کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ، صحت کے لیے خطرناک

حافظ محمد ہاشم قادی مصباحی

رب العالمین سارے جہانوں کا پالنے والاہے اور اپنی تمام مخلوق کا رزق اپنے ذمہ کرم پر لیا ہوا ہے، یہ اس کی رحمت اور اس کا فضل عظیم ہے۔ علامہ صاوی رحمۃاللہ علیہ فر ماتے ہیں کہ تمام جانداروں کو رزق دینا اللہ تعالیٰ پر واجب نہیں کیو نکہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس پر کوئی چیز واجب ہو،زمین کے تمام جاندارغذا کے محتاج ہیں جبکہ آسمانی جاندار جیسے فرشتے اور حور عین، یہ رزق کے محتاج نہیں اِن کی غذا تسبیح وتہلیل ہے۔ (تفسیر خازن،تحطاوی شریف :ج3/ص900سے901)

اللہ رب العزت نے رزق کی صورت میں بے شمار نعمتیں پیدا فر مائیں اور فر مایا:’’کھائو اور پیو اور حد سے نہ بڑھو‘‘۔ ہر چیز کھائو لیکن حرام وحلال کی تمیز کے ساتھ حرام سے بچو اور جو حلال ہے اپنے اوپر حرام نہ کرلو اور اسراف(فضول خرچی) اور تکبر سے بچو۔

قرآن کی آدھی آیت میں کھانے پینے اور علم طب کی حکمت: خلیفہ ہارون رشید کا ایک عیسائی طبیب،ڈاکٹر علم طب میں بہت ماہر تھا، اس نے ایک مرتبہ حضرت علی بن حسین واقد علیہ الرحمہ سے کہا، علم دو طرح کا ہے( 1) علمِ ادیان – ( 2) علمِ ابدان۔ اور تم مسلمانوں کی کتاب قرآنِ پاک میں علم طب سے متعلق کچھ بھی مذ کور نہیں۔ آپ رحمۃاللہ علیہ نے اس عیسائی طبیب کو جواب دیا:’’ اللہ تعالیٰ نے ہماری کتاب کی آدھی آیت میں پوری طِب کو جمع فر مادیا ہے

کُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُوْا۔ ‘‘

عیسائی طبیب نے حیران ہوکر پوچھا: وہ کون سی آیت ہے؟ آپ رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا: وہ اللہ کا یہ فر مان ہے۔ ترجمہ: کھائو اور پیو اور حد سے نہ بڑھو۔ (تفسیر قرطبی ج: 4 ص139، الجزء السابع)

کھانے پینے کی چیزوں میں جہاں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ کون سی چیز انسانی طبیعت کے خلاف اور صحت کے لیے نقصان دہ ہے،ڈاکٹروں،طبیبوں کے مشورے پر بہت سی حلال چیزیں بھی کھانا پینا بند کر دی جاتی ہیں اور کرنا بھی چاہیے تاکہ صحت بہتر رہے،انسان طاقت ور بنا رہے۔ اللہ کو طاقت ور مومن بندہ پسند ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول کریم ﷺ نے فر مایا:’’ طاقتور مومن،کمزور مومن سے بہتر ہے اور اللہ کے نزدیک زیادہ پسند یدہ ہے،تاہم خیر تو دونوں میں ہی ہے۔ جو چیز تمھارے لیے فائدے مند ہو،اُس کی حرص رکھو اور اللہ سے مدد مانگو اور عاجز نہ بنو۔ ( صحیح مسلم،حدیث:79،21899،2664)

