جھارکھنڈ میں خسرہ روبیلا سے ہوگی بچوں کی حفاظت

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

علاج کئے جانے لائق بیماریوں سے بچاؤ کا ٹیکہ کاری ایک مؤثر اور سستا طریقہ ہے۔ دنیا بھر میں چھوٹے بچوں کی حفاظت کے لئے اسے اپنایا جاتا ہے۔ بھارت نے بھی امیونائزیشن کے ذریعہ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات کو کم کرنے میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ ٹیکہ کاری کے دم پر ہی 2014 میں ملک نے پولیو جیسی گھاتک بیماری سے چھٹکارا حاصل کیا اور 2015 میں ٹیٹنس کو بائے بائے کہہ دیا۔ اس وقت خسرہ روبیلا سے بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 2015 میں اس خطرناک بیماری سے عالمی سطح پر 134200 بچے موت کا نیوالا بنے تھے جن میں سے قریب 49200 موتیں صرف بھارت میں ہوئی تھیں یعنی تقریباً 37 فیصد۔ ان اموات کی وجہ بنیادی طور پر خسرہ میں پیچیدگی، ڈائریا اور نمونیا تھی۔

خسرہ تیزی سے پھیلنے والی بیماری ہے۔ پانچ سال تک کے بچوں میں موت کی ایک وجہ۔ تیز بخار، بدن میں لال چکدے بننا، دست، کف، ناک سے پانی ٹپکنا اور آنکھیں لال ہو جانے کی علامتوں سے اسے پہچانا جاتا ہے۔ خسرہ سے بچاؤ کا ٹیکہ امیونائزیشن پروگرام میں پہلے سے شامل ہے۔ اس کی دو خوراکیں دی جاتی ہیں۔ پہلی 9 سے 12 اور دوسری 16 سے 24 ماہ پر۔ بہ ظاہر خسرہ جیسی علامتیں ہی روبیلا میں نظر آتی ہیں لیکن روبیلا خسرہ سے زیادہ خطرناک ہے۔ یہ انسان کے دفاعی نظام کو توڑ دیتی ہے، جس کی وجہ سے کمزور جسم میں کوئی بھی دوسری بیماری داخل ہو سکتی ہے۔ اگر کسی حاملہ عورت کو یہ بیماری ہو جائے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ مثلاً بے وقت اسقاط حمل ہو سکتا ہے، اس کی کوکھ میں پل رہا بچہ پیدائشی طور پر دل، دماغ کا مریض یا پھر اندھا، بہرا، گونگا ہو سکتا ہے۔ حکومت 2020 تک اس بیماری سے ملک کو نجات دلانا چاہتی ہے۔ اس کے لئے فروری 2017 میں مرحلہ وار میزل روبیلا ٹیکہ کاری مہم شروع کی گئی۔ جس کے تحت 9 ماہ سے 15 سال تک کے سبھی بچوں کو ٹیکہ لگایا جانا ہے۔

یہ مہم پندرہ ریاستوں میں کامیابی کے ساتھ مکمل ہو چکی ہے۔ جھارکھنڈ سولہویں ریاست ہے جہاں خود وزیر اعلیٰ رگھوورداس نے خسرہ روبیلا مہم کی 26 جولائی کو صوبہ کے سب سے بڑے اسپتال ریمس میں شروعات کی۔ اس موقع پر انہوں نے اعلان کیا کہ میزل روبیلا ٹیکہ کاری مہم میں اچھا کام کرنے والے پانچ اے این ایم، پانچ سہیا اور پانچ اسکولوں کو اعزاز سے نوازا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکہ کاری مہم کو لے کر بیداری کے ساتھ ساتھ مقابلہ کا ماحول بننا چاہئے کہ ہمارے بچے، علاقے اور اسکول کے سبھی بچوں کو پہلے ٹیکہ لگے۔ اس سے مقرہ وقت میں ٹیکہ کاری مکمل ہو سکے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست میں اطفال اموات شرح میں کمی آئی ہے لیکن امومیت اموات شرح اب بھی قومی اوسط سے زیادہ ہے اس لئے آنگن واڑی سیویکا سہیا کو چاہئے کہ وہ حاملہ خواتین کو تغذیہ بخش غذا کے بارے میں جانکاری دیں اور سماج اس کام میں ان کی مدد کرے تبھی تندرست اور صحت مند بچے پیدا ہو سکیں گے۔

ریاست کی سکریٹری صحت ندھی کھرے کے مطابق جھارکھنڈ میں خسرہ روبیلا مہم پانچ مراحل میں مکمل ہوگی۔ یہاں 1.17 کروڑ بچوں کو ٹیکہ لگانے کا ہدف ہے۔ یہ ٹیکہ ان بچوں کو بھی دیا جائے گا جنھیں پہلے خسرہ کا ٹیکا لگ چکا ہے۔ یہ مہم پولیو کے مقابلہ تین گنا بڑی ہے۔ خسرہ روبیلا کا ٹیکا 9 ماہ سے 15 سال تک کے بچوں کو دیا جانا ہے جبکہ پولیو کی دوا پانچ سال تک کے بچوں کو ہی پلائی جاتی ہے۔ اس لئے مہم کو کامیاب بنانے کے لئے زیادہ مین پاور کی درکار ہے۔ سکریٹری صحت نے کہا کہ پہلے دو ہفتہ میں تمام سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں میں ٹیکے لگائے گئے۔ وہاں ڈاکٹروں کی موجودگی میں تربیت یافتہ اے این ایم نے ٹیکے لگائے۔ ٹیکہ لگنے والے بچوں کو ایک گھنٹہ نگرانی میں رکھا گیا۔ کیونکہ اگر کوئی بچہ ٹیکہ لگنے پر گھبراہٹ یا متلی کی شکایت کرے تو اسے فوراً طبی امداد دی جا سکے۔ اسکول کے طلبہ و اساتذہ کو بیدار کرنے کے لئے آلوک بھارتی جیسے اداروں کی مدد لی گئی تھی۔ انہوں نے اسکولوں میں پینٹنگ، کویز، ڈرامہ اور عام معلومات کے مقابلوں کے ذریعہ بیداری پیدا کرنے کا کام بڑی خوبی کے ساتھ کیا ہے۔ اسکولوں کے بعد آنگن باڑی مراکز میں یہ مہم چلائی جا رہی ہے۔ جہاں آنگن باڑی مراکز نہیں ہیں وہاں سینٹر بنا کر مہم چلائی جا رہی ہے۔ جمعرات اور ہفتہ کو ہونے والی معمول کی ٹیکہ کاری میں بھی اس ٹیکہ کو شامل کیا گیا ہے۔ پانچویں ہفتہ میں ماپ اپ راؤنڈ چلے گا، جس میں چھوٹے ہوئے بچوں کو کور کیا جائے گا۔

نگرانی کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے بتایا کہ ریاست بھر میں 497 نگرانی سینٹر بنائے گئے ہیں۔ جہاں سے مہم کی پوری نگرانی کی جا رہی ہے۔ مہم کو کامیاب بنانے کیلئے گیارہ محکموں کا تعاون لیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ڈبلیو ایچ او، یونیسیف، یو این ڈی پی، لائنس کلب، روٹری کلب، آئی ایم اے، آئی پی اے وغیرہ تنظیمیں اور طبی ادارے اس مہم کو کامیاب بنانے میں اپنا تعاون پیش کر رہے ہیں۔ کرکٹ کھلاڑی سوربھ تیواری کو بھی اس مہم کا برانڈ ایمبسڈر بنایا گیا ہے۔ خسرہ روبیلا کا سنگل ٹیکہ ایک بار دینے کے بعد یہ معمول کے ٹیکہ کاری پروگرام میں گیارہویں ٹیکے کے طور پر شامل ہو جائے گا۔ ایم آر ٹیکے کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کے متعلق مرکزی وزارت صحت میں امیونائزیشن کے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر پردیپ ہلدر نے بتایا کہ ہر مرض کا کوئی مقامی نام موجود ہے لیکن روبیلا کا کوئی لوکل نام نہیں ہے۔ کئی لوگ اسے جرمن خسرہ کہہ کر پکارتے ہیں اس کی وجہ سے لگتا ہے کہ اس کا ٹیکہ بھی باہر سے آیا ہوگا جبکہ سچائی یہ ہے کہ یہ ٹیکہ سینٹرل ڈرگس اسٹینڈرڈ کنٹرول آرگنائزیشن کی نگرانی میں بھارت میں ہی بنا ہے۔ پچھلے چالیس سال سے دنیا کے کئی ممالک اسے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ پوری طرح محفوظ ہے اور اس کا کوئی سائڈ افیکٹ نہیں ہے۔

جھارکھنڈ سے پہلے پندرہ ریاستوں میں قریب 12.56 کروڑ بچوں کو خسرہ روبیلا کا ٹیکہ لگ چکا ہے۔ پہلے مرحلہ کے تحت فروری 2017 میں پانچ ریاستوں تمل ناڈو، کرناٹک، گوا، لکشدیپ اور پڈوچیری کے 3.3کروڑ بچوں کو ایم آر ٹیکہ دیا گیا تھا۔ ان صوبوں میں 97 فیصد کوریج رہا۔ دوسرے مرحلے میں آٹھ ریاستوں آندھرا پردیش، چنڈی گڑھ، دادر اینڈ نگر حویلی، دمن اینڈ دیو، ہماچل پردیش، کیرالہ، تلنگانہ اور اتراکھنڈ کے3.4 کروڑ بچوں کو اگست 2017 میں میزل روبیلا کا ٹیکا لگایا گیا۔ ملک کے کل 41 کروڑ بچوں کو یہ ٹیکہ دیا جانا ہے۔ اس لحاظ سے ایم آر مہم دنیا کی سب سے بڑی ٹیکہ کاری مہم ہے۔ ڈاکٹر پردیپ ہلدر نے یہ بھی بتایا کہ سو فیصد امیونائزیشن کے بغیر خسرہ روبیلا سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا وائرس اپنے شکار کو تلاش کر اس تک پہنچ جاتا ہے۔ اس لئے سو فیصد کوریج پر زور دیا جا رہا ہے۔ اکثر ریاستوں نے سو فیصد کا ہدف حاصل کیا ہے جبکہ کچھ 97 فیصد کے آنکڑے تک ہی پہنچ پائی ہیں۔

کرکٹ کھلاڑی سوربھ تیواری سے خسرہ روبیلا مہم کو کامیاب بنانے کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ وہ بھی ایک بیٹی کے والد ہیں اسے بھی انہوں نے ٹیکے لگوائے ہیں۔ سرکار کی یہ اچھی کوشش ہے۔ وہ لوگوں کو بیدار کر رہی ہے۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کی صحت کو لے کر فکر مند ہوں اور ضروری معلومات حاصل کریں۔ بچوں کی حفاظت کا یہ موقع گنوانا نہیں ہے۔ سب کو اس مہم میں آگے بڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔ سو فیصد ٹیکہ کاری سے ہی یہ بیماری ملک سے باہر ہو سکے گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صحت کے شعبہ میں سرمایہ کاری بڑھائی جائے تاکہ عام آدمی بیماریوں سے لڑ سکے۔

تبصرے بند ہیں۔