ندائے ملت: ایک قدیم شمارہ، جوآج بھی مشعل راہ ہے! 

وصیل خان

   ہماری قوم نسیان کا شکار ہوگئی ہے جو بذات خود ایک بڑا اورمہلک مرض ہے ،جو قوم اپنے ماضی کو فراموش کردیتی ہے اس کا حال تو خراب ہوتا ہی ہے مستقبل بھی غیر واضح اور بڑی حد تک مشکوک ہوجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں حال کی انسانی نسلیں اپنے ماضی کا مشاہدہ کرسکتی ہیں اور ماضی کا مشاہدہ حال کی درستگی کیلئے انتہائی کارآمد اور مفید ہوتا ہے۔

یہ صحیح ہے کہ موجودہ دور ابتلا و آزمائش کی انتہا کو پہنچ چکا  ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس سے قبل ملت اسلامیہ کو بڑی آسانیاں اور کشادگیاں حاصل تھیں۔ مختلف ادوار میں طرح طرح کی پریشانیاں قوم و ملت کو درپیش رہ چکی ہیں۔ سقوط بغداد اس کی سب سے بڑی مثال ہے حالانکہ اس وقت اسلامی سلطنت کا آفتاب نصف النہار پر تھا جب منگول حکمراں ہلاکو خاں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی اور تقریباً 20؍لاکھ مسلمانوں کو تہہ تیغ کرکے قتل عام کی ایسی نظیر قائم کردی تھی جس کی دوسری کوئی مثال ابھی تک روئے زمین پر وجود میں نہیں آسکی ،امیر المومنین مستعصم باللہ کی دردناک ہلاکت اور زوال بغداد کی ساری داستان آج بھی تاریخ کے صفحات میں موجودہے جو موجودہ اور آنے والی نسلوں کیلئے مسلسل عبرت کا نمونہ بنی ہوئی ہے۔

مندرجہ بالاباتیں اس وقت یاد آگئیں جب ابھی حال ہی میں لکھنؤسے شائع ہونے والاارد وکا مشہور ہفت  روزہ ’ندائے ملت ‘ کا ایک قدیم شمارہ ہمیں موصول ہوا جو مسلم یونیورسٹی نمبر کے نام سے موسوم ہے 1965کا یہ شمارہ مسلم یونیورسٹی علیگڑھ پر قصدا ً مسلط کی جانے والی اس افتاد سے متعلق ہے جب اس ادارے کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کی ایک مذموم سازش جان بوجھ کر رچی گئی تھی اس وقت ہندوستان کے وزیراعظم لعل بہادر شاستری تھے اور وزارت تعلیم کی ذمہ داری جسٹس عبدالکریم چھاگلا سنبھال رہے تھے اور وائس چانسلر علی یاور جنگ تھے۔

فیکلٹی آف سائنس میں داخلےکے تعلق سے یونیورسٹی بورڈ کی جانب سے ہونے والی کچھ بے قاعدگیوں اور بے اصولیوں کے خلاف طلباء مشتعل ہوگئے تھے جس کے نتیجے میں کافی ہنگامے اورکیمپس میں توڑپھوڑجیسی وارداتیں ہوئی تھیں اسی واقعے کو بہانہ بناکر عبدالکریم چھاگلا نے کچھ ایسی نامحمود مداخلت کی جو کسی طرح سے مناسب نہیں تھی۔

ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اس معمولی ہنگامے کو حکمت عملی سے رفع دفع کردیا جاتا اور امن و امان کے قیام کے بعد دوبارہ نظم و نسق بحال کردیا جاتا لیکن اس کے برعکس وزیر تعلیم نے ایسا خطرناک ایکشن لینے کی کوشش کی کہ یونیورسٹی کے اس اقلیتی کردار کو ہی مسخ کردینا چاہا جس پر یونیورسٹی کی بنیادقائم تھی اور جو اس کا ملی تشخص تھا۔ موصوف کا یہ  بیان ملاحظہ کریں جو ان کی ذہنی پراگندگی کاعریاں ثبوت ہے انہوں نے کہا تھا کہ ’’ میں اگر وزیرتعلیم رہ گیا تو مسلم یونیورسٹی کا وائس چانسلر کسی غیر مسلم کو مقرر کرکے دکھادوں گا ، مسلم یونیورسٹی کے نام سے لفظ ’مسلم ‘ نکالنے کیلئے پارلیمنٹ میں بل پیش کروں گا ،مسلم یونیورسٹی میں ایک فاشسٹ اور فرقہ پرست گروہ ہے جس کی جڑیں کہیں اور ہیں۔ ‘‘