آج کا انسان اپنی صحت کے بارے میں بہت فکر مند رہتا ہے اور اپنے فائدے کی چیزوں کا استعمال کرتاہے۔ لیکن افسوس جہاں دنیا وی فائدے یا نفع ونقصان پر نظر رکھی جاتی ہے جو اچھی بات ہے،لیکن مذہبی نقطہ نظر سے حرام وحلال پربالکل توجہ نہیں دی جاتی ہے یہ انتہائی شرمناک اور خوفِ خدا سے دوری کا باعث ہے۔ کھانے پینے کی تمام چیزوں میں اسلامی نقطئہ نظر سے معلومات ہونی چاہیے،اگر نہیں معلوم ہے تو معلوم کر نا چاہیے جس طرح طبیب و حکیم اور ڈاکٹروں سے معلوم کر تے ہیں،اُن کو تو مہنگی فیس دے کر معلوم کرتے ہیں،لیکن علما ئے کرام ومفتیان عظام تو فیس نہیں لیتے، ان سے رابطہ کرکے حلا ل و حرام کی تفصیلات پوچھنا چاہیے بغیر فیس کے ان شا ء اللہ آپ کی رہنمائی کی جائے گی۔ کھانے اورپینے کی تمام چیزیں حلال سوائے اُن کے جن پر اسلامی قانون شریعت میں دلیلِ حُر مت قائم ہو کیونکہ یہ قائدہ مقررہ مُسلّمَہ ہے کہ تما م اشیاء میں اصل اباحت (جواز، یا جائز کرنا ہو)ہے،مگر جس پر شارع نے ممانعت فر مائی ہو اور اس کی حرمت دلیلِ مستقل سے ثابت ہو وغیرہ وغیرہ۔ زیادہ معلومات کے لیے فقہ اسلامی کی کتب قانون شریعت،بہارِشریعت کا مطالعہ فر مائیں۔

کرونا کال،ماب لنچنگ کی دہشت کے سائے میں سفر:

 یہ مضمون لکھنے کا محرک واقعہ قابل مطالعہ ہے،کرونا کی دوسری شدید لہر،ہجومی تشدد والی دہشت گردی کے سائے اور ملکی حالات کے مخدوش حالِ زار موب لنچنگ کے ماحول میں جمشید پور سے کانپور کا سفر بھونیشور،دہلی سمپرک کرانتی02819 سے 13 جون کو ہوا ٹرین صحیح وقت پر آئی AC, 3 میں برتھ تھی لیٹ گئے صبح ہی صبح pantry car کے ورکر نے چائے چائے کی آواز بلند کی میں جاگا ہوا تسبیح وتہلیل میں مصروف تھا، ایک چائے کا مطالبہ میں نے کیا اور اُس نے چھوٹے سے کپ میں آدھے کپ سے بھی کم چائے دی میں نے کہا بیٹا چائے بہت کم ہے۔ بس بولنا جُرم ہو گیا چائے بیچنے والے لڑکے نے اتنے تُرش لہجے میں جواب دیا10 روپئے میں پورا جگ بھر چائے لیں گے کیا؟ میں ہکا بکا رہ گیا اور بغرض مصلحت چپ رہا۔ راستے بھر میں سوچ میں پڑا رہا کہ کیا میرا بولنا غلط تھا؟ یا صبر کرنا غلط تھا ؟وغیرہ وغیرہ، یا موجودہ ملکی حالات میں جو زہر گھول دیا گیا ہے اُس کا اثر ہے یا ایک چائے بیچنے والا ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے اس کا اثر ہے قارئین فیصلہ بہتر کریں گے۔

اللہ اللہ کرکے واپسی کا سفر بہو کے ساتھ 20جون نئی دہلی پوری نیلانچل اکسپریس02876 AC,3 سے ہوئی اور موری اسٹیشن سے پہلے ہی صبح چائے چائے کی آواز نے کئی مسافروں کو جگا دیا، الحمد للہ! میں جاگا ہوا تھا اور،اورادو وطائف میں اللہ کی بار گاہ میں مشغول عافیت کے ساتھ گھر پہنچنے کی دعائیں مانگ رہا تھا میں نے بھی چائے لی اور چائے کا کپ پکڑا تو دیکھا کہ چائے کا رنگ ایکدم لال تھا، میں نے پیسے دیتے ہوئے چائے بیچنے والے vendorسے شکایت کی تو چائے فروش نے کہا کہ رات کی بچی ہوئی چائے ہے اسی لیے کلر ایسا ہے، میں نے بہت آہستہ اور حسرت بھرے لہجے میں کہا بیٹا یہ تو مناسب بات نہیں کہ باسی چائے آپ فروخت کریں؟ اُ س کا سیدھا سپاٹ ٹَکا سا جواب تھا پینٹی کار میں جاکر شکایت کریں میں نے آگے چپ رہنے میں عافیت سمجھی ہفتہ بھر پہلے کا تجربہ اورخوف سے بھرے ماحول پر صبر کرنا ہی بہتر سمجھا بہر حال میں نے بسکٹ کا پیکٹ کھول کر چائے میں بھیگا یا اور منھ میں ڈالا ہی تھا کہ بد ذائقہ لگا اور زبان بھی چنچنانے لگی منھ بھی جلنے لگا،میں نے جلدی سے کلی کیا اور پانی پیا چائے کو جب میں نے پھینکا تو ٹرین کی فرش پر بُج بُجے اُٹھنے لگے اور فرش پورا خون خون کی طرح لال ہوگیا۔ یہ ہمارے ملک ہندوستان کا ہی تو کمال ہے کہ ایک چائے بیچنے والا شخص چائے بیچتے،بیچتے ملک کا پرائم منسٹر بن کر ہزاروں ہزار کروڑوں کے جہاز میں گھوم پھر سکتا ہے، تو دوسرے چائے والے ملاوٹی چائے بیچ کر کروڑ پتی کیوں نہیں بن سکتے؟۔ توبہ توبہ کیسا زمانہ آگیا کہ لوگ منافع کمانے کے لیے کھانے پینے کی چیزوں میں کیسی کیسی ملاوٹ کر رہے ہیں۔ یہ کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں اس طرح کے انگنت واقعات ہمارے آپ کے مشاہدے میں آرہے ہیں؟ انسانوں کی پستی اور گراوٹ کا معاملہ کہا ںتک جا پہنچا جو جان لیوا بھی ہورہا ہے۔ اسی طرح اور بھی شعبوں میں لوٹ، کھسوٹ، بد دیانتی جاری ہے۔ میڈیکل لائن میں مریضوں کی جان بچانے والی مہنگی دوائوں میں بھی نقلی دوائوں کا کاروبار بامِ عُروج پر ہے۔ حکو متوں میں بیٹھے رشوت خور نیتائوں کی ملی بھگت سے آفیسران اورمنافع خور تاجران دیدہ دلیری سے اِنسانی جانوں سے کھلواڑ کرر ہے ہیں، ہے کیا کوئی دیکھنے والا؟ کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ،ناقابلِ معافی جُرم ہے۔

پاکیزہ اور حلال کھانے کی فضیلت،ناپاک وحرام کھانے کی مذمت:

مذہب اسلام کو یہ اعجاز حاصل ہے کہ اُس نے صرف اپنے ماننے والوں کو ہی نہیں بلکہ ساری انسانیت،ساری دنیا کے لوگوں کو زندگی گزار نے،سنوارنے کے طریقے بتائے افسوس صد افسوس کہ اسلام کے ماننے والے ہی اسلامی تعلیمات سے دور ہوتے جارہے ہیں تو دوسروں کے لیے قابل تقلید کیسے بنیں گے؟ پاک اورصاف کھانے کے آداب جو اسلام میں ملتے ہیں وہ دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں ملتے،زندگی کے سب سے اہم شعبے کھانے پینے کے طریقے کو اسلام نے بہت تفصیل کے ساتھ قر آن و احادیث میں بتائے ہیں۔ یہانتک کہ دنیا کو راہ راست پر لانے والے پیغمبرانِ عظام ورسولانِ عظام کو بھی رب تبارک وتعالیٰ نے کھانے پینے کی چیزوں کی تاکید فر مائی۔ جہاں کفار ِمکہ نبی آخر الزماں ﷺ پر یہ اعتراض کرتے تھے کہ یہ کیسے رسول ہیں جو کھانا کھاتے ہیں۔

وَقَالُوا مَالِ ہَذَا الرَّسُولِ یَأْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِیْ الْأَسْوَاقِ۔ ترجمہ: اس رسول کو کیا ہوا؟ کہ یہ کھانا بھی کھاتا ہے اور بازاروں میں بھی چلتا پھرتا ہے۔ ( القر آن، سورہ الفرقان:25آیت7) -نبی کریم ﷺ پر اعتراض کا جواب رب تعالیٰ نے دیا!:وَمَا جَعَلْنَاہُمْ جَسَداً لَّا یَأْکُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا کَانُوا خَالِدِیْن (8) ثُمَّ صَدَقْنَاہُمُ الْوَعْدَ فَأَنجَیْْنَاہُمْ وَمَن نَّشَاء وَأَہْلَکْنَا الْمُسْرِفِیْنَ۔ تر جمہ: اور ہم نے انہیں کوئی ایسے بدن نہ بنایا تھا کہ وہ کھانا نہ کھائیں اور نہ وہ دنیا میں ہمیشہ رہنے والے تھے۔ پھر ہم اپنا وعدہ انہیں سچا کر دیکھا یا تو ہم نے انہیں اور جن کو چاہا نجات دی اور حد سے بڑھنے والوں کو ہلاک کردیا۔

ہر زمانے میں آنے والے رسولانِ عظام کے بدن بھی بشری تقاضوں کے تحت کھانے پینے کی ضرورتوں کے تحت تھے،ہاں رسولانِ عظام اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے چیزوں میں دوسروں سے اعلیٰ و ارفع رہے ہیں۔ رب نے ان کے بدن مبارک کو ایسا نہیں بنایا جنھیں کھانے پینے کی حاجت نہ ہو، یونہی وہ دنیا میں ہمیشہ رہنے والے نہ تھے بلکہ عمر شریف پوری ہو جانے کے بعد ان کی بھی وفات ہوئی اور جب رب تعالیٰ کا طریقہ ہی یہی ہے تو کفارِ مکہ یا اور کسی کا رسول کریم ﷺ کے کھانے پینے پر اعتراض کرنا محض بے جا اور جہالت پر مبنی و فضول ہے۔ ( تفسیر کبیر و روحُ البیان،ج:8ص122 مدارک،ص 457 تفسیر جلالین،ج:9،ص 270 وغیرہ) اسلام جہاں پاک وصاف چیزیں کھانے کی ترغیب دیتاہے، تو وہیں گندی،غلاظت والی چیزوں کے کھانے پینے کو بھی سختی سے منع کرتاہے۔ ’’ موجودہ دور کا یہ ا لمیہ ہے کہ لوگ صحت کے نقصان کے بارے میں سوچتے ہیں اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچتے ہیں۔ لیکن؟ اسلامی قانون شریعت میں جو چیزیں حرام ہیں اُن کی طرف توجہ نہ کے برابر ہے جو کہ انتہائی شرم اور فکر کی بات ہے۔

انبیائے کرام معصوم عن الخطا ہیں: تمام اُمت کااس بات پر ایمان ہے کہ انبیائے کرام معصوم ہیں پھر بھی رب تعالیٰ نے انبیائے کرام کو بھی حکم فر مایا:

یَا أَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحاً إِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیْمٌ۔

ترجمہ:اے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھائو اور اچھا کام کرو،بیشک میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں۔

( القر آن،سورہ المومنون:23 آیت51)

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول علیہم الصَّلٰوۃُ و السلام کو پاکیزہ اور حلال چیزیں کھانے کا حکم دیا اور قر آن مجید میں دوسرے مقام پر یہی حکم اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کوبھی دیا:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُلُواْ مِن طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَاشْکُرُواْ لِلّہِ إِن کُنتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُونَ۔

 تر جمہ: اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھائو اور اللہ کا شکر ادا کرو گر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔

(القرآن،سورہ بقر:2آیت 172)

رب تعالیٰ نے کئی مقامات پر حلال کھانے،حرام سے بچنے کی تاکید فر مائی ہے۔ حلال کھانے کا تاکیدی حکم27 جگہ اورحرام کھانے کاعذاب ومذمت کے احکام52 جگہوں پر قر آن مجید میں آیا ہے۔ اگر اسلام کا نور سینے میں اُترا ہواہے تو کلامِ الٰہی قر آن مجید کا بتا یا ہوا اُسلوبِ زندگی گزار نے کا طریقہ اپنائیے جو سارے انسانوں کی ہدایت کے لیے ہی اُترا ہے اور سبھی کے لیے رہنمائی بھی اس میں ہے۔ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ۔

 *ترجمہ: رمضان کا مہینہ جس میں قر آن اترا لوگوں کی "ہدایت ـ” اوررہنمائی کے لیے اور فیصلہ کی روشن باتیں اسمیں ہیں*۔

(سورہ بقرہ:2آیت185) قرآن مجید سراسر ہدایت ہی ہے،106جگہوں پر صراحت کے ساتھ ہدایت کا ذکر رب تعالیٰ نے فر مایا:

ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْْبَ فِیْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ

۔ تر جمہ: وہ بلند رتبہ کتاب(قرآن) کوئی شک کی جگہ نہیں اس میں "ہدایت” ہے ڈر والوں کو۔

( سورہ بقر،2آیت2)حلال کی فضیلت اور حرام کی مذمت احادیث طیبہ میں بھی صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے ارشاد فر مایا:’’ جو شخص پاکیزہ(یعنی حلال) چیز کھائے اورسنت کے مطابق عمل کرے اور لوگ اس کے شر سے محفوظ رہیں تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (تر مذی،حدیث:2528) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا:’’ ہر وہ جسم جو حرام سے پلا بڑھا تو آگ اس سے بہت قریب ہوگی۔ ( شعب الایمان، حدیث:5759) وغیرہ وغیرہ۔

کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ جان کا خطرہ اور بد د یا نتی بھی:

آج معاشرے میں کھانے پینے سے لیکر ہر طرح کی چیزوں میں ملاوٹ اور نقلی سامانوں کا دور ہے جو سخت گناہ اور بد دیانتی بھی ہے اور ملکی قانون کے بھی خلاف ہے۔ اس کے باوجود نفع زیادہ کمانے کی لالچ میں انسانوں نے حلال وحرام کی کی تمیز چھوڑ دی ہے،انسانوں کی جان کی بھی پرواہ نہیں رہی۔ ناجائز منافع خوری، ناپ تول میں کمی، کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ عام سی بات ہوگئی ہے۔ کھانے کی چیزوں میں سب سے سستا نمک ہے، مگر افسوس ملٹی نیشنل کمپنیوں،Multinational cpmpany (کئی ملکوں میں پھیلاہوا کاروبار) والی کمپنیوں کے پیکنگ شدہ نمک کی فروخت کرنے منافع زیادہ حاصل کرنے سے نمک جیسی چیز میں پتھر پیس کر ملاوٹ کی جارہی ہے۔ چنے کے چھلکوں سے چائے کی پتی اور پھر اس میں جانوروں کا خون اور صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ رنگ بھی ملا یا جارہا ہے،بیکریوں میں گندے سڑے انڈوں کا استعمال،آٹے میں میدے کی ملاوٹ،مرچوں میں پپیتے کے بیج کی ملاوٹ،مشہور برانڈ کی کمپنیوں کے ڈبوں میں غیر میعاری اشیاء کی پیکنگ جیسی دھوکہ دہی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ ملاوٹ مافیہائوں کا خطر ناک کھیل ڈٹر جنٹ اور پانی کی آمیزش سے بنا ہوا دودھ وغیرہ وغیرہ ہزاروں ہزار چیزیں ہیں ایک دو ہوں تو گنا یا جائے دو چار ہوں تو اس کا رونا رویا جائے، حالات بد سے بد تر ہیں اسلام کا تو واضح پیغام ہے

’’جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں حدیث۔

خدائی قانون و حکو متی قوانین کے باوجود ملاوٹی دھندہ عروج پر ہے۔ اسلام نے انسان کی اچھائی یا بُرائی کا میعار معا ملات کی درستگی پر رکھا ہے نہ کہ عبادت پر؟ اُف یہ بے حسی بے شرمی۔ خوفِ خدا،شرمِ نبی کچھ بھی نہیں۔ اللہ ہم سب کو حرام و ناجائز چیزوں کے کھانے پینے سے بچائے حلال چیزوں کے کھانے کی توفیق عطا فر مائے آمین ثم آمین۔

تبصرے بند ہیں۔