شرعی امور میں مداخلت آئین کے خلاف

 ابوہریرہ یوسفی

اس وقت مسئلہ طلاق ثلاثہ،نکاح اور تعدادازواج کے سلسلے میں حکومت مداخلت کررہی ہے،جس کی وجہ سے ملک بھر کے مسلمانوں میں بے چینی اور تشویش کی لہر پائی جائی جارہی ہے۔ حکومت کا شرعی امور میں مداخلت کسی بھی طور پر درست نہیں ہے اور حکومت گندی پالیسی کے ذریعہ ہمارے مذہبی امور میں دخل اندازی کرکے آئین کی خلاف ورزی کررہی ہے، اس لئے کہ ہندوستان کا دستور صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ سبھی کو اپنے پسندیدہ مذہب پر عمل پیرا ہونے، اپنے دین کی فروغ واشاعت کرنے، اپنے مذہبی ادارے کا قیام اور اس کی تبلیغ کا مکمل طور پر حق دیا ہے، لیکن انتہائی افسوسناک بات ہے کہ موجودہ بی جے پی حکومت مسلمانوں سے حقِ مذہبی آزادی کو زبردستی چھیننا چاہتی ہے، اس وقت زیرِبحث مسائل طلاق ثلاثہ، نکاح اور ازواج کی تعداد اور دیگر شرعی احکام مسلمانوں کے اپنے مسائل ہیں، سبھی مسلمان ان پر عمل کرنے کے پابند ہیں، ان پر کسی بھی دوسرے قوانین مسلط نہیں کیئے جا سکتے، کوئی مسلمان بھی مذکورہ شرعی مسائل میں ترمیم یا ختم کرنے کا حق نہیں رکھتا ہے، تو مودی جیسے کافرین کو یہ حق کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ ہمارے شرعی قوانین کو ختم کرکے یکساں سول کوڈ نافذ کرے۔ طلاق ثلاثہ جیسے مسائل کا سپریم کورٹ پہنچنا اور پھر حکومت کا اس کو ختم کرنے کی چارج شیٹ داخل کرنا ہندوستان کے مٹھی بھر مسلمانوں کی وجہ سے ہی یہ معاملہ سپریم کورٹ اور حکومت تک پہنچا ہے، جن کو طلاق ثلاثہ سے اختلاف ہے تو ان کو یہ اختلاف مسلمانوں تک محدود رکھنا چاہیئے، اس طرح کے شرعی مسائل کو عدالت کے ایوان میں لے جانا ان نام نہاد مسلمانوں کی انتہائی بے وقوفی اور خود اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ قابل تشویش بات ہے کہ اب یہ مسئلہ ملکی سطح پر پہنچ گیا ہے اور اردو کے کچھ مسلمان صحافی اور نام نہاد دانشور یہ کہہ کر مزید غلط فہمی پھیلا رہے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں کہ ائمہ اربعہ میں صرف فقہ حنفی میں ہی تین طلاق سے تین طلاق مراد ہوتی ہے، بقیہ تین ائمہ ایک ساھ دی جانے والی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق مانتے ہیں، حد تو یہ ہوگئی ہے کہ ایک چینل پر دورانِ بحث ایک مولانا نے یہ بات کہہ دی، یہ مولانا کس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں، یہ مجھے نہیں معلوم، البتہ اس مولانا کی کم علمی اور جہالت کے بارے میں ضرور معلوم ہوا۔ اس مولانا کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ جمہور صحابہ وتابعین اور اہل سنت والجماعت کے ائمہ اربعہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق دینے سے تین واقع ہوجاتی ہے، اس مولانے نہ جانے کہاں سے پڑھ لیا کہ یہ مذہب صرف امام ابوحنیفہ کا ہے، جبکہ امام شافعی، امام مالک اور امام احمد کے بھی یہی مذہب ہیں، اور سب کا اس پر اتفاق ہے۔ بہرحال یہ مولانا یہی چاہتے ہیں کہ یکساں قانون کا اطلاق ہوجائے۔ جمہوری ہندوستان میں بی جے پی حکومت یکساں سول کوڈ نافذ کرکے ہندوستانی جمہوریت کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ اس لئے حکومت کا طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے، نکاح، تعداد ازواج اور دوسرے شرعی مسائل میں مداخلت کرکے یکساں سول کوڈ کا نفاذ جیسی گندی پالیسی سراسر ہندوستانی آئین کے خلاف ہے، مسلمانوں کو چاہیئے کہ اس کو کسی بھی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے، ایسی صورت میں مسلم پرسنل لا بورڈ کی محض دستخطی مہم قابل کارآمد ثابت نہیں ہوگی، بلکہ اس ادارے کو ملک گیر احتجاج کا اعلان کرنا چاہیئے، شرعی قوانین کو بچانے اور اس کی حفاظت کے لئے ہندوستان بھر کے مسلمانوں کو سڑکوں پر آکر احتجاج کرنا ضروری ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ یہ باتیں ہر مسلمان تک پہنچائی جائے کہ وہ اپنے شرعی مسائل کو لے کر ہندوستان کی عدالت میں ہرگز قدم نہ رکھیں، اس لئے کہ ہندوستان کی عدالت کو اسلام کی الف کا بھی علم نہیں ہے تو پھر وہ ہمارے شرعی مسائل کو کیسے حل کرے گی، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان اپنا مقدمہ پھر کہاں لے کر جائیں، جواب یہ ہے کہ اب ہم خود شرعی عدالت کے قیام پر بھرپور توجہ دیں، مسلمانوں کے لئے ہرجگہ شرعی عدالت قائم کی جائیں، تاکہ ہم اپنے مسائل ان شرعی عدالت کے ذریعہ قرآن وحدیث کی روشنی میں بآسانی حل کرسکیں۔ ہم نے نماز کے لئے مساجد تو بنا لیا، تعلیم کے لئے مدارس تو قائم کر لئے اور ذکر وفکر کے لئے خانقاہیں تو بنالیں، تاہم اپنے شرعی مسائل کے لئے افسوس آج تک شرعی عدالت قائم نہیں کرسکے، جس طرح مسلمانوں کے لئے مساجد، مدارس اور خانقاہیں ضروری ہیں اسی طرح عدالتوں کا قیام بھی انتہائی ضروری ہے۔ قرآن کریم میں جہاں نماز، روزہ، زکوٰۃ اورحج جیسے دیگر چیزوں کے احکام ہیں، وہیں قرآن مجید یہ بھی حکم دتیا ہے کہ چور اور چورنی کے ہاتھ کو کاٹا جائے، زانی اور زانیہ کو سزا دی جائے اور مقتول کے ورثہ اگر قصاص چاہتے ہیں تو قاتل کا سرقلم کیا جائے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ آج قرآن کریم کے مذکورہ احکام پر عمل نہیں ہورہا ہے، ان احکام کی تعمیل شرعی عدالت سے ہی ممکن ہے۔ اس لئے اب علماء شرعی عدالت کے قیام پر ہنگامی زور دیں تاکہ مسلمان اپنے تمام تر مقدمے ان شرعی عدالتوں میں حل کرا سکیں۔ میری ناقص سمجھ سے ہمارے علماء سے ایک بھول ہوئی ہے کہ انہوں نے دین کی بقا اور تحفظ کے لئے صرف مدارس اور مساجد کو مرکز بنایا، اگر ہمارے علماء مدارس ومساجد کے ساتھ شرعی عدالت کا پورے ملک میں جال بچھائے ہوتے تو آج ہمارے شرعی قوانین کی مکمل حفاظت ہوتی اور حکومت اس طرح شرعی امور میں اتنی آسانی سے مداخلت نہیں کرپاتی، اس لئے اب بھی وقت ہے کہ پورے ملک میں اسلامی عدالت کے قیام پر توجہ مرکوز کی جائے۔ اس وقت بے جے پی حکومت نے ہمارے مذبی امور میں جو مداخلت کا محاذ کھول رکھا ہے، اس کے خلاف قانونی جنگ لڑی جائے اور حکومت کو اس بات پر زور دیا جائے کہ وہ شرعی مسائل کے پیچھے نہ پڑے اور دستور ہند کی خلاف ورزی نہ کرے۔ وقت کے حالات کے پیش نظر شرعی قوانین کے تحفظ کے لئے تمام تر اقدامات کیئے جائیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