حالانکہ مسلم یونیورسٹی ایکٹ کی دفعہ ۱۱ کے تحت اس کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ یونیورسٹی کی مسجد سے ۱۵؍ میل کے اندر ہائی اسکول کھول کر ان کا الحاق یونیورسٹی سے کرے اور دفعہ ۱۲؍ کے تحت وہ مسجد سے ۱۵؍ میل کے اندر تمام اغراض کیلئے ایسے ادارے کھول سکتی ہے جن کے اغراض و مقاصد دفعہ کے دائرے میں آتے ہیں اوردفعہ ۵ کے ضمن ۲ میں علو م مشرقیہ اور تعلیمات اسلامی کو ترقی دینا اور اخلاقی و جسمانی تربیت بہم پہنچانا مسلم یونیورسٹی کے اختیارات و مقاصد میں شامل ہیں اور اس طرح مسلم یونیورسٹی کی وسعتوں اور سرگرمیوں کا مرکز مسجد کو قرار دیا گیا تاکہ یہ ادارہ ملت اسلامیہ کی ایک مخصوص ،منفرد اور امتیازی درسگاہ بن سکے۔

ہفت روزہ ندائے ملت جیسا کہ اس کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ وہ ملت کی آواز ہے  اس کے اجراء اور اشاعت کا سبب ہی یہ تھا کہ اس کے ذریعے ملت کی ترجمانی کا حق ادا کیاجاسکے اور ملت کی کارگر اور مفید رہنمائی کی جاسکے۔

اس ہفت روزہ کے محرک مولانا محمد منظور نعمانیؒ اور مولانا ابوالحسن علی میاں ندویؒکی ذات گرامی تھی لیکن اس کے فعال اورمتحرک افراد میں محمد آصف قدوائی اور مولانا نعمانی کے فرزند ارجمند محمد حفیظ نعمانی وغیرہم تھے۔ اس اخبار کے بنیادی محرکین تو اب واصل جنت ہوچکے ہیں لیکن حفیظ نعمانی ابھی موجود ہیں اور عمر کی ۸۵ویں بہار دیکھ چکے ہیں اور ابھی بھی فعال و متحرک ہیں اور ملک کے متعد د اخبارات میں آج بھی ایک تسلسل کے ساتھ مضامین لکھ رہے ہیں ، اللہ ان کی عمر میں مزید برکت عطاکرے اور تادیر ان کا سایہ ہم تشنگان ملت پر قائم رہے۔

ندائے ملت کی اشاعت تو ایک طویل عرصے سے موقوف ہے لیکن حفیظ صاحب نے ۱۹۶۵کے اس مخصوص شمارے کو اگر محفوظ نہ رکھا ہوتا تو آج ہمیں ہی کیا امت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ اس وقت کے حالات اور ندائے ملت اور دیگر افراد کی اس تعلق سے دوڑ دھوپ اور مساعی ٔ جمیلہ سے بے خبر ہی رہتا۔ اس موضوع پرحفیظ نعمانی کے ایک طویل مضمون کی پہلی قسط ممبئی اردو نیوز میں گذشتہ دنوں شائع ہوچکی ہے بقیہ قسط بھی آپ جلد ہی ملاحظہ کرلیں گے۔ حفیظ صاحب کی رگوں میں دوڑنے والے لہو میں آپ اسلاف کےرنگ کی کچھ جھلک صاف دیکھ سکتے ہیں۔ ندائے ملت کے اجراء اور اس کے مقاصد میں ملت کیلئے جو درد موجود ہے اس کی ایک لہر موصوف کے مضمون کے اس اقتباس میں دیکھی جاسکتی ہے۔

