25/جون یوم وفات: نصیر الدین طوسی

شفیق احمد ابن عبداللطیف آئمی

          آج عام طور سے سمجھا جاتا ہے کہ دنیا میں تمام سائنسی اور طبی ترقی یہودیوں اور عیسائیوں کی مرہون منت ہے اور مسلمانوں کا اِس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ سائنس کے نقشے میں مسلمانوں کو نہ دیکھ کر مسلمان طالب علم کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمارے بزرگوں نے دینیات اور شعر وادب کے علاوہ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دیا ہے۔ یہ خیال سائنس کے نوجوان طلبہ ہی کے دل میں نہیں پیدا ہوتا بلکہ بہت سے بڑھے لکھے افراد کے ذہنوں میں بھی یہ بات رہتی ہے کہ مسلمانوں کا سائنس سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ اِس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی سائنس کی تاریخ سے بے خبری اور مسلمانوں کے عظیم الشان علمی کارناموں سے مکمل طور پر ناواقفیت ، اور سب سے اہم وجہ یہ کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے یہی پروپگنڈہ کیا ہے اور انہوں نے منظم سازش کے تحت مسلمان سائنسدانوں اور طبیبوں کے بارے میں تمام معلومات کو یکلخت مٹانے کی کوشش کی ہے۔ کچھ کم پڑھے لکھے مسلمان یہودیوں اور عیسائیوں کی کتابیں پڑھ کر یہ سمجھتے کہ مسلمانوں نے اِس دنیا میں سائنس اور طب میںکوئی بھی کام نہیں کیا ہے؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج جتنا بھی سائنسی اور طبی سرمایہ ہے وہ مسلمان سائنسدانوں اور طبیبوں کی ہی مرہون منت ہے۔ اُن میں سے ایک نصیر الدین طوسی ہیں۔ عالم اسلام کے نامور سائنسدان، ماہر فلکیات ، ریاضی دان، فلسفی، منجم، جامع العلوم، معمار، طبیب، الٰہیات دان اور مصنف نصیر الدین طوسی کا یوم وفات: 25 جون 1274ء ہے۔

          جس وقت سلطنت عباسیہ کا زوال چل رہا تھا اور وہ آخری سانسیں لے رہی تھیں اور منگولی چنگیز خان اور اُس کی اولاد مسلمانوں پر قہر ڈھا رہی تھی اُس وقت نصیر الدین طوسی اِس دنیا میں آئے۔ علامہ ابو جعفر محمد بن محمد بن حسن الطوسی (مشہور بہ ‘‘خواجہ نصیرالدین‘‘ اور دیگر معروف القاب ‘‘نصرالدین‘‘، ‘‘محقق طوسی‘‘، ‘‘استاد البشر‘‘ اور‘‘ خواجہ‘‘ بھی ہیں) ساتویں صدی ہجری کے شروع میں طوس، ایران میں 18 فروری 1201ء کوپیدا ہوئے اور بغداد میں اسی صدی کے آخر میں وفات پائی۔ اسلام کے بڑے سائنسدانوں میں شمار ہوتے ہیں، مختلف ادوار میں خلفاء نے ان کا اکرام کیا۔ ان کی مجالس میں وزراء اور امرا شامل ہوتے تھے جس سے بعض لوگ حسد کا شکار ہو گئے اور ان پر کچھ جھوٹے الزامات لگا دیے جس کے نتیجے میں انہیں کسی قلعہ میں قید کر دیا گیا جہاں انہوں نے ریاضی میں اپنی بیشتر تصانیف لکھیں اور یہ قید ان کی شہرت کا سبب بنی۔جب چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بغداد پر قبضہ کیا تو انہیں آزاد کر دیا اور ان کا اکرام کر کے اپنے علما میں شامل کر لیا، پھر انہیں ہلاکو خان کے اوقاف کا امین بنا دیا گیا، انہوں نے اپنے اکرام میں پیش کی جانے والی دولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک لائبریری بنائی جس میں انہوں نے دو لاکھ سے زائد کتب جمع کیں۔

          نصیر الدین طوسی اپنے زمانے کے ماہر فلکیات بھی تھے۔ انہوں نے ایک ’’فلکیاتی رصد گاہ‘‘ بھی بنائی اور اس وقت کے نامور سائنسدانوں کو اس ’’رصد گاہ‘‘ میں کام کرنے کے لیے اپنے ساتھ شامل کر لیا جن میں ’’المؤید العرضی‘‘ جو دمشق سے آئے تھے،’’ الفخر المراغلی الموصلی، النجم دبیران القزوینی اور محیی الدین المغربی الحلبی‘‘ شامل ہیں۔ انہوں نے بہت ساری تصانیف چھوڑیں جن میں سب سے اہم کتاب ‘‘شکل القطاع’’ ہے۔ یہ پہلی کتاب تھی جس نے مثلثات کے حساب کو علمِ فلک سے الگ کیا، انہوں نے جغرافیہ، حکمت، موسیقی، فلکی کیلینڈر، منطق، اخلاق اور ریاضی پر بیش قیمت کتابیں لکھیں جو ان کی علمی مصروفیت کی دلیل ہیں، انہوں بعض کتبِ یونان کا بھی ترجمہ کیا اور ان کی تشریح و تنقید کی۔ اپنی ’’رصد گاہ‘‘ میں انہوں نے ’’فلکیاتی ٹیبل‘‘ (زیچ) بنائے جن سے یورپ (یہودیوں اور عیسائیوں) نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔

          نصیر الدین طوسی نے بہت سارے فلکیاتی مسائل حل کیے اور بطلیموس سے زیادہ آسان کائناتی ماڈل پیش کیا۔ ان کے تجربات نے بعد میں کوپر نیکس کو زمین کو ’’کائنات کے مرکز‘‘ کی بجائے سورج کو ’’نظام شمسی کا مرکز‘‘ قرار دینے میں مدد دی۔ اس سے پہلے زمین کو ’’کائنات کا مرکز‘‘ سمجھا جاتا تھا۔طوسی نے آج کے جدید علمِ فلک کی ترقی کی راہ ہموار کی، اس کے علاوہ انہوں نے جبر اور ہندسہ کے بہت سارے نظریات میں نئے انداز کے طریقے شامل کیے ساتھ ہی ریاضی کے بہت سارے مسائل کو نئے براہین سے حل کیا۔ ’’سارٹن‘‘ ان کے بارے میں کہتے ہیں: ‘‘طوسی اسلام کے سب سے عظیم سائنسدان اور ان کے سب سے بڑے ریاضی دان تھے’’، ‘‘ریگومونٹینوس’’ نے اپنی کتاب ‘‘المثلثات’’ کی تصنیف میں طوسی کی کتب سے استفادہ کیا۔شہرہ آفاق آبزرویٹری کے موجد، فلکیات کے ماہر، مولانا جلال الدین رومی کے ہم عصر ، اخلاق ناصری کے مؤلف، نصیر الدین طوسی کے زور قلم سے علم کے کئی دریا بہے۔

          علمِ نجوم،علمِ بصریات ، ریاضیات، معدنیات، اخلاقیات، ادب، منطق، فلسفہ، طب، اقلیدس، کیمیا، تاریخ، جغرافیہ وغیرہ جیسے علوم کو انہوں نے اپنی بصیرت اور تجسس سے مالا مال کر دیا لیکن علم ہیئت Astronomy کے گویا وہ دیوانے تھے۔ بمقام ’’مراغہ‘‘، نزدیک ایشیائے کوچک ، انہوں نے ’’دنیا کی اولین‘‘ اور بہترین ’’آبزرویٹری‘‘ بنائی اور ایسے تجربات کیے جو بعد میں دوسروں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوئے۔ ریاضیات میں اس وقت تک جتنی بھی کتابیں لکھی گئی تھیں ان کو پھر سے مرتب کیا اور ان کی تعداد صرف سولہ بتائی گئی تھی۔ اس خزانہ میں طوسی نے مزید چار اور کتابوں کا اضافہ کیا۔ اقلیدس کی ایک شاخ Trigonometry کی بنیاد ڈالی اور اس شعبہ میں تجدید کی کئی راہیں تلاش کیں۔ طوسی کو ان کی فلکیاتی تحقیقات کی بنا پر شہرت حاصل ہوئی۔

          بارہ سال کی مسلسل کوشش کے بعد انہوں نے ’’نظامِ ِ شمسی‘‘ کا ایک ’’نقشہ‘‘ مرتب کیا۔ فلکیات پر کئی کتابوں میں ’’کتاب ا لتذکرہ الناصریہ‘‘ جس کا دوسرا نام ’’تذکرہ فی علم نسخ‘‘ بہت مشہور ہے۔ علمِ نجوم پر متاخرین کے لیے یہ اساس بن گئی اور کئی محققوں نے اس پر شرح لکھی ہے۔ اس کتاب کے چار اہم حصے ہیں پہلا کائنات کے نظام میں حرکت کی اہمیت، دوسرا فلکیاتی تغیرات، چاند کی گردش اور اس کا حساب، تیسرا کرہ ارض پر فلکیاتی اثر، مدوجزر، کوہ، صحرا، سمندر اور ہوائیں اور چوتھا نظامِ شمسی میں ستاروں کے فاصلے۔ ظاہر ہے کہ یہ کتاب بہت مقبول و دلچسپ ثابت ہوئی۔ اس کتاب میں طوسی نے بطلیموس Ptolemy کے بعض خیالات کی تردید کی ہے اور اس کی کوتاہیوں کی نشان دہی کی ہے۔ اس کتاب کی بنیاد پر یورپ کے مشہور منجم ’’کوپر نیکس‘‘ نے اپنے نظریات قائم کیے جو صحیح ثابت ہوئے۔ یعنی کوپر نیکس کی تحقیقات کی بنیاد طوسی کے وضع کردہ اصول تھے۔

          طوسی نے فلکیات پر دیگر کتابیں بھی لکھی ہیں مثلاً ضبط الٰہیہ،کتاب التحصیل فی نجوم، زیج ایلخانی،اظہر الماجستی وغیرہ۔ اس کے علاوہ مریخ پر، سورج کے طلو ع و غروب پر، زمین کی گردش پر، سورج اور چاند کے فاصلہ پر، سیاروں کی نوعیت پر، رات اور دن کے ظہور پر اوراس کرہ ارض کے جائے وقوع پر تفصیلی کتابیں لکھی ہیں جس کی وجہ سے ان کو علم فلکیات کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ ’’مراغہ‘‘ کی آبزرویٹری طوسی کی تحقیقا ت کے لیے بہت مفید ثابت ہوئی۔ انہوں نے اِس سے بہت سارے فائدے اُٹھائے اور یہاں سے خلاء کی وسعتوں کا جائزہ لیا۔ یہودیوں اور عیسائیوں نے نصیر الدین طوسی کی تمام علوم پر لکھی ہوئی کتابوں اور خاص طور پر علم فلکیات پر لکھی کتابوں سے بہت فائدہ اُٹھایا اور اُن سے مدد لے کر اپنی کتابیں لکھیں اور نئی نئی ریسرچ کیں۔ 25جون 1274ء کو عالم اسلام کی اِس عظیم شخصیت کا انتقال ہوگیا۔

٭…٭…٭

تبصرے بند ہیں۔