ٹرینڈنگ
- کشمیر میں جی 20 سمٹ: خطہ پیر پنجال کے لیے کتنی سود مند؟
- دو ہزار روپے کے نوٹوں کی جمع بندی
- کیا پلاسٹک آلودگی سے چھٹکارا ملنا ممکن ہے؟
- حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
- نوٹ بندی اور اب نوٹ واپسی
- جی ٹونٹی ٹور ازم ورکنگ گروپ: منازل او اہداف
- سیتا کے ملک میں عورت بے یار و مددگار
- سوشیل میڈیا اور مسلمان!
- پرسنل لا بورڈ کا تنظیمی نظام اور وابستہ توقعات
- ﺗﯿﺮﺍ ﻭﺟﻮﺩ ﺍﻟﮑﺘﺎﺏ
مصنف

احمد کمال حشمی11 مضامین 0 تبصرے
احمد کمال حشمی مغربی بنگال کے مستند و معتبر شاعر ہیں۔ آپ کے کئی شعری مجموعے شائع ہوکر اربابِ نظر سے پذیرائی حاصل کرچکے ہیں۔ ’سفر مقدر ہے‘، ’ردعمل‘، ’آدھی غزلیں‘، ’چاند ستارے جگنو پھول‘ ان کے شعری مجموعوں کے نام ہیں۔ آپ کو مغربی بنگال اور بہار اردو اکادمیوں سمیت مختلف ادبی اداروں سے ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا گیا ہے۔ احمد کمال حشمی ادب کی بے لوث خدمت انجام دے رہے ہیں، مختلف ادبی اداروں میں فعال کردار ادا کررہے ہیں اس کے علاوہ نئے ادیبوں اور شاعروں کو ادبی حلقوں میں متعارف کروانے اور ان کی تربیت میں پیش پیش رہتے ہیں۔ موصوف حکومت مغربی بنگال کے محکمہ اراضی میں افسر ہیں اور ان دنوں کولکاتا میں مقیم ہیں۔
سفر میں آتے ہیں مجھ کو نظر در و دیوار
ہیں میرے ساتھ مرے ہمسفر در و دیوار
تری گلی سے گزرنا مجھے پسند نہیں
تری گلی سے گزرنا مجھے پسند نہیں
جو سب کریں وہی کرنا مجھے پسند نہیں
لگے ہیں تم میں جو، لائے گئے کرائے پر
لگے ہیں تم میں جو، لائے گئے کرائے پر
کہ ہم نے جسم پہ اپنے ہیں خود اگائے پَر
جاگا ہوا ہوں اور نہ سویا ہوا ہوں میں
جاگا ہوا ہوں اور نہ سویا ہوا ہوں میں
ایسا ترے خیال میں کھویا ہوا ہوں میں
کسی کا اشک بہانا بھی سانحہ ٹھہرا
کسی کا اشک بہانا بھی سانحہ ٹھہرا
ہمارا قتل بھی معمولی واقعہ ٹھہرا
مری حقیقت مری کہانی سے مختلف ہے
غزل: احمد کمال حشمییہ خامشی ہے، یہ بے زبانی سے مختلف ہے
یہ لفظ اپنے سبھی معانی سے مختلف ہےجو نقش اول ہے نقش ثانی سے مختلف ہے
راہ تکتی ہے تری، میری نظر شام کے بعد
راہ تکتی ہے تری، میری نظر شام کے بعد / اور ہوجاتی ہے پھر چشم یہ تر شام کے بعد // اجنبی لگتے ہیں دیواربھی در بھی چھت بھی / میرا گھر لگتا نہیں ہے مرا گھر شام…
میں بھی اپنی خوش بیانی کے مزے لیتا رہا
وہ مرے غم کی کہانی کے مزے لیتا رہا / میں بھی اپنی خوش بیانی کے مزے لیتا رہا
تمہارے عدل کا معیار دیکھنے کے لیے
ہُوا ہوں خود ہی گرفتار دیکھنے کے لیے / تمہارے عدل کا معیار دیکھنے کے لیے
کاش میں سچ مچ زندہ ہوتا
کاش میں سب کے جیسا ہوتا / میں بھی اندھا، بہرا ہوتا // دنیا بیحد ٹیڑھی ہوتی / گر میں تھوڑا سیدھا ہوتا