موہن بھاگوت کی نصیحت اور نیت کافرق

جاویدجمال الدین

راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے موجودہ سر سنگھ چالک موہن بھاگوت نے ایک بارپھر مسلمانوں کو نصیحت کی ہے کہ ملک کے مسلمانوں کو انتہا پسندی کے خلاف کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں طالبان کی دودہائی کے بعد اقتدار میں واپسی پر ہندوستانی مسلمانوں کو نصیحتوں دینے کاجیسے سیلاب سا آگیا ہے۔ سنگھ سربراہ ماضی میں پہلے بھی یہی کہتے رہے ہیں، لیکن ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر اوراقلیتی فرقے کو ‘ٹارگٹ’ کرنے کے متعدد واقعات رونما ہونے کے بعد ہی عام طور پر یہی خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ آر ایس ایس کو یہ نصیحت پہلے اکثریتی فرقے کی چند ایسی تنظیموں اور تیز طرار لیڈروں کوکرنی چاہیے۔ جواقلیت کے تعلق سے متنازع باتیں کرتے رہتے ہیں۔

آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے حال میں چند مخصوص مسلم تنظیموں کے نمائندوں سے ملاقات کے دوران ایک بار پھر اس بات پر زور دیااور کہا کہ ہندووں اور مسلمانوں کے آباؤاجداد ایک ہی ہیں اور اگر  اس  پر غور کیا جائےتو پھر ملک کا ہرشہری ہندو ہی کہلایا جائے گا۔

اس سے قبل بھی انہوں نے یہی باتیں کی تھیں اورایک  تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا، تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دوسرے نظریات کی توہین کر رہے ہیں،لیکن اکثر وہ رو میں بہہ جاتے ہیں۔ حال میں ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کے غلبہ کے لیے نہیں ملک کے غلبے کے لیے فکر کرنا ہوگا۔ جبکہ مسلمانوں کو یہ نصیحت کی ہے کہ  مسلم قیادت کو بنیاد پرستی کے خلاف بات کرنے کی ضرورت ہے،’ یہ ایک طویل المدتی کوشش ہونا چاہیے اور ظاہر ہے کہ صبر وتحمل کی ضرورت ہو گی۔ یہ ہم سب کے لیے ایک طویل اور سخت امتحان بھی ہے۔ جتنی جلدی ہم شروع کریں گے، ہمارے معاشرے کو اتنا ہی کم نقصان پہنچےگا،مطلب ساری کی ساری ذمہ داری مسلمانوں کے  سر پر تھوپ دی گئی ہے۔

موہن بھاگوت نے اس بار دوقدم بڑھ کر یہ بھی کہہ دیا کہ برصغیر میں اسلام حملہ آوروں کے ساتھ آیاتھا اور اس طرح انہوں نے تاریخی حقائق کو حسب معمول توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

حالانکہ اس وقت ملک  میں جو صورت حال ہے اس میں آر ایس ایس سربراہ کو انتہا پسندی کے حوالے سے مسلمانوں کو مشورہ دینے کے بجائے ہندو تنظیموں کو دینا چاہیے۔ کیونکہ ملک کی شمالی ریاست اترپردیش سمیت دیگر پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات سے پہلےچند انتہا پسند گروپ مسلمانوں کو کھلے عام تشدد کا نشانہ بنارہےہیں۔ حال میں کانپور میں ایک رکشہ والے اور پھر ایک چوڑی فروش کی بلاوجہ پٹائی کی گئی ،گزشتہ چند سال کے دوران ایسےان گنت واقعات پیش آئے ہیں ۔ کچھ احتجاج اور ان واقعات کے خلاف آواز اٹھائے جانے کے بعد عام طور پر مسلمان نہ صرف صبر و ضبط کا مظاہرہ کر رہے ہیں،بلکہ اکثریتی فرقے کے باشعور افراد اور تنظیموں سے ہاتھ ملاکر اپنی بات ارباب اقتدار تک پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ملک میں اکثریتی فرقے کی  ان تنظیموں کی سرگرمیاں تو سب پر عیاں ہو چکی ہیں، تاہم انہیں کھلی چھوٹ حاصل ہے۔

معروف اسکالر ظفرالاسلام کی اس بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ” موہن بھاگوت جی ملک میں اسلامی تاریخ سے متعلق بھی کذب گوئی سے کام لے رہے ہیں،اسلام ہندوستان حملہ آوروں کے ساتھ کبھی نہیں پہنچا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں اسلام صوفیاء کرام نے پھیلایا اور مسلم حکمرانوں کی آمد سے بہت پہلے ہی اسلام اس خطے میں پہنچ چکا تھااور تاریخ گواہ ہے کہ مسلم حکمرانوں نے کبھی بھی اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی کوشش نہیں کی۔ ‘‘

مک کاجائزہ لیں تو تاریخی اعتبار سے ملک  کی سب سے پہلی مسجد جنوبی ہند کی ریاست کیرالا میں واقع ہے، ملبار ایک ایسا علاقہ ہے، جہاں مسلم حکمرانوں نے کبھی بھی حملہ نہیں کیا۔ عرب قبل اسلام اس علاقے سے تجارت کرتے رہے تھے۔

