گلے کاٹنے سے آدم خوری تک

سلیمان سعود رشیدی

بے راہ روی کی جس روش پر ہندوستانی معاشرہ گامزن ہے، وہاں خیر کی امید کرنا عبث ہے۔ ایک درندہ بھی کسی جانور کے بچے کو کھاتے ہوئے ہزار بار اس کی معصومیت اور بچپن دیکھ کر پیچھے ہٹ جائے، مگر انسانی کھال منڈھے جو درندے ہمارے درمیان موجود ہیں وہ معصوم بچوں پر بھی رحم نہیں کھاتے۔ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا، جس میں جنگل کی تاریکی میں خرگوش کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو دکھایا گیا تھا، لیکن اس جگہ ان بچوں کی ماں نہیں تھی، کہاں گئی تھی چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر، یہ تو خدا جانے، اب وہ بچے بھوک سے بلک رہے تھے، کہ اس نیم اندھیرے میں ایک بھیڑیا آیا اور بچوں کو بھوک سے یہاں وہاں ہوتے دیکھ کر ان کے لیے چھوٹے چھوٹے پتے لاکر ان کے سامنے رکھتا گیا، وہ پتے لاتا، انھیں اپنے پیر سے مسلتا اور خرگوش کے سامنے کردیتا، تاکہ انھیں خوراک نگلنے میں مسئلہ نہ ہو، یہ تھا بھیڑیا، اور اس کے سامنے موجود تھے مجبور اور بے یار و مدد گار خرگوش کے بچے،بھیڑیا چاہتا تو ایک ہی وار میں ان پانچوں کو کھا جاتا، لیکن نہیں، شاید اسے ان معصوموں پر رحم آگیا۔ کیمرے کی آنکھ نے اس منظر کو محفوظ کرلیا۔ شاید خدا نے خرگوش کی ماں کو اسی لیے کسی کام میں الجھا دیا ہوگا تاکہ بھیڑیے کی نیکی انسانوں تک پہنچ جائے، لیکن بھیڑیا تو ہم انسانوں کے قبیل میں نفرت، خودغرضی اور شیطانیت کی علامت ہے، پھر یہ کون ہیں جو بھیڑیوں سے بھی ستر گنا زیادہ درندگی رکھتے ہیں، نہیں یہ انسان نہیں ہوسکتے، بھیڑیے نے تو معصوم بچے پر رحم کرلیا، لیکن یہ موذی جانور بچوں کی چیرپھاڑ کرتے ہوئے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں کپکپائے۔ ساڑھے چار سالہ ارجمند (فرضی نام)بھی ایک ایسے ہی جانور کا شکار بنی۔ اس کا بچپن، اس کی معصومیت بلکہ اس کی پوری زندگی نگل گیا یہ جانور، بے دردی سے توڑ ڈالا گیا اس گڑیا کے بچپن کو، دل خون کردینے والے ایسے واقعات اب روز کا قصہ بن چکے ہیں،میں ان جانوروں کو کیا نام دوں، کیا تشبیہہ دوں، زبان نے وہ لفظ ایجاد ہی نہیں کیا جو ان کی غلیظ فطرت اور مکروہ سیرت کا احاطہ کرسکے۔

خرگوش کے بچوں کو پیاس و بھوک سے بلکتے دیکھ کر بھیڑیے کو بھی پیار آجاتا ہے، جنگل میں درندے بھی کسی قانون اور اخلاقیات کی پیروی ضرور کرتے ہیں، مگر غلاظت سے بھرے یہ ’’انسان‘‘ ننھے فرشتوں کو اپنی ہوس کی آگ میں جلاڈالتے ہیں، پوری کی پوری زندگی کھا جاتے ہیں یہ انسان نما جانور۔

"ابن خلدون نے ایک جگہ لکھا ہے ،انسانی معاشرہ اسی کی بقااور سلامتی کے لیے تشکیل دیا گیا تھا”ورنہ تو زندگی غاروں میں بھی سانس لیتی رہتی، مگر تحفظ کی خواہش اسے معاشرتی زندگی کی طرف لے گئی تاکہ وہ کچھ اصول و ضوابط کی پابندی کے ساتھ ایک منظم اور محفوظ زندگی گزار سکے ،یوں معاشرہ وجودمیں آیا،لیکن اسکے باوجو د انسان غیر محفوظ ہے، خاص طور پر معصوم بچے،ہندوستان سمیت دنیا بھرمیں ،کیا آج کاانسان اتنا درندہ ہو گیا ہے کہ وہ معصوم بچوں سے جنسی لذت کشید کرتا ہے اور اپنی نفسانی خواہشات کا حصول اسے انسانیت کی تمام حدیں عبور کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

ہم ایسے کیوں ہیں ؟   

ہر روز کوئی ایسی خبر  ضرور ہوتی ہے جو کہانی کی طرح میڈیا کی اسکرینوں پر بنتی چلی جاتی ہے اور ہمارے جذبات کے بہائو ں کے بند کو توڑنے کے لیے جذباتی مناظر دکھائے جاتے ہیں اور ان پر بے لاگ تبصرے کیے جاتے ہیں۔ کچھ آنسو بھی دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن کچھ  دن  بعد کوئی نئی خبر اور نئی کہانی ان اسکرینوں کی رونق بنی ہوتی ہے اور پھر وہی تبصرے اور تجزیے کہ یوں ہوتا تو اچھا تھا ۔ یوں نہ ہوتا تو اچھا تھا، حکمرانوں کو دو چار گالیاں دے کر گھر چلے جاتے ہیں، اور یہ سوچتے ہیں کہ آج کے منجن میں مصالحہ کم تھا کل کچھ اور کرتب کر کے اپنے ریٹس بڑھانے ہوں  ،اور واہ واہ کرانے کے لیے کچھ اور بھی چٹ پٹا کرنا ہو گا، اور یوں روز ہماری اسکرینوں پر نان ایشوز کو ایشوز  اور ایشوز کو نان  ایشوز بنایا جاتا ہے    لیکن مسائل وہی کے وہی ہیں۔ پچاس سالوں بعد بھی حیدرآباد میں صاف پینے کا پانی اور درست سڑکیں نہیں ہے، لیکن بات  اگر  بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی تک محدود رہتی تو ہم کب سے برداشت کر ہی رہے تھے  اب بھی کرتے رہتے اور مستقبل میں بھی قوی یقین  ہے کہ ہم گونگے بہرے اور اندھے بن کر ان سیاسی شعبدہ بازوں کی گھوم جمھورا گھوم کی آواز پر گھومتے جاتے، لیکن بات اب ہماری عزتوں پر آن پہنچی ہے، سنا تھا ۱۹۴۸ میں جب سقوط حیدرآباد ہوا تو لاکھوں عورتوں کی عصمت  دری  کی گئی، اس تکلیف کو آج تک کتنے خاندان محسوس کرتے ہیں جن کی بیٹیاں ، بیویاں ، بہنیں اور مائیں دکن سے باہر  نہیں پہنچ سکیں اور راستے میں ہی درندوں کی سفاکی کی نذر ہو گئیں۔ لیکن پچاس سال بعد کا حیدرآبادجہاں ہمارے بچے اپنے اسکولوں اور گلییوں میں محفوظ نہیں، ایک ماں جس کی ساڑھےچار سالہ بیٹی ہو اور اسےامن کا کہوارہ (اسکول) کی محفوظ چار دیواری میں  چھوڑ کر گئی ہو اور کوئی درندہ   اپنی ہوس کو کم سن  اور نازک وجود  سے مٹائے، یہ درندگی تو جانوروں میں بھی  نہیں  ہے شائد۔

ارجمند کے ساتھ جو ظلم ہوا یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ تو نہیں ہے،میرے بستی میں  معصوم فرشتے کی عصمت اس وقت لوٹ لی گئی جب اسےعصمت کے معنی بھی معلوم نہیں تھے۔ اسے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ ہر انکل جو ٹافی اور دس روپے دے دے ضروری نہیں کہ وہ پاپا جیسا ہو، ان معصوموں کو معلوم ہی کیا کہ شکاری دانہ ڈال کر انہیں پنجرے میں بند کر دیتے ہیں، معصوم پھولوں کو مسل کر ان کی آواز دبا دیتے ہیں اور کسی کے لخت جگر کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینک کر اگلے شکار پر نکل جاتے ہیں اور چھوڑ جاتے ہیں ان کی مائوں کے لیے تا حیات اذیت کا سامان،   نفسیات کہتی ہے  کہ جنسی تشدد اپنی  طاقت کا مظاہرہ ہوتا ہے،  لیکن جب کسی بچے کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو  اس پورے خاندان کو پوری زندگی کے لیے نفسیاتی طور پر مفلوج کر دیتی ہے۔

کیا بحیثیت معاشرہ ہم اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر واقعہ کے بعد ہمارے منہ پر کسی طمانچے کی طرح لگتا ہے۔  ارجمند کوئی پہلی مظلوم بچی تو نہیں، اعلان (اسکول)کے دوبچیوں کے خاندان اب تک اپنے بچوں کے مجرموں کی گرفتاری اورسزاکا انتظار کر رہے ہیں۔  اس سے پہلےبھی اسی دکن میں کئ معصوم کلیاں  زیادتی کا نشانہ بنے تھے۔ آٹھ  سالہ زینب جو اپنے بے زبان جانوروں کےساتھ تھی  اور جس پر بدترین جنسی تشدد کیا جاتارہا۔ چھ سالہ ریختہ جسے دکن میں زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد اس کے گردن اور ہاتھ کی نسیں کاٹ دی گئیں۔ دس سالہ ہ پروین جسے  دکن میں پڑوسی نے    سات روز ہوس کا نشانہ بنائے رکھا اور آخرکار اسے ابدی نیند سلا دیا،  لیکن یہ سلسلہ رکا نہیں  ابھی جبکہ ہم ارجمندکی المناک صورت حال کا ماتم کر رہے ہیں تو اسی اسکول کی پہلی جماعت کے طالبہ کو زیادتی کا نشانہ بنانے کی خبر سامنے آئ ،ایک قدم اور آگے بڑھیں پھر میرے دکنیوں نے وہ دیکھا اور سناکہ ایک پڑس ریاست کے قبے چھبے والے نے اپنی دستار کی دھجیاں اڑاتے ہوئے خود سے دس  سال  چھوٹی لڑکی جو حصول علم کی غرض سے آئی تھی اسے لیک فرار ہوگیا ۔

ہندوستان  میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے ہولناک واقعات میں اضافہ تشویش ناک ہے لیکن اس سے زیادہ افسوسناک یہ ہے کہ دکن کے علاوہ دوسرے صوبوں میں اب تک ایسے کیسز کو رپورٹ ہی نہیں کیا جاتا۔ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم” چلڈرن فاونڈیشن” کی جانب سے بچوں کی جنسی ہراسانی پر جاری تازہ رپورٹ میں قومی کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ۲۰۱۳سے ۲۰۱۶ کے دوران تین برسوں میں بچوں کے خلاف جرائم کے واقعات میں ۸۴ فیصد اضافہ ہوا ہے اور ان میں سے ۳۴ فیصد جنسی تشدد کے معاملے ہیں۔

کیلاش ستیارتھی کی رپورٹ:

۲۰۱۲   میں بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ۸،۵۴۱واردات ہوئی جو ۲۰۱۶ میں بڑھ کر ۱۹،۷۶۵ہو گئی۔  جسمانی استحصال کی منشا سے نابالغ بچیوں کو بہلا پھسلا کر لے جانے کے ۸۰۹ واقعات ہوئے جو ۲۰۱۶ میں بڑھ کر ۲۴۶۵ ہو گئے ۔ اس مدت میں بچوں کے اغوا کے واقعات ۱۸،۲۶۶سے بڑھ کر ۵۴،۷۲۳ ہو گئے ۔ ۲۰۱۶ میں جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ سے متعلق قانون پوسکو کے تحت ۴۸،۰۶۰ معاملے تفتیش کے لئے درج کئے گئے جن میں سے صرف ۳۰،۸۵۱ معاملے سماعت کے لئے عدالت پیش کئے گئے ، یعنی ۳۶ فیصد کیس تحقیقات کے لئے زیر التواءتھے ، جاری رپورٹ کے مطابق بچیوں کے جنسی تشدد کے زیر التو مقدمات کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہے ، اگر انکی سماعت موجودہ رفتار سے جاری رہی تو ۲۰۱۶ تک کے معاملات کو نمٹنے کے لیے دودہائ لگ جائینگے ،این سی آربی کے ایک اعداد شمار کے مطابق ۲۰۱۶ میں بچیوں اور خواتین کے ساتھ آبروریزی کی کل ۳۶ ہزار ۶۵۷ کیس درج ہوئے جن میں سے ۳۴ ہزار ۶۵۰ یعنی ۹۴ فیصد ملزم متاثرین کے واقف کار تھے ، وہ یا تو خاندان کے قریبی رکن یا پڑوسی یا جاننے والے تھے۔

یہ چونکا دینے والی رپورٹ ایسے وقت پر سامنے آئی ہے کہ جب جموں کے کٹھوعہ میں ایک آٹھ سالہ معصوم بچی کے اغوا،عصمت دری اور قتل کے معاملے کے خلاف ایک بین الاقوامی تحریک چل رہی ہے اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کے خلاف سخت سزاوں کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

یہ سب کیوں ہوا:

  اتنے قبیح جرائم کوئی انسان کر کیسے سکتا ہے؟ اور جواب یہ ہے کہ اپنوں کے گلے کاٹنے سے آدم خوری تک بے رحمی کی تاریخ انسان ہی نے رقم کی ہے۔ ہر معاشرے میں انسان کا روپ لیے شیطان بستے ہیں۔ اس درندگی کو بڑھاوا دینے والے عوامل میں برقی ذرائع ابلاغ کا کردار سب سے اہم ہے۔ نوے کے عشرے میں ہندوستان میں پرائیوٹ چینلز نے جنم لیا اور ساتھ ہی انٹرنیٹ کو فروغ ملا۔ ایک سرسری سا مشاہدہ بھی بتا سکتا ہے کہ بچوں اور خواتین سے زیادتی کے واقعات میں کئی گنا اضافہ بھی اسی دور سے ہوا ہے۔ ٹی وی کی اسکرین جتنے گہرے اثرات کی حامل ہے، شاید ہی کوئی دوسرا ذریعہ ابلاغ اتنی قوت رکھتا ہو،ناظرین کی تعداد بڑھانے کی دوڑ میں ٹی وی چینلز اتنے آگے بڑھ گئے کہ اقدار پیچھے رہ گئیں۔ بے باکی کا سلسلہ لباس سے دراز ہوتے ہوتے ہیجان خیز مناظر، مکالموں اور ہماری قدروں کی دھجیاں اڑاتی کہانیوں تک جا پہنچا، میڈیا نے معاشرے پر کس حد تک اثرات مرتب کیے اس کا اندازہ زبان کے بگاڑ سے لگایا جاسکتا ہے۔ اخبارات میں چھپنے والی زبان ہو یا ٹی وی سے نشر ہونے والے الفاظ، لوگ انھیں معیار سمجھتے اور قبول کرتے ہیں، چنانچہ ٹی وی چینلز پر خصوصاً ڈراموں میں استعمال ہونیوالے تہذیب سے عاری مکالمے اور الفاظ اب ہماری بول چال کا حصہ بنتے جارہے ہیں،کوئی مہذب معاشرہ اس بیہودہ زبان کا متحمل نہیں ہوسکتا، مگر ہمارے یہاں اس بگاڑ کی کسی کو پرواہ نہیں۔ اس کے ساتھ انٹرنیٹ نے اتنی تیزی سے فروغ پایا کہ ہمارے شہروں میں آناً فاناً انٹرنیٹ کیبل کا گلی گلی پھیلا کاروبار وجود میں آگیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ٹی وی چینلز ہوں یا انٹرنیٹ، متعلقہ ادارے معاشرے کو ان میڈیم کے منفی اثرات سے بچانے اور ہمارے ثقافت اور اقدار کے تحفظ کے لیے ٹھوس اور موثر اقدامات کرتے، مگر اس طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ اطلاعات کے مطابق فحش مواد پر مبنی ویب سائٹس ہندوستان میں کام کرنے والی کمپنیاں ڈیزائن کر رہی ہیں اورہندوستانی سنجیدہ اور معتبر ویب سائٹس پر بھی ’’ڈیٹنگ سائٹس‘‘ کے اشتہارات نوجوانوں کو ترغیب دیتے نظر آتے ہیں۔ فحاشی اور بے راہ روی پھیلانے والی ان ویب سائٹس پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی؟ اس صورت حال کا ذمے دار کون ہے؟ حکمراں اور متعلقہ ادارے آخر کب اس معاملے کی نزاکت اور اہمیت کو سمجھیں گے۔

میرا ماننا:

 کوئی کچھ کہے مگر آئین کی رو سے ہندوستان ایک جمہور ملک ہے۔ ہم ایک معاشرے میں رہتے ہیں،جہاں ہماری اقدار حیا کی پاسدار ہیں۔ ہماری ثقافت لباس سے زبان تک شرم اور لحاظ کی حامل ہے۔ ہندوستان کے ادارے آئین کے تحت پابند ہیں کہ وہ ہماری اخلاقی اقدار کو پامال نہ ہونے دیں، مگر نہ انھیں اپنی ذمے داری کا احساس ہے اور نہ کوئی ان کے فرائض یاد دلا رہا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ ہمیں زمانے کے ساتھ چلنا چاہیے۔ ٹیکنالوجی کے بغیر ہم ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتے، ٹی وی ہو یا انٹرنیٹ، یہ ذرائع ابلاغ ہمیں دنیا سے جوڑے رکھتے اور ہم پر علم اور آگاہی کے نئے در وا کرتے ہیں۔ تاہم زمانے کے ساتھ چلنے کا مطلب بے حیائی اپنا لینا نہیں، بے حیائی جنگل کی ثقافت اور جانوروں کی صفت ہے۔ ہمیں دنیا کے ساتھ اس طرح چلنا چاہیے کہ ہماری ثقافت اور اقدار کا سایہ ہمارے سروں پر رہے،جب ہمار املک ایکساں سول کوڈ نافذ کرسکتا ہے ،اور جب میرے ملک میں طلاق ثلاثہ پر آرڈینس جاری ہوسکتے ،قانون میں ترمیم ہوسکتی ہے تو پھر کیوں ان درندوں کے خلاف سخت قانون نہیں بن رہا ہے اور اگر بن گیا ہے تو اس پر عمل کیوں نہیں ہورہاہے۔

آخری بات :

میں نے پڑھاکہ برازیل کے جیوجسٹو انسٹرکٹر ڈیرئیل کو ۲۰۱۶ میں ایک معصوم بچے کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ ابتدائی تفتیش کے مراحل کے بعد اسے برازیل کی مرکزی جیل میں بند کر دیا گیا، جہاں اسے بیس روز تک جج کے سامنے اپنے مقدمے کی سماعت کا انتظار کرنا تھا۔ جیل انتظامیہ کو اس بات کا بہت رنج تھا کہ ایک معصوم بچے کے ساتھ زیادتی کرنے والا شیطان بھی ان کی جیل میں موجود ہے، اگرچہ جیل میں دنیا کے سفاک ترین خونی اور ڈکیت بند تھے لیکن ڈیرئیل کا جرم ان سب سے زیادہ سنگین تھا۔ ایک روز جیل میں بند دیگر قیدیوں کو کسی طرح پتا چل گیا کہ ڈیرئیل کا جرم کیا تھا۔اس کے بعد بیس قیدیوں نے ایک ہی رات میں ڈیرئیل کے ساتھ وہی سلوک کیا جو اس نے ایک بچے کے ساتھ کیا تھا ۔ جب جیل میں موجود قیدیوں سے اس بارے میں پوچھا گیا کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا تو انھوں نے اس قدر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا کہ جیل انتظامیہ کو اپنے سوال پر ہی شرم محسوس ہوئی۔ قیدیوں نے جیل انتظامیہ سے کہا کہ اگر اس مردود کو دوبارہ یہاں رکھا گیا تو اس کے ساتھ اوربھی زیادہ بدتر سلوک کریں گے ۔ تاہم جیل انتظامیہ نے قانونی مجبوریوں کی بنا پر اگلے روز ڈیرئیل کو ایک بار پھر اسی جیل میں بند کر دیا، لیکن اب کی بار بھی اس کے ساتھ وہی واردات مزید شدت سے دہرائی گئی۔ایک ایسا معاشرہ جو جنسی لذت کی تسکین کے لیے مشہور ہو وہاں کے مجرم بھی بچوں کے ساتھ ہونے والے انسانیت سوز سلوک پر معافی دینے کے لیے تیار نہی ںتھے۔

ایک طرف مغربی معاشرے میں سفاک ترین قیدیوں کا معیارِ انصاف یہ ہے کہ جب انھیں ایک قیدی کے اس سنگین جرم کی خبر ملی تو انھوں نے اگلے دن کا سورج طلوع ہونے کا انتظار کیا نہ جج کے ہتھوڑے کا۔اور ایک طرف ہم ہیں، جمہوریہ ہندستان میں رہنے والے ، ہمارے حکمران اور ادارے ستو پی کر مد ہوش ہیں اورعوام چرس پی کر کر خوابِ خرگوش میں گم ہے اور اس دھرتی کی معصوم جانوں کو درندگی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یوں تو آئے دن کسی معصوم کلی کو روندے جانے کی خبر بڑے اہتمام سے اخبارات اور سوشل میڈیا پر نشر ہوتی ہے لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے جو ہمارے ہی ٹیکس پر پلتے ہیں اور حفاظت مردار خور سیاستدانوں کی کرتے ہیں۔ زارجمند اور ان جیسے بچوں کے مجرم ہم سب ہیں۔ ایک دانشور  کا کہنا ہے کہ وہ کالم نگار جو قومی اخباروں میں سیاسی کالم تو خوب لکھتے ہیں لیکن ارجمندجیسی بچیوں کے حق میں آواز اٹھانا ان کے لیے مشکل ہے ۔ان قلم کاروں سے تو وہ قیدی اچھے ہیں جنھوں نے اپنے ساتھی کو راتوں رات گینگ ریپ کے لطف سے آشکارا کر دیا۔

بچوں کے تحفظ کے حوالے سے معلومات کو نصاب میں شامل کیا جانا چاہیے۔پیشہ ورانہ طریقے سے بچوں، اساتذہ، ڈاکٹروں، سکول کونسلروں اور پولیس میں شعور اجاگر کرنے اور تربیت دینے کی سخت ضرورت ہے۔

ہم سب  کو ایک بار سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم ایسے کیوں ہیں اور ہماری بے حسی کی قیمت ہمارے بچے کیوں ادا کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنی اجتماعی ذمہ داری کا احساس کرنا ہو گا ورنہ  معصوم بچے ابھی بھی گھروں سے باہر نکلتے   کئی سفاک بھیڑیے ابھی بھی ہمارے درمیان موجود ہیں.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