی تقسیم:

اس ڈیل کو نافذ کرنے میں امریکہ کی حصہ داری ۲۰ فی صد کی ہوگی۔ یوروپی اتحاد کی حصہ داری ۱۰ فی صد ہوگی اور تیل پیدا کرنے والی خلیجی ممالک کی حصہ داری ۷۰ فی صد ہوگی۔ خلیجی ممالک کے درمیان ۷۰ فی صد کا یہ تناسب ان کی تیل پیداوار کے تناسب سے تقسیم ہوگا۔ نئے فلسطین کی تعمیر کی غرض سے اس ڈیل کو نافذ کرنے کے لیے آئندہ پانچ برسوں کے دوران ۳۰ کروڑ ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔ اس رقم کی فراہمی سعودی عرب اور عرب امارات کے ذمہ ہو گی۔

ڈیل پر دستخط

اس پر دستخط کیے جانے کے وقت ہی حماس سے اس کا تمام اسلحہ لے لیا جائے گا۔ اس میں حماس کے رہنمائوں کا ذاتی اسلحہ بھی شامل ہوگا۔ یہ اسلحہ مصریوں کو دے دیا جائے گا۔ اس کے بدلے میں حماس کے لوگوں کو عرب حکومتوں کی جانب سے تنخواہیں دی جائیں گی۔

غزہ کی حدود کو عالمی تجارت کے لیے کھول دیا جائے گا۔ یہ تجارت اسرائیل اور مصر کے راستوں سے ہوگی۔ بحری راستوں سے بھی تجارت کے راستے کھول دیے جائیں گے۔

معاہدے پرایک سال مکمل ہو جانے کے بعد جدید فلسطین میں جمہوری انتخابات کرائے جائیں گے، جن میں ہر فلسطینی شہری کو حصہ لینے کا حق حاصل ہوگا۔ اور انتخابات پر ایک سال گزر جانے کے بعد بتدریج آئندہ تین برسوں کے دوران تمام قیدیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔ بحری بندرگاہ اور ہوائی اڈہ بھی جدید فلسطین کے قیام سے پانچ برس کے دوران بنا لیے جائیں گے۔ اس دوران جدید فلسطین اسرائیلی ہوائی اڈے اور بندرگاہ کا استعمال کرے گا۔ جدید فلسطین اور اسرائیل کے مابین ایک دوسرے کی سرحدیں عام آمد و رفت کے لیے اسی طرح کھلی رہیں گی جس طرح دوست ممالک کے لیے کھلی رہتی ہیں۔

ڈیل کی جو کچھ جزئیات سامنے آئی ہیں، ان سے یہ صاف ظاہر ہے کہ ڈیل کا یہ منصوبہ گزشتہ طے پانے والے تمام امن منصوبوں کے برخلاف ہے۔ گزشتہ جتنے بھی امن منصوبے طے پائے تھے وہ اس بنیاد پر قائم تھے کہ ایک فلسطینی حکومت قائم ہوگی جس کا دارالحکومت۱۹۶۷ء کی حدود پر مبنی مشرقی القدس ہو گا۔ سامنے آنی والی شقوں سے یہ بھی بالکل واضح ہے کہ ڈیل میں یہ بات بھی شامل ہے کہ عرب اور اسرائیل کے مابین تعلقات نارمل ہو جائیں گے، بلکہ یہ جز اس ڈیل کا بنیادی رکن ہوگا۔ اس ڈیل کے تحت آخری سودے بازی اس بات پر ہوگی کہ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان امن کے مقصد سے مذاکرات ہوں اور ان مذاکرات کی سربراہی سعودی عرب کرے گا۔

نہ ماننے کا انجام

اگر حماس اور تنظیم آزادی فلسطین اس ڈیل کو ماننے سے انکار کرتے ہیں تو امریکہ فلسطینیوں کو دی جانے والی تمام امداد کو کالعدم کر دے گا اور اس بات کی کوشش کرے گا کہ کوئی دوسرا ملک بھی فلسطینیوں کی مدد نہ کر سکے۔ اگر تنظیم آزادی فلسطین نے تو ڈیل سے اتفاق کر لیا، لیکن حماس اور جہاد اسلامی نے اتفاق نہ کیا تو اس کے انجام کی ذمہ داری ان دونوں تنظیموں کے سر ہوگی اورا سرائیل و حماس کے مابین کسی بھی قسم کے فوجی تصادم میں امریکہ اسرائیل کی مدد کرے گا اور حماس اور جہاد اسلامی کی قیادت کو ذاتی طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا۔ اس کی وجہ امریکہ کے نزدیک یہ ہے کہ وہ یہ برداشت نہیں کرے گا کہ ’چند سو لوگ‘ لاکھوں افراد کے مستقبل کو اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ اگر اسرائیل ڈیل پر اتفاق سے انکار کرتا ہے تو اس کو ملنے والی اقتصادی مدد بھی روک دی جائے گی۔

 ڈیل کے موافق و مخالف ممالک

اس ڈیل کو متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی تائیدحاصل ہے۔ بلکہ برطانوی ویب سائٹ مڈل ایسٹ آئی کے مطابق ٹرمپ کے مشیر خاص اور اس ڈیل کے روح رواں جیریڈ کوشنر نے سعودی ولی عہد سے ملاقات کرکے اس ڈیل کی جزئیات سے واقف بھی کرادیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس کو اس ڈیل پرراضی کرنے کی ذمہ داری بھی کوشنر نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر ڈالی تھی۔ گزشتہ نومبر میں محمد بن سلمان نے اس سلسلے میں محمود عباس سے ملاقات کرکے اسے تسلیم کرلینے کی درخواست کی تھی۔ یہ بھی کہا جاتاہے کہ ابن سلمان اس ڈیل کے نفاذ کے سلسلے میں اتنے پرجوش اس لیے ہیں یہ ڈیل اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان دوستی کی پہلی اینٹ کا کام کرے گی۔ اسرائیل کی دوستی سعودی عرب کے لیے اس لیے ضروری ہے کہ وہ ایرانی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے اپنا ہم نوا بنا سکے۔ اسی لیے ابن سلمان اس ڈیل کو نافذ کرنے کے لیے بڑی سے بڑی رقم لگانے کو تیار ہیں۔ ابن سلمان کا کہنا ہے : ’’جب تک فلسطینی مسئلہ حل نہیں ہو جاتا ہم اسرائیل کو اپنے ساتھ ملانے پر قادر نہیں ہو سکتے ہیں۔ ‘‘

دوسری طرف ابھی تک ایران اور اردن کے علاوہ کسی بھی ملک کی جانب سے اس طرح کا واضح بیان سامنے نہیں آیا ہے جس میں اس نے اس ڈیل سے عدم اتفاق یا اس کی مخالفت کا عندیہ دیا ہو۔ ایران نے کہا ہے کہ وہ فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں ’حزب اللہ‘ اور ’حماس‘ کے ساتھ ہے۔ روس نے بھی اس سے عدم اتفاق کا اشارہ دیا ہے۔ دوسرا ملک اردن ہے جس نے علی الاعلان اس ڈیل کو مسترد کیا ہے۔ شاہِ اردن عبداللہ نے کہا ہے: ’’مجھ پر دبائو ڈالا جا رہا، لیکن میرے لیے القدس ریڈ لائن ہے۔ میں یہ بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ میرے عوام بھی میرے ساتھ ہیں۔ جو لوگ ہم پر اثرانداز ہونا چاہتے ہیں، وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔ ‘‘

تبصرے بند ہیں۔