دراصل آر ایس ایس ایک قوم پرست سخت گیر تنظیم کے طور پر معروف ہے اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہمیشہ سنگھ اور اس کی ہمنوا تنظیموں پر تنقید ہوتی رہتی ہے اس لیے اندرون ملک ان تنظیموں کو اس طرح کے پروگرام کرنے پڑتے ہیں ،  اور اعتدال پسندظاہر کرناپڑتا ہے ۔ البتہ حقیقت یہ ہے کہ چندسال کے دوران یہ سب ایک ایجنڈے کے تحت اقلیتی فرقے کو دبانے کے لیے کیا جارہا ہے۔ ان سرگرمیوں پر حکمراں جماعت کی خاموشی ان عناصرکے حوصلے بلندکیے ہوئے ہیں۔

آر ایس ایس کے سربراہ کا یہ بیان کا وقت ایسا ہے، جب ٹی وی نیوز چینلز،سوشل میڈیا اور عام طور پر سبھی طالبان کے حوالے سے بحث میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ دراصل اس بحث میں گرما گرمی اس وقت پیدا ہوئی جب شاعرو نغمہ نگار جاوید اختر نے طالبان کو وحشی بتاتے ہوئے ،آر ایس ایس کا موازنہ بھی طالبان سے کردیا تھا۔ ان بحث میں پڑے نیوزچینلز اور مفکرین ملک میں  مسلمانوں پر سر عام تشددپر توجہ نہیں دے رہے ہیں جو ایک معمول بن گیا ہے۔ مسلمانوں پر بلا اشتعال حملے عام طورپر ہورہے ہیں،اورحکومت کی طرف سے ان کی کوئی مذمت نہیں کی جاتی ہے،اس سے پہلے  ایک رکشہ والے کی پٹائی کاذکرکیاگیاہے۔ ایک 45 سالہ رکشہ ڈرائیور کو کانپور کی گلیوں میں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور ان کی چھوٹی سی بچی  تشدد پر آمادہ افراد سے اپنے باپ کو بچانے کے لیے داد فریاد کر رہی تھی۔ رکشہ ڈرائیور کو ہندوستان زندہ باد، جے شری رام جیسے نعرے لگانے پر مجبور کیاجار ہاتھا۔ مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں بھی ایک چوڑی فروخت کرنے والے مسلمان کی ویڈیو سامنے آ گئی جس کی  ایک ہجوم پٹائی کررہاتھا۔ لیکن حیران کن طور پر پولیس نے تسلیم علی کو دوسرے دن گرفتار کر لیا۔ اور اس پر ایک نابالغ لڑکی سے زیادتی کرنے کا الزام لگایاگیا۔ حالانکہ تسلیم علی کے خاندان والوں اور غیر مسلم پڑوسیوں  نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔

ملک کے کئی شہروں میں مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے ان دو واقعات کے علاوہ بھی اگست میں بہت سے دوسرے ایسے واقعات پیش آئے ہیں۔ اسی نوعیت کے حملے گزشتہ مہینوں میں بھی پیش آتے رہے ہیں ۔ عام طوریہ خیال ظاہر کیا جاتاہے کہ 2014 میں بی جے پی کے مرکز میں برسر اقتدار آنے کے بعد  نفرت اور تشدد مزید بڑھ گیا ہے۔ ویسے ہندوستان میں مذہبی تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن یہ اقتدار میں آنے والوں کی حکمت عملی اور سیاسی ہتھکنڈوں کانتیجہ بن چکاہے۔ گزشتہ چند سال کے دوران مذہبی تقسیم  میں اضافہ ہوا ہے اور اس میں شدت پیدا ہوگئی ہے۔ حکومت  نے اس کا اظہار ضرور کیا ہے کہ اس کی نظر میں لنچنگ بری چیز ہے، چاہے جہاں بھی ہو۔ لیکن امن و امان ریاستوں کی ذمہ داری ہے اور انھیں ہی اس سے نمٹنا ہے،جبکہ  میڈیا پر جانبداری کا الزام بھی لگایاجاتاہے۔

حال میں ملک کے کچھ علاقوں میں اقلیتی فرقے پر حملے کا ایک نیا انداز اور سلسلہ شروع ہوا ہے ،یعنی پیشہ ور مسلمانوں جیسے پھل فروش، درزی، بجلی کام کرنے والے، رکشہ چلانے والے اور ایسے مزدوری پیشہ افراد کو نشانہ بنایا جارہا ہے، جوکہ مشترکہ سماج کاحصہ ہیں۔ دراصل ان عناصر کامقصد قوم پرستی کے نام پر ان کا معاشی استحصال کرنا ہے۔ اس لیے سنگھ سربراہ بھاگوت کے لیے یہ لازمی ہوجاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اکثریت کے ایسے عناصر کو بھی نصحیت کریں جو ملک اور شری رام کے مقدس نام کا استحصال کررہے ہیں،جو ہمیشہ خیرسگالی اور بھائی چارہ کی علامت بنے رہے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