’’تقسیم کے دوران جو ہوا اسے تو کوئی بتا ہی نہیں سکتا کہ کتنے لاکھ مرےکٹے جلے اور برباد ہوئے اور جب صورتحال تقسیم کے بعد سامنے آئی تو ہمیں کہنا پڑاکہ ہم بھی منھ میں زبان رکھتے ہیں۔ والد ماجد کا جاری کیا ہوا رسالہ ’ الفرقان ‘ جس کی عمر میرے مقابلے میں ڈھائی سال کم ہے اس کی ادارت بھائی صاحب نے اور انتظام میں نے سنبھال لیا تھا۔ اترپردیش اور جبل پور میں مسلمانوں کے قتل عام سے پھر فسادات کی ابتداہوئی ، بھائی صاحب جو بہت سوچ کر لکھتے ہیں ان کے قلم سے بھی کچھ ایسے مضامین نکلے جن کی ہر طرف دھوم مچی اور وہ ہر طرف نقل ہوئے تو میں نے کہا کہ بھائی صاحب ان باتو ں کیلئے ایک ہفتہ وار کی ضرورت ہے۔ ان کا بھی ایک عجیب وارفتگی کا عالم تھا۔ بات دل کو لگی۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی ہمراز دمساز قسم کے دوست تھے ان سے ذکر کیا وہاں سے بھی صدا آئی تری آواز مکے اور مدینے۔ اب ہم دونوں والد ماجد مولانا محمد منظور نعمانی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ والد ماجد نے حضرت مولانا علی میاں سے رائے لی اور یہ دونوں ایک رائے ہوگئے۔ طے ہوگیا کہ ایک ٹرسٹ بناکر اخبار نکالا جائے۔ ‘‘

ویسے تو ندائے ملت کا ہر شمارہ قابل قدرہوا کرتا تھا لیکن ۷۲؍صفحات پر مشتمل اس کا مسلم یونیورسٹی نمبر ایک یادگار اور دستاویزی مجلہ تھا  اس میں لکھنے والے افراد بھی انتہائی اہم تھے جن میں چندکے نا م اس طرح ہیں۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی ، بدرالدین طیب جی،  حیات اللہ انصاری  پروفیسر رشید احمد صدیقی قاضی محمد عدیل عباسی، مولانا شاہ معین الدین ندوی  حکیم عبدالقوی دریابادی، شیوپرشاد سنہا ( سابق جج ہائی کورٹ ) ، تیج بہادر سنہا ، ڈاکٹر ستیہ وادی ، عثمان غنی ( علیگ ) تخلص بھوپالی، فرقت کاکوروی،  جاوید فیضی ،یونس قنوجی ، گوپال متل، اختر بستوی وغیرہم۔ شمارے کی پیشانی پر سرسید احمد خان ، بدرالدین طیب جی ،سابق وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی، شری یواین دھیر ،سابق صدر آل انڈیا کانگریس، شری ایم سی چھاگلاوزیر تعلیم ہند کےکچھ فکری رشحات درج ہیں اسی طرح ڈاکٹر ذاکرحسین خان، ڈاکٹر سید محمود، مولانا عبدا لماجد دریا بادی اور مر زاافضل بیگ کشمیری کے پیغامات تحریر ہیں۔ اپنی افادیت کے اعتبار سے آج بھی یہ شمارہ کسی مشعل راہ سے کم نہیں جس کا مطالعہ ہمیں یہ باور کرے گا کہ ہمارے خاکستر میں کیسی کیسی چنگاریاں موجود تھیں جو اب سرد ہوتی جارہی ہیں۔ اس کا مطالعہ موجودہ دور میں تیزی سے بجھتی جارہی ان چنگاریوں کو پھر سے روشن کرنے کی ترغیب بھی فراہم کرے گا۔ یہ شمارہ پڑھنے کے ساتھ ہی محفوظ رکھ لینے کے بھی قابل ہے۔

تبصرے بند ہیں۔