ہجری تاریخوں کی اصلاح

قمر فلاحی

اسلام میں ہجری تاریخوں کی بڑی اہمیت ہے ،اس کی شروعات ہجرت سے ہوئی ہے یعنی  ہجرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف بارہ سال پہلے کے واقعہ کو قبل ہجرت لکھ دینے سے نبوت کے بعد کی ساری تاریخ معلوم ہوجاتی ہے،اور ساری رہنمائیاں معلوم ہوجاتی ہیں ۔اس کے بالمقابل عیسوی تاریخ بہت مشہور ہے ،ہم اپنی مرعوبیت اور مغلوبیت کی وجہ سے اسے رواج دینے پہ بعض جگہوں پہ مجبور ہیں، اس تاریخ میں ایک نزاکت یہ ہیکہ حضرت عیسی علیہ السلام کی کن باتوں کو نبوت کے بعد کی اور کن باتوں کو نبوت سے قبل کی مانی جائے؟ کیوںکہ سنتیں نبوت کے بعد ہی کی قابل عمل ہوتی ہیں ۔

عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ چاند کا تعلق صرف عید اور بقرعید سے  ہے یہ غلط ہے ،حقیقیت یہ ہیکہ چاند کا تعلق بہت سارے فرائض اور واجبات سے ہے ۔مثلا چاند دیکھنے کے بعد رمضان کا مہینہ ختم ہوجاتا ہے ،اور اس کے دیکھنے کے بعد اگلے دن کا روزہ حرام ہوجاتا ہے۔

اسی چاند کی تاریخ پہ ایام بیض کے روزے رکھے جاتے ہیں[ بارہ تیرہ اور چودہ تاریخوں میں] ۔اسی چاند کے دیکھنے کے بعد عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا ہے ،اسی چاند کے دیکھنے کے بعد عید الاضحی منائ جاتی ہے ،یعنی اگر کوئ جمعرات کا روزہ رکھنے کا عادی ہو، اوراگر دسویں تاریخ کو عید الاضحی واقع ہو تو اس دن کا روزہ حرام ہے ،خواہ نذر کا روزہ ہی کیوں نہ ہو۔اسی چاند کو دیکھنے کے بعد چار دن کی قربانی جائز ہے نہ اس سے قبل اور نہ اس کے بعد۔

مگر اس کے باوجود چاند کا دیکھنا اور اس کے منازل کا علم رکھنا معیوب سا ہوگیا ہے ۔ ہم نے ہلال کمیٹی پہ اعتماد کر لیا کہ وہ ہمیں بتائے کہ چاند ہوا یا نہیں جبکہ شوال کا چاند دیکھنے میں وہ ہمارے چاند دیکھنے کامحتاج ہوتے ہیں ،اگر ہم یہ بتادیں کہ چاند ہوگیا تو وہ ماننے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ تو پھر دیگر مہینوں کے چاند دیکھنے اور دکھوانے کا اہتمام کیوں نہیں کیا جاتا؟

اللہ سبحانہ تعالی نے قرآن مجید میں چاند اور سورج دونوں کے متعلق رہنمائ فرمائ ہے اس میں ایک باریک نکتہ یہ ہیکہ سورج کیلئے اللہ سبحانہ” مستقر” اور چاند کیلئے "قدرنامنازل” کا لفظ استعمال فرمایا ۔

والشمس تجری لمستقر لھا ذالک تقدیر العزیز العلیم ۔(یسین ۳۸۔)

’’والقمر قدرناہ منازل حتیٰ عادکالعرجون القدیم   (یٰسین :۳۹ )

‘ھوالذی جعل الشمس ضیاء والقمر نورا وقدرہ منازل لتعلموا عدد السنین والحساب (یونس :۵)

دونوں اصطلاح میں ایک خاص اشارہ ہے وہ یہ کہ سورج بھی اپنی منزل طے کرتاہے مگر وہ اپنے محور پہ ہے ، اس کی صورت و حجم میں کوئ تبدیلی واقع نہیں ہوتی ۔مگر چاند اپنی ہر منزل اور پڑائو پہ اپنی شکل و صورت تبدیل کر لیتاہے ۔پندرھویں تاریخ سے اس کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتاہے ۔

منازل قمر پہ اب ہمارا ایمان صرف تلاوت تک محدود ہے ،البتہ سائسن دانوں کے نزدیک صرف تلاوت نہیں بلکہ تجرباتی طورپہ بھی انہوں نے ثابت کر دیا ہیکہ منازل قمر ایک اصول اور قانون کے تحت طے ہوتے ہیں ۔اسی لئے وہ سالہا سال قبل یہ بتادیتے ہیں کہ کب اور کتنی دیر کیلئے چاند اور سورج گرہن ہوگا اور ان  کی یہ بات صد فیصد درست ہوتی ہے ۔اب انہیں نہ کوئ عالم الغیب مانتا ہے اور نہ خدا کیوںکہ جس قانون کا ذکر اللہ سبحانہ نے قرآن مجید میں بتادیا تھا ان لوگوں نے اسے معلوم کر لیا ہے۔

مجھے تو حیرت اس وقت ہوتی ہے جب مسجدوں میں افطار کا وقت لکھا ہوا کلنڈر دیکھتا ہوں کہ جن مولویوں کو منازل قمر، اور مستقر شمس پہ ایمان نہیں ہے دو ماہ قبل وہ کس طرح یہ جان لیتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو سورج اتنتے بج کر اتنے منٹ پہ غروب ہوگا۔ اسی طرح زوال شمس کا وقت بھی انہوں نے دائمی کلنڈر کی شکل میں اپنی مسجدوں میں آویزاں کر رکھا ہے ۔ اور پھر یہی لوگ چیختے ہیں کہ چاند دیکھے بغیر رمضان مکمل نہیں ہوتا۔سورج کا غروب دیکھے بغیر افطار نہیں کرنا ہے ۔مگر دیکھتے کبھی نہیں بلکہ سنتے ہیں اور سنتے انہیں لوگوں کی ہیں جنہیں یہ پسند کرتے ہیں ۔

سائنسداں اس بات پہ متقفق ہیں کہ چاند کو گہن اسی وقت لگتاہے جب وہ مکمل ہوجاتا ہے ۔آج ۲۷ جولائ 18 کو رات میں1:15 to 2:43  چاند گرہن ہوگا یہ اس بات کی دلیل ہیکہ آج چاند کی چودھویں تاریخ ہے ،مگر افسوس ہمارے یہاں آج تیرہویں تاریخ ہوگی ،اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے اندر کسی چیز کو قبول کرنے کا پیمانہ کیا ہے؟

چودھویں تاریخ چاند کی وہ تاریخ ہوتی ہے جس میں شک و شبہ کی کوئ گنجائش نہیں رہ جاتی اس تاریخ کو ہمیں اپنے کلنڈر کی اصلاح کر لینی چاہیے مگر ہم ایسا کب کرتے ہیں؟

پھر ہم ایام بیض کے روزہ کس طرح رکھتے ہیں؟

تبصرے بند ہیں۔