ہے داستانِ ارضِ فلسطین خونچکاں

احمد علی برقیؔ اعظمی

ہے داستانِ ارضِ فلسطین خونچکاں
کیوں بے خبر ہے اس کے مصائب سے یہ جہاں

بیحس ہیں کتنے مشرقِ وسطیٰ کے حکمراں
اس ابتلاء میں اُن کی ہے غیرت کا امتحاں

صیہونیت کے ظلم و ستم سے ہیں باخبر
پھر بھی تماش بیں ہیں، وہ جیسے ہوں بے زباں

مرتے رہیں گے کیا یونہی معصوم شیرخوار
امن و سکوں کے اب وہ علمدار ہیں کہاں

ذہنی سکوں نصیب میں اُن کے نہیں ہے کیا
صیہونیت کی زد پہ ہیں جو زیرِ آسماں

ظلم و ستم کے اپنے ہی گھر میں ہیں اب شکار
بچے ہوں ،سن رسیدہ ہوں یا ہوں وہ نوجواں

پُرسانِ حال کیوں نہیں اُن کا کوئی ہے آج
ہیں اب کہاں حقوقِ بشر کے وہ خطبہ خواں

مہرہ ہیں اہلِ غرب کے شطرنج کا جو آج
ایک ایک کرکے سب کا مٹائیں گے وہ نشاں

ہے وقت اب بھی کام لیں عقلِ سلیم سے
برقیؔ مِلاتے رہتے ہیں اُن کی جو ہاں میں ہاں

تبصرے بند ہیں۔